• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت میں نواز اور مریم کیساتھ ناانصافی ہوئی‘افتخار چوہدری

اسلام آباد(وسیم عباسی)سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہنواز اور مریم کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ بارثبوت استغاثہ پر تھا‘میرا ماننا ہے کہ انصاف کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں۔تفصیلات کے مطابق،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جو کہ حال ہی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سخت مخالف بن کر سامنے آئے ہیں ، انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ احتساب عدالت نے نواز شریف، ان کی بیٹی اور داماد کو سزا سناتے وقت انصاف نہیں کیا۔سابق چیف جسٹس کا ٹی وی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ انصاف کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں۔جب آپ اس عہدے پر فائز ہوں کہ انصاف فراہم کرسکو تو آپ کو کسی دوسری چیز سے غرض نہیں ہونی چاہیئے چاہے آپ کا دشمن ہی آپ کے سامنے کیوں نہ ہو‘‘۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے گزشتہ جمعے نواز شریف کو 10سال ، ان کی بیٹی مریم نواز کو 7سال ، جب کہ ان کے دامادکیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 1سال سزا سنائی تھی۔تاہم سابق چیف جسٹس جنہیں قانونی معاملات میں ماہر سمجھا جاتا ہے ، انہوں نے اس فیصلے میں سنگین غلطیوں کی نشاندہی کی ہےاور احتساب عدالت کے جج پر بہت کمزور فیصلہ سنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ انہوں نے اس مقدمے میں انصاف نہیں کیا۔ایک جانب آپ خود انہیں کرپشن الزامات پر بری کرتے ہیں جب کہ دوسری جانب نیب آرڈیننس کا اطلاق کرتے ہیں ، جس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔سابق چیف جسٹس نےسوال اٹھایا کہ جب آپ تمام ثبوتوں کو مسترد کرکے انہیں تمام کرپشن مقدمات سے بری کرچکےتو پھر سزا کیسے دے سکتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے عدالت میں ایک ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کیلیبری فونٹ کے مسئلے پر رابرٹ ریڈلی ایک گواہ تھا ، جسے عدالت میں بلایا گیا لیکن اس ثبوت سے متعلق ایک لفظ بھی فیصلے میں شامل نہیں اور اس سے فیصلہ کیسے متاثر ہوا تاہم اس کے باوجود مریم نواز کو شیڈول کی سیریل 2(احتساب آرڈیننس 1999سے منسلکہ)کے تحت سزا سنائی گئی ۔سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ ملزمان کو احتساب آرڈیننس 1999کے سیکشن 9(a)(iv)کے تحت بری کردیا گیا جب کہ احتساب آرڈیننس کے سیکشن 9(a)(v)کے تحت سزا سنادی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں شقوں کو علیحدہ علیحدہ نہیں پڑھا جاسکتا۔سابق چیف جسٹس کی رائے تھی کہ ثبوت فراہم کرنا استغاثہ کی ذمہ داری تھی ، تاکہ یہ ثابت کیا جاسکتا کہ ملزمان نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے۔جب میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا نیب نے جان بوجھ کر کمزور کیس بنایا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ میں ایسا نہیں کہتابلکہ میں جج صاحب کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں ۔انہیں آزادانہ حیثیت میں فیصلہ دینا چاہیئے تھا۔اب سیکشن 9(a)(v)کے تحت دی گئی سزائوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ایک جانب وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تو انہیں سزا کیسے دے رہے ہیں؟اگر آپ انہیں اس بات پر سزا دے رہے ہیں کہ انہوں نے یہ جائدادیں بنائیں تو آپ کو لازمی ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔جس سے متعلق ایک لفظ بھی بیان نہیں کیا گیا۔سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے نیب نے ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے۔میرے خیال میں ان کے پاس کچھ ثبوت تھے لیکن انہوں نے عدالت میں جے آئی ٹی رپورٹ ہی دوبارہ پیش کردی۔ان کا کہنا تھا کہ قانون شہادت کے تحت ہمارے کچھ اصول ہیں ، جن کے ذریعے ہم دستاویزات کو ثابت کرسکتے ہیں ، تاہم نیب نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔اگر آپ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءکا بیان پڑھیں تو آپ کو واضح نظر آئے گا کہ جو دستاویزات انہوں نےدوران تحقیقات جمع کیے ، انہوں نے ان کو ہی دوبارہ عدالت میں پیش کردیا۔اسی طرح 18گواہان نے بھی یہی دستاویزات پیش کیے ، لیکن کسی نے بھی ان دستاویزات کو مستند ثابت نہیں کیا۔مثلاً ان کا کہنا تھا کہ ان افراد نے کچھ دستاویزات موزاک فونیسکاسے حاصل کیے تاہم ان دستاویزات کی تصدیق ایف آئی اے نے کی ، جب کہ جرمن کمپنی سے کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی۔اس کے علاوہ ایف آئی نے دستاویزات کے متن سے متعلق کچھ نہیں کہا، انہوں نے صرف اتنا کہا کہ موجود شواہد کی بنیا د پر ہمارا ماننا ہے کہ مریم نواز فلیٹس کی مالکن ہیں کیوں کہ دستاویزات میں کہیں سرور پیلس جدہ کا ذکر تھا۔افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ تمام ثبوتوں کو مدنظر رکھنے کے بعد نیب عدالت کا خود بھی کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ جائداد کا مالک کون ہے۔وہ صرف یہ جانتے تھے کہ نیلسن اور نیسکول کی ملکیت میںیہ جائداد ہے اور اندازے کی بنیاد پر ان کا کہنا تھا کہ یہ جائدادیں مریم کی ہوسکتی ہیں ، تاہم فیصلے میں ایک جگہ بھی نہیں کہا گیا کہ یہ جائداد نواز شریف کی ہے۔اسی طرح حدیبیہ پیپر ملز کیس میں سپریم کورٹ کا بینچ جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے تھے ۔اس نے بھی یہی کہا تھا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہےلہٰذا ہم ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اس کیس کو بند کرتے ہیں۔  

تازہ ترین