• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے کہا ہمارے فیصلوں پر عمل کرو چیف جسٹس بنا دینگے ، جسٹس (ر) فخر النسا

رپورٹ:ریاض شاکر
لاہور: لاہور ہائی کورٹ کی سابق سینئر ترین جج اور سابق ایم این اےجسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے انکشاف کیا ہے کہ مشرف حکومت نے انہیں لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس مقرر کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن یہ شرط لگائی کہ جو فیصلہ وہ لکھوا کر بھجوائیں گے، وہ من و عن اس پر عمل کریں گی اور گارنٹی کے طور پر اپنا استعفیٰ انہیں پیشگی دیں گی۔ اگر کسی آئینی کیس پر لکھا ہوا فیصلہ ان کے پاس آیا تو اس کی روشنی میں کیس کا فیصلہ کریں گی۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے کہا کہ انہوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر انہیں لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس مقرر نہ کیا گیا اور ایک جونیئر جج کو سپر سیڈ کر کے چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے یہ باتیں اپنی کتاب ’’وکالت، عدالت اور ایوان تک‘‘ میں لکھی ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے بچپن ، تعلیمی ادوار، شادی، خواتین کے حقوق کیلئے کی جانے والی جدوجہد اور عدلیہ اور قومی اسمبلی میں اپنے تجربات بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کی رونمائی آئندہ ہفتہ لاہور میں ہو رہی ہے اور دعوتیں بھی دی گئیں ہیں اور چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے لکھا ہے میں لاہور ہائی کورٹ کی سینئر ترین جج تھی اور چیف جسٹس مقرر ہونے پر میں پاکستان کی کسی ہائی کورٹ کی پہلی چیف جسٹس ہو سکتی تھی۔ میرے قانون، انصاف اور انسانی حقوق پر مبنی فیصلوں کو دیکھتے ہوئے مجھے کوئی آئینی کیس نہیں دیا جاتا تھا اورصرف سول فوجداری اور فیملی کیسز میرے پاس آتے تھے۔سینئر ترین جج ہونے کی وجہ سےاس وقت کے صدر پرویز مشرف کیلئے مجھے نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ تبھی ایک روز ایک صاحب میرے گھر متذکرہ پیغام لے کر آئے۔ جسے میں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ حکومت اپنا کٹھ پتلی چیف جسٹس تعینات کرنا چاہتی ہے ۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے لکھا ہےکہ ان کے انکار کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ان سے جونیئر جسٹس افتخار حسین چودھری ان کی عدالت کے ریٹائرنگ روم میں آئے اور کہنے لگے فخر النساء میں آپ کی جگہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بن رہا ہوں۔ اگر آپ اس فیصلے کو چیلنج کئے بغیر قبول کرتی ہیں تو شاید حکومت آپ کو سپریم کورٹ کی جج بنا دے۔ اس طرح آئینی ضرورت بھی پوری ہوگی اور آپ کو بھی سپریم کورٹ میں خواتین کی نمائندگی کا موقع مل جائے گا۔ ستمبر 2002ء میں جنرل مشرف نے جسٹس افتخار حسین چودھری کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعینات کر دیا اور مجھے سپریم کورٹ بھی نہ بھیجا۔ جس پر میرے حق میں میڈیا میں آرٹیکلز بھی شائع ہوئے۔ ایک روز مجھے نوٹیفکیشن ملا کہ میں چیئرمین ماحولیات کمیشن پاکستان بنا دی گئی ہوں حالانکہ مجھے سے پوچھا بھی نہیں گیا تھا۔ حاضر سروس جج سے اس عہدے پر تعیناتی کیلئے پوچھا جانا ضروری ہوتا ہے ۔ اگلے روز تمام میڈیا میں یہ خبریں بھی چھپ گئیں ۔ جسٹس افتخار حسین چودھری نے مجھے فون کیا اور مبارک باد دی اور کہا کہ بی بی آپ کو بہترین امپورٹڈ کاریں ملیں گی۔ تنخواہ بھی موجودہ تنخواہ سے چار گنا زیادہ ہوگی۔ اب اگر میں یہ عہدہ قبول نہ کرتی تو جج کے عہدے سے بھی فارغ ہو جاتی۔ چیف جسٹس افتخار حسین چودھری نے میری کاز لسٹ اور روسٹر بھی منسوخ کر دیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے میری نئی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے لکھا کہ یہ عدلیہ کا سیاہ ترین دور تھا۔ جسٹس افتخار حسین چودھری مجھے سپر سیڈ کر کے چیف جسٹس بن گئے تھے۔ رولز ریگولیشن کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ وہ عملہ کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحانات میں بہت گھپلے ہوتے تھے۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے لکھا کہ حکومت نے مجھے چیف جسٹس ہائی کورٹ نہیں بنایا تو بینظیر بھٹو نے اس کا ازالہ مجھے قومی اسمبلی کا ممبر بنا کرکیا۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے بطور رکن قومی اسمبلی ، بطور وکیل اور بطور جج آئین و قانون کی بالا دستی، خواتین کے حقوق کیلئے کی جانے والی جدوجہد اور اپنے غیر ملکی دوروں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کے حوالہ سے اپنے تجربات بھی لکھے ۔ جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر نے ماریسش کے عبدالقادر بھایات سے اپنی پہلی ملاقات اور پھر نکاح کی تفصیل بھی لکھی ہے۔
تازہ ترین