• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شامِ یاراں سے سوگِ یاراں

چھٹی جماعت میں پینسل اور ڈرائنگ بک نہ ہونے کے باعث اسکول سے اپنے استاد کے ہاتھوں رسوا ہو کر نکالا جانے والا ایک لڑکا روتا ہوا گھر جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ امی کو بتائے تو کس طرح، ماں آنکھوں میں اپنے بیٹے کے لیے کیا کیا خواب لیے بیٹھی ہے اور اس کا لخت جگر اسکول سے صرف اس لیے نکالا گیاہے کہ ماں کے پاس ڈرائنگ کی کتاب کے لیے تین روپے نہیں تھے۔یہ سوچتا بوجھل قدموں سے لڑکا گھر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کورنگی نمبر چھے کے بس اسٹاپ کے قریب(جہاں رسا چغتائی صاحب کا گھرہے) پرندوں کا ایک بازار لگتا تھا، پرندوں کی چہچہاہٹ نے کچھ دیر کو آنسو تھام لیے۔پیچھے مڑکر وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بوڑھا شخص بوری بچھائے بیٹھا ہے۔ بوری پر استعمال شدہ پینسلیں، کچھ کاغذ اور ڈرائنگ بک وغیرہ بکھری پڑی ہیں۔ بزرگ نے آواز دی اور کہا۔’’جھولی پھیلا۔‘‘ اس نے لڑکے کی جھولی میں بہت سی پینسلیں اورکچھ کاغذ ڈال دیئے۔اب تو خوشی کا ٹھکانا ہی نہ تھامگر بزرگ نے کہاچار آنے ؟چارآنے لڑکے کے پاس نہیں تھے۔ وہ ابھی کچھ کہتا کہ بوڑھے آدمی نے کہا۔’’ چلو ،کوئی بات نہیں، کل دے جانا۔ بہت سی دعاؤں سے اس نے نوازا۔امی کو سارا حال سنایا تو بولیں کہ ابھی جاکر انھیں پیسے دے کرآؤ۔جب لڑکا پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ وقت گزرتا گیا اور دعاؤں کا سایہ ساتھ ساتھ چلتا رہا،پھیلتاگیا۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ تصویریں بنتی رہیں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہ شام جس روز میٹرک کا آخری پیپر دے کر دفتر پہنچا تو جمال احسانی نے کہا کہ یوسفیؔ صاحب لندن سے آئے ہوئے ہیں،ان سے ملنے چلنا ہے۔سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مزاح اور نثر کے ناخدا کی خدمت میں کیا پیش کیا جائے ۔ پنسلوں اورنائف سے لکڑی کے ایک ٹکڑے پر تصویر بنائی اورکشاں کشاںسوئے منزل بلکہ منزل مرادروانہ ہوئے۔

شامِ یاراں سے سوگِ یاراں

مشتاق یوسفی ،شاہد رسام اور ان کے بچوں کے ساتھ

گھنٹی بجائی تو پڑوس کے چوکی دار نے پوچھا۔’کس سے ملنا ہے‘جھجکتے ہوئے عرض کیا۔مشتاق یوسفیؔ صاحب کا گھر یہی ہے ، وہ کہنے لگا، جو شاعر ہے ،خیر، یوسفیؔ صاحب اتنی دیر میں خودہی باہر آگئے۔ قدم بوسی کی اجازت بالکل نہیں تھی؟جمال احسانی نے کہا کہ یوسفیؔ صاحب محلے والے آپ کو شاعر سمجھتے ہیں۔ٹھنڈی سانس بھر کے کہنے لگے ’’ہاں میاں، محض حلیے کی وجہ سے‘‘موقع غنیمت جان کر اپنی تخلیق جناب کو پیش کی،کسی حدتک ہیجانی وہذیانی عالم میں۔یوسفی ؔصاحب ہمیں اپنی اسٹڈی میں لے گئے اور کچھ کتابیں عطا کیں۔ ایک کتاب پر لکھا کہ ’’نقش ہوں اپنے مصور سے گلہ رکھتا ہوں‘‘کیا بیان کروں ،بیان کاکچھ یاراہی نہیں،اس دن کیا حال تھا۔ بے پناہ خوشی ملاقات کی اور اُس سے بھی زیادہ خوشی، یوسفیؔ صاحب کی محبت وشفقت کی۔محسوس ہی نہیں ہوا، پہلی ملاقات ہے۔ساتھ یہ احساس بھی جانے کیوںدامن گیررہاکہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی تصویر میں ضرور ایسی تھی جو یوسفیؔ صاحب نے یہ مصرع رقم فرمایا۔

پھر تو ملاقاتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

شامِ یاراں سے سوگِ یاراں

مشتاق یوسفی شاہد رسام کی ایک پینٹنگ دیکھنے میں محو ہیں

ہرملاقات میںجتائے بنا دھیرے سے کوئی بات کان میں ڈال دینا۔بڑے لوگ ،درویش صفت لوگ سکھانے کے بھی آداب وانداز نرالے رکھتے ہیں، بالکل ایسے جیسے کوئی مصور یا مجسمہ ساز مختلف رنگ کے پتھر،ترتیب وبے ترتیبی سے شیڈز اینڈ لائٹ کے مطابق جوڑتا چلاجائے اور بے ترتیب پتھروں کے ٹکڑوں سے شاہ کار تصویربنتی چلی جائے۔

یقین کیجیے،یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ اس ناپختہ کار نے انسانیت ،زندگی، رشتے اور اس کے رنگوں، خاص طور پر آرٹ کا ادراک یوسفیؔ صاحب سے سیکھا۔تصویروں کو پال لگانا بھی یوسفیؔ صاحب ہی نے سکھایا۔

کوئی مصیبت ،الجھن،پریشانی،انبساط یا بے کیفی کی صورت پیش آئی۔دوڑتے ہوئے حضرت کے دروازے پر پہنچے، وہ دروازے جوہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ کوئی کرمِ خاص ہی کہیے کہ اس بے مرتبہ کو اس درویش کی رفاقت ورہ بری میسر آگئی۔بہت کم لوگ جانتے ہیں یوسفیؔ صاحب کو انعام و ایوارڈز میں جو بھی رقم ملتی وہ خامشی سے ایدھی صاحب کی نذر کر دیتے۔

افتخار عارف صاحب کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے کہ’’ اوپر والا سب سے عمدہ نعمتیں ہمیں اچھے انسانوں اوررشتوں کی صورت عطا کرتاہے۔‘‘میں اس میں صحبتوں کا اضافہ بھی کروں گا۔ایک بار خاصی بھلی نوکری کی آفر ہوئی گاڑی اور دیگر سہولتوں کا لالچ بھی تھا۔خوشی خوشی رکشے میں مرشد کے پاس پہنچے، رودادسنائی،فرمایا۔’’بھئی، ہمیں تانگے میں بندھے گھوڑے کے مانند چلنا چاہیے جس کی آنکھوں کی اطراف پٹے بندھے ہوتے ہیں جو اس منزل سے ڈی ٹریک نہیں ہونے دیتے۔‘‘

یادآتا ہے،ایک مرتبہ کسی سیٹھ نے تصویریں بنوا کر پیسے نہیں دیے اور اس کے وفاشعار دربان نے بنگلے سے یہ کہہ کر بھگادیا کہ صاحب ملک میں نہیں ہیں۔یہ عید سے ایک دن پہلے کا واقعہ ہے،پیسوں کی شدیدضرورت تھی۔یوسفیؔ صاحب کے پاس پہنچے ،بنا لب کشائی سمجھ گئے،کہنے لگے۔’’بھئی انسان دراصل قحط الرجال کا نہیں بلکہ قہرالرجال کا مارا ہوا ہے۔‘‘ ایک امریکن رائٹر کی کتاب عنایت کی ارشاد کیا۔ ’اسے پڑھیں،مزے کی کتاب ہے بڑے رائٹرز کی ازدواجی زندگیوں کے بارے میں …کچھ عجیب سا لگا۔خیر، گھر جاکر کتاب ایک جانب رکھ دی۔ رات کو کہیں موقع ملا،کتاب کھولی تو ایک لفافہ اور اس لفافے میں پانچ ہزار روپے۔

شامِ یاراں سے سوگِ یاراں

شکیل عادل زادہ ،شاہد رسام اور یوسفی صاحب کا ایک یادگار فوٹو

پہلی سولونمایش کا اہتمام بڑی مشکل سے ہوا۔اسی آرٹس کونسل میں،قریباً پانچ سال کی مشقت ِریاضت کے بعد۔آرٹس کونسل کے عہدے داروں نے اس ناتمام کو کسی قابل ہی نہ سمجھا تھا۔ اللہ اللہ کرکے 1994میں پہلی ’سولونمایش‘ ہوئی ۔خوشی تو بے حدوحساب اپنی جگہ تھی مگراصل خوشی اس معجزے کی تھی کہ یوسفیؔ صاحب نے پہلی بار کسی آرٹسٹ کی نمایش میں صدارت قبول فرمائی اورایک تاریخی ،بے مثل مضمون بھی پڑھا اور بہت ہی محترم ومکرم انور بھائی (انورمقصود)،جون ایلیا،جمال احسانی ،اقبال مہدی ، علی امام اورشکیل عادل زادہ نے اِس شام کو ہراعتبار سے یادگاربنادیا۔

یوسفیؔ صاحب کے مضمون کے چند اقتباسات یہاں دہرانا بے محل نہ ہوگا۔

’’رسّام ،عام سی لڑکی کواتنا خوب صورت پینٹ کرتے ہیں کہ اگر ان کی بنائی ہوئی تصویریں دیکھ کر اُس لڑکی سے شادی کرلی جائے تو شادی کی پہلی رات ہی طلاق ہوجائے ۔‘‘

شامِ یاراں سے سوگِ یاراں

مشتاق یوسفی اورشاہد رسام

احمد فرازؔکی مشہورغزل سبھی کو یاد ہوگی۔

سنا ہے، اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں اِدھر کے بھی جلوے اُدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

اس تصویر میں ،میں نے ایک بل کھاتی ہوئی کمر پینٹ کی تھی۔جون ایلیاؔ نے دیکھی تو پہلے ناراض ہوئے،پھر ایک پرانا ،لڑکپن کا قطعہ برملا سنایا۔

بات ہی کب کسی کی مانی ہے

اپنی ضد پوری کرکے چھوڑوگی

یہ جسم، یہ کلائی اور کمر

تم صراحی ضرور توڑوگی

(جون ایلیاؔ)

اوراپنے یوسفیؔ صاحب فرماتے ہیں۔

’’آئل پینٹنگ، ادھیڑخواتین اور سیاست دانوں کو ذرا فاصلہ رکھ کر دیکھناچاہیے کہ وہ صرف دور سے اچھے لگتے ہیں۔چارکول ڈرائنگ منکوحہ کے مانند ہوتی ہے جسے قریب سے دیکھو یادور سے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پیسٹل اور پین اینڈانک والی تصویر محبوبہ کے مانند ہوتی ہے جسے قریب سے دیکھوتو اورقریب سے دیکھنے کا جی چاہتا ہے۔

رسّام کی یہ پینٹنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ

جوش میں آیا ہوا بگولہ بدن کھلکھلا کر ہنس پڑا ہے تو یہ ڈمپل پڑا ہے۔

یہ برش سے نہیں بلکہ اپنی پلکوں سے پینٹ کرتے ہیں

یہ فقرہ اس نوآموز کے لیے کسی بہت بڑے ایوارڈ سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ میں نے عرض کیا تھا نا کہ بڑے لوگ ، سکھانے کے بھی آداب وانداز نرالے رکھتے ہیں۔ اس فقرے کا کرشمہ یہ ہے کہ کسی لمحے چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ ریاض وریاضت کی گردش سے نجات ہی نہیں ملی کیوں کہ یہی کم ازکم حکمِ مرشد تھا۔

مشہور مصوروان گونے جب "Potato eaters"پینٹ کی تو اس پینٹنگ میں بھوکے بچے اور ان کے چہروں پر دن بھر کوئلے کی کان میں کام کرنے کی تھکن ٹپک رہی تھی مگر اجرت میں صرف اتنے پیسے کہ بہ مشکل آلو کھاسکیں۔ڈیڑھ سوسال کے بعد اس تخلیق نے اقوامِ متحدہ کو سوچنے پرمجبور کیا اور ’’یواین ورلڈ فوڈ پروگرام‘‘ شروع ہوا۔آج بھی دنیا کی 70فی صد خوراک آلوکے ذریعے پوری ہوتی ہے۔

یوسفیؔ صاحب لکھتے ہیں۔

’’آلو اور مذہب کا چلن سب سے زیادہ دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے‘‘

اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں

’’بیوہ میم کے رونے پر ہم نے بھی رونے کی بہت کوشش کی ۔زندگی میں پہلی بار اپنے سُنّی ہونے پہ غصہ آیا۔ ‘‘

رونے اور وقت ضائع کرنے پر جونؔ بھائی یاد آگئے۔

اسی کیفیت پر، خصوصاً وہ شام جس کا اہتمام یوسفیؔ صاحب کے دولت کدے پر کیا گیا تھا، حقیقتاً ’’شامِ شعریاراں‘‘ تھی ۔جونؔ بھائی کو کسی خاتون سے عشق ہوگیا تھا اور یہ شام صرف قصہ عشق اور جون ؔبھائی کے تازہ کلام کے لیے مختص کی گئی تھی ۔مختلف مہمانوں کے علاوہ زہرا نگاہ، احمد فراز،شکیل عادل زادہ موجود تھے۔ یوسفی ؔصاحب نے ہم سے کہا کہ بھئی رسّام، جون صاحب کو لانے اوران کا خیال رکھنے کی ذمے داری آپ کی ہے، بس خیال رہے کہ شام اچھی رہے۔

میں نے کہا جی جناب، مجھے پوراخیال ہے۔لہٰذاجونؔ بھائی کو پینے پلانے سے دور رکھا گیا۔اس محفل کے بعد ان کے لیے عمدہ اہتمام کا وعدہ پہلے سے تھا۔خیر اپنے قصہ ہائے عشق سنانے کے بعد زاروقطارہوئے اور کیا کیا دل نواز شعر سنائے۔

خوش ہو سینے کی ان خراشوں پر

پھر تنفس کے یہ صلے بھی کہاں

آگہی نے کیا ہو چاک جسے

وہ گریباں بھلا سلے بھی کہاں

پھر شعر سناتے سناتے دو کباب اٹھا کر واسکٹ کی جیب میں رکھ لیے۔ میرے خفا ہونے پر کہنے لگے۔

’’ابے،اپنے یوسفیؔ ہی کے تو کباب ہیں۔‘‘اورگواہی میں یوسفیؔ صاحب کوبھی شامل کرلیا۔اس کے بعد جونؔ بھائی نے اُسی لمحے بیک وقت دوخواتین سے اظہار عشق بھی فرمادیا اور بے نیاز،سرشاروسرمست میرے اسٹوڈیو چلے آئے۔رقت سے کہنے لگے،عشق پھر وارد ہوگیا ہے، جی بھر کے شراب اور چرائے ہوئے کبابوں کا لطف لیا۔

اورجناب!اگلی صبح جون ؔبھائی اسٹوڈیو سے اچانک غائب ہوگئے۔خیر چند گھنٹوں کے بعد یوسفی ؔصاحب کا فون آیا کہ آپ آسکتے ہیں؟میں فوراً یوسفیؔ صاحب کے گھر پہنچا تومعلوم ہواکہ جون ؔصاحب وہاں آئے تھے اوراصرار کررہے تھے کہ ’’آپ ہمارے بزرگ ہیں اور عارفہ کا رشتہ لڑکے والوں کی طرف سے آپ ہی مانگنے جائیں گے‘‘

مجھ پریشان اور تھوڑے سے شرمندہ نے عرض کیا،اب کیا کریں؟یوسفی ؔصاحب کہنے لگے، بھئی آپ ان کا حوصلہ پست کیجیے اور بے پناہ۔ بس ایسا کیا کرنا تھا کہ جونؔ بھائی مجھ سے شدید ناراض اور یوسفیؔ صاحب کے شدید دشمن۔

رشتوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ عجیب بات ہے کہ کچھ عرصے کے بعد انھی خاتون کی دخترِنیک اختر نے ہمیں پاگل کردیا۔ امی نے دیوانگی کی حالت دیکھی توگھبرائی گھبرائی یوسفیؔ صاحب کے پاس گئیں اور لڑکی کے رشتے کی بات کی۔ یوسفیؔ صاحب رشتہ لے کر گئے ،یہ الگ بات کہ وہاں سے انکارہی ہونا تھا ،جو ہوگیا۔ اوراس کی وجہ نفاق فرقہ وفقہ کے علاوہ کچھ اورنہیں تھی۔

خطوط،ای میلز کے علاوہ ایس ایم ایس کے ذریعے ایک دوسرے تک اپنے جذبات ترسیل کیے جارہے تھے مگر ایک روز کسی خرابی کی وجہ سے محبوبۂ مطلوبہ کے نانا اس کا موبائل لے گئے اور ہم نے کسی جذباتی کیفیت میں اجمل سراج کا شعر صورت ِحال کے مطابق سمجھتے ہوئے ایس ایم ایس کردیا۔

یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں

اس میں کچھ دخل ہے تمھارا بھی

بس اس کے بعد ایک طوفان اور قیامت ۔

یوسفیؔ صاحب کہنے لگے کہ مذہبی تفریق کے علاوہ کچھ شعر کی بے اثری بھی وجہِ انکار ہوسکتی ہے۔

یوسفی ؔصاحب اور ان کی شریک حیات جنھیں یوسفیؔ صاحب ادریس کہتے تھے ،دونوں گھر تشریف لائے، ہمیں سمجھا یابجھایا۔’’تمھارے لیے اچھے رشتے اور لڑکیوں کی کیا کمی ہے۔‘‘

مجھے یاد ہے، جب بھابی صاحبہ یوسفی ؔصاحب کی ساٹھ سالہ رفیق بہت بیمار تھیں اور کینسر جیسا مرض، وہ بھی آخری اسٹیج پر، اوراتنا ہی تکلیف دہ علاج ۔کیموتھراپی وغیرہ نے ان کی یادداشت بھی بری طرح متاثرکی تھی۔ یوسفی ؔصاحب شب و روز تیمارداری میں لگے رہتے تھے۔اگلے دن میری امی ان کی عیادت کے لیے گئیں کہ آپ جلد اچھی ہوجائیں گی ان شاء اللہ۔ وہ کسی کو نہیں پہچان رہی تھیں، میری طرف اشارہ کرکے کہا،’’یہ کون ہے؟‘‘ میری امی نے ان کی کیفیت سمجھتے ہوئے کہا۔’’میرا بیٹا ہے ،آرٹسٹ ہے۔‘‘

وہ اپنی آنکھوں میں روشنی لیے اٹھ کر بیٹھیں اور کہنے لگیں ۔’’ہمارا بھی ایک بیٹا ہے، بڑا آرٹسٹ ہے،اس کا نام رسّام ہے‘‘

پچھلے سال واشنگٹن ڈی سی میں نمایش کے بعد اٹلی کے شہرروم جانے کا اتفاق ہوا۔پوپ فرانسس کا پورٹریٹ vaticanکی طرف سے کمیشن ہواتھا۔ وہاں ایک دوست کے گھرکسی صاحب سے ملاقات ہوئی ،پوچھنے لگے۔’’آپ یوسفیؔ صاحب والے رسّام ہیں ‘‘واپسی پر نمایش کی خبراورvaticanمیں تصویر لگنے کی خبر اوریہ خوش گوار واقعہ یوسفیؔ صاحب سے شیئر کیااورعرض کیا۔’’یہ سب آپ کی وجہ سے ہے۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’بھئی جوہر کا مل کو کون روک سکتا ہے‘‘(پرَہوں تو پرندہ اُڑتا ہی ہے)

میرے بیٹے کا نام آبیان یوسفیؔ صاحب اور شکیل عادل زادہ نے رکھا ۔ایک دن یوسفیؔ صاحب گھرآئے، آبیان کوپاس بلایا ، رورہا تھاکہ امی نے ڈانٹا ہے ۔یوسفی ؔصاحب نے کہا کہ ’’بھلا رونے کی کیا بات ہے۔ امّیاں تو مارتی ہی ہیں۔‘‘

آبیان کی عمر چار برس بھی نہیں تھی اس نے غالب کا مصرع پڑھا۔

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

یوسفی ؔصاحب نے بے اختیار پیشانی چوم لی اور ایک چاکلیٹ بھی عطا فرمائی۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے ۔’’دیکھا ہمارے بیٹے کو۔‘‘

جواب کچھ نہیں تھا، رضی اخترشوق کا ایک شعر یاد آیا۔

ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان

کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

میراخیال ہے ، رشتوں کا تعلق نہ تو خون سے ہوتا ہے اور نہ ہی گزارے ہوئے وقت یا عرصٔہ دراز سے ۔ ان کا تعلق تو صرف شدت سے ہوتا ہے جو ہم اپنے اندر بسا لیتے ہیں ۔مجھ جیسے بے نواو بے صدا کو یوسفیؔ صاحب کے گھر سے اتنی محبتیں ملیں ہیں کہ دس زندگیاں بھی یہ قرض اتارنے کے لیے ناکافی ہوں گی۔

مقروض گر نہ جائے تو لاچار کیا کرے

اُردو اور ہماری خوش نصیبی کہ ہمیں ،مشتاق احمد یوسفیؔ ملے۔ کسی بھی آرٹ یا اس کے تخلیق کار کو جانچنے کے دو پیمانے بلکہ دو بنیادی پیرامیٹر ہیں۔ پہلا تیکنیکی ستون اور دوسرا خیال کی وسعت ۔ جب ہم یوسفی ؔصاحب کی تخلیقات کو دیکھیں تو دونوں ستون اپنی مثال آپ ہیں۔ لگتا ہے جیسے مائکل اینجلو کا مجسمہ۔ اور خیال ایسا کہ جیسے پکاسو کا میورال۔تہَ در تہَ زندگی کے رنگ، سوال کرتی زندگی کی روشنی لیے مُجسمِ تحریر۔ فقرے ایسے آفاقی جو اپنے اندر صرف ہنسی نہیں بل کہ فکری کائنات سمیٹے بیٹھے ہوں۔

فرماتے ہیں۔

۱۔ اس کا کیا علاج کہ انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔

۲۔ جب آدمی کو مستقبل کے بجائے ماضی پر کشش نظر آنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔

۳۔ بعض خوش اعتقاد لوگوں کا خیال ہے کہ ہر بد صورت عورت نیک چلن ہوتی ہے اس طرح طب قدیم میں ہر کڑوی چیز کو مصّفی ٔ خون تصور کیا جاتا ہے۔

۴۔ بے کاری بیماری کا گھر ہے۔

۵۔ میرا عقیدہ ہے کہ جینے کے لیے کسی فلسفے کی ضرورت نہیں مگر اپنے فلسفے کے لیے دوسروں کا جان دینے پر آمادہ کرنے لیے سلیقہ چاہیے۔

۶۔ اگر سمجھ اور سائنس سے کام لیتے تو فتوے میں عاقلوں کو اتنا ہی اشارہ کافی تھا کہ بیَرbeer) 95( فی صد حلال ہے۔

۷۔ سمجھ دار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔

۸۔ مرد کی نگاہ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

۹۔ اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ایک طرف سے عورت آرہی ہو اور دوسری جانب سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجایش بچتی ہے۔

۱۰۔ جو آنے والے کا بول بالا اور جانے والے کا منہ کالا کرے ،اسے بیوروکریٹ کہتے ہیں۔

۱۱۔ سارے جہاں( بر صغیر) میں دھوم ہماری زباں کی ہے

۱۲۔ فاصلے کو گز سے نہیں، وقت سے ناپنا چاہیے۔

۱۳۔ہر دکھ اور عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا راز کھول دیتی ہے۔

یوسفیؔ صاحب نے زندگی کے دکھ، اس طرح نقش کیے ہیں کہ تصویر صرف نظر نہیں آتی بلکہ اپنے دیکھنے والے سے سوال کرتی چلی جاتی ہے۔

یوسفیؔ صاحب تصویر دکھانے کے بادشاہ ہیں ۔ایک ایسا بے مثال پینٹر جس نے لفظوں سے شاہکارپینٹ کر دیے ہوں۔ایسے کردار جو بات کرتے ہوئے نظر آتے ہوں۔ اُردو سلطنت کا ایسا بادشاہ جو پہلے کسی نے دیکھا اور نہ سنا۔ نہ پہلے کبھی آیا اور نہ ہی بعد میں نظر آتا ہے۔ اُردو شاعری نے ایک خدا غالبؔ کی شکل میں دیکھا اور اُردو نثر نے یوسفیؔ کے روپ میں ۔کہنا چاہیے کہ یوسفیؔ دراصل نثر کا ایک یوسفِ لاثانی ہے۔ James Joyceاپنے مشہور ناول Portrait of the Artist as a Young Manمیں لکھتا ہے " Artist like the god of creation, remains within or behind and above"

یوسفی ؔصاحب اس فقرے کی مجسم تصویر ہیں۔

Nostalgiaکے بارے میں ایک امریکی مصنف Dough Larsomلکھتا ہے

" Nostagia is a file that removes the rough edges from the good days"

ہمارے یوسفیؔ صاحب نے Nostagliaکا ترجمہ ’یادش بخیر‘ کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ایشیائی ڈرامے کا اصل وِلن Nostalgiaہے جو کبھی ہماراکا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

میرا خیال ہے Nostalgiaایک بھاری پتھر ہے مگر یوسفی ؔنے اسے تراش کر جمالیات کے سانچے میں پال لگا کر جب باہرنکالا تو اس پر Romanticism کے طلسم کی تَہ چڑھ گئی ہے جیسے کسی جادوگر نے لوہے یا پتھر کو اپنے طلسمی ہاتھوں سے سونا بنا دیا ہو۔

فقیر نے مغربی اور مشرقی ادب، علم و آگہی کے طالِب کے طور پر پڑھا ہے نہ کہ یونیورسٹی کی ڈگری کے طالب ِعلم کے طور پر ۔۔ دنیا کے ادب میں بالخصوص برصغیر کے ادب میں کوئی نظیر ایسی نہیں ملتی کہ کسی خدا تراش نے یادش بخیر کو ایسا تراشا ہو جیسے مائکل اینجلو نے حضرت عیسیٰ اور بی بی مریم کے مجسمے۔

Nostalgiaایک بُت ہے۔ یونانی godess، Sisters of Madossaکی طرح ایک سحر انگیز طلسماتی جادوئی سُروں کی بیل جو انسانوں کی زندگی اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے کہ شاید لپٹی ہوئی رہتی ہے ۔ جسم بہ جسم ، روح بہ روح ایک ایسی بیل جو جسم ہی پر نہیں بلکہ روح سے لپٹ گئی ہو۔ جسے الگ کرنا ممکن نہیں۔ اگر ایسا کیا تو روح کی موت واقع ہو جائے گی۔ یہ کون سی روح ہے؟ ۔ خدا کی یا انسان کی؟ یا ایک ایسا بُت جو دُکھ سُکھ کی مٹی سے ڈھالا گیا ہو؟ غالباً اسی کا نام ’’یادش بخیر‘‘ ہے۔

پکاسو نے شاہ کارمیورل Grunicaپینٹ کیا تھا یہ اس صدی کا سب سے بڑا Piece of Artمانا جاتا ہے، مگر یوسفیؔ صاحب نے آبِ گم میں زندگی سے بھرے کئی میورل پینٹ کر دیئے انہوں نے Nostalgiaصرف پینٹ نہیں کیا نہ ہی اسے تراشا ہے بل کہ اسے اس طرح تخلیق کیا ہے کہ یادش بخیر کو انسان اور اس کے خدا کے لیے سوال بنا دیا ہو۔ ایک ایسا طلسم ، ایسا جادو جو پڑھنے والے کو ہنساتے ہنساتے آنکھیں نم کر دے۔ غالب ؔنے کہا تھا

تاکہ تجھ پر کھلے اعجازِ ہوائے صیقل

دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہو جانا

جس طرح شادی اور شراب کی چوٹ کی شدت و گہرائی کا اندازہ رات گزرنے کے بعد ہوتا ہے ،اسی طرح قبلہ و کعبہ کے طنز ، مزاح اور جملے کی کاٹ اور آگہی کااندازہ بھی وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے بل کہ اور تر و تازہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

چارپائی کی کیسی بے مثال پینٹنگ بنائی ہے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے

’’دیکھے تو یہ وہی چارپائی ہے جس کی سیڑھی بنا کر سُگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اور چلبلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں، اسی چارپائی کو وقتِ ضرورت پٹیوں سے باندھ کر اسٹریچر بنا لیتے ہیں اور بجوگ پڑ جائے تو انہی بانسوں سے ایک دوسرے کو اسٹریچر کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مریض جب کھاٹ سے لگ جائے تو تیماردار موخّر الذکر کے وسط میں بڑا سا سوراک کر کے اوّل الذّکر کی مشکل آسان کر دیتے ہیں۔ اور جب ساون میں اودی اودی گھٹائیں اٹھتی ہیں تو ادبان کھول کر لڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جھولتے ہیں ۔اسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب قمچی کے ذریعے اخلاقیات کے بنیادی اصول ذہن نشین کراتے ہیں۔ اسی پر نومولود بچے غائوں غائوں کرتے چندھیائی ہوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

اجرک کے رنگ ہم سب نے دیکھے ہیں مگر اجرک میں لپٹی ہوئی زندگی، رشتے، دکھ ، سکھ کا کون سا پہلو،ایسا رنگ و ارتعاش ہے جسے یوسفیؔ صاحب نے تراش کر امر نہ کر دیا ہو۔ اجرک سے ایک اقتباس۔

ـ’’جنازے میں محلے کے سبھی لوگ شریک تھے۔ بیٹا جو مشکل سے 9سال کا ہو گا، اور پھر اسی اجرک میں وہ پھولوں کی چادر، اگربتی، گلاب جل اورشامتہ العنبر، باندھے بے خبر پیچھے چل رہا تھا۔ اس میں ابھی تک کچھ یاد دلانے کے لیے ایک ننھی سی گرہ مرحومہ کی ہاتھ کی لگی ہوئی تھی جسے انھوں نے تین دن سے نہیں کھولا تھا۔ ڈولا لحد کے پہلو میں رکھا گیا اور سرھانے سے غلافِ کعبہ کا پارچہ ہٹا دیا گیا۔ میت قبر میں اتارنے لگے تو اپنے ہاتھوں سے اجرک کمر میں ڈال کر دکھ درد کے ساتھی کو مٹی میں سلا دیا۔ اسی سے گوشۂ چشم پونچھا دھیرے سے گرہ کھولی اور پھر اپنے شیخ کے اس تبرک کو کفن پر ڈال دیا ‘‘

مجھے آج بھی دسمبر 2015کی وہ رات یاد ہے جب ہمارے مرشد و محسن ،یوسفیؔ صاحب نے کینیڈا فون کیا۔ خیریت پوچھی، بچوں کا حال پوچھا، خصوصاً میرے بیٹے آبیان کا ۔ بجھے ہوئے لہجے میں کہنے لگے ’آپ کوم، بچوں کو دیکھے ہوئے بہت دن ہو گئے ، بس آجائیے پھر نہ جانے؟‘‘ ۔ میں نے آگے کچھ کہنے سے پہلے ہی روک دیا۔ پوری رات روتے ہوئے گزری۔ میں نے اپنی بیوی نداسے کہا کہ بس بہت ہو گیا اب ہمیں یہاں سے چلنا چاہیے۔ تین دن میں سب بوریا بستر لپیٹا اور واپس مرشد کے پاس آگئے۔ ہمارے واپس آنے کی خوشی میرے اپنے گھر والوں سے زیادہ یوسفیؔ صاحب کو تھی۔ کہنے لگے ۔’’ بہت اچھا کیا جو برف پر خاک ڈال کر ہمارے پاس آگئے۔ ‘‘

جنوری 2016میں کویل گیلری میں میری نمایش تھی۔ تمام پینٹنگ غالب ؔکی شاعری پر بنائی گئی تھیں۔ جب فاطمہ حسن شام 5بجے یوسفیؔ صاحب کو لینے پہنچیں تو وہ دوپہر تین بچے سے تیار بیٹھے تھے۔ فاطمہ سے کہنے لگے ’’دیر کر دی آپ نے۔‘‘ نمایش میں کسی صحافی نے ہم سے سوال کیا کہ آپ نے پینٹنگ پر غالب کے اشعار نہیں لکھے تو یوسفیؔ صاحب نے کہا’ ’رسّا م کی ایک پینٹنگ کے گرد کئی اشعار طوا ف کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر شعر لکھ دیا تو ٹائٹل تو ہو جائے گا مگر کینوس چھوٹا ہو جائے گا۔‘ ‘

شاید ہی کسی مرید کو اپنے مرشد سے اتنی محبت و قربت نصیب ہوئی ہو ۔ مجھے آج بھی یاد ہے میری شادی میں سب مہمانوں سے پہلے یوسفی ؔصاحب موجود تھے۔ سسرال والے پریشان ہو گئے تھے۔ میری امی جب پہنچیں تو انھوں نے کہا ’آپ ساڑھے سات بجے ہی پہنچ گئے ،ہم تو دولھا کی گاڑی میں آپ کو لینے گئے تھے۔ یوسفیؔ صاحب کہنے لگے کہ ہمارے بیٹے کی شادی ہے۔ گھر والوں کو سب سے پہلے ہونا چاہیے‘‘۔

ہر عید کی طرح اس عید پر ہم اور بچے یوسفیؔ صاحب سے ملنے گئے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ بچوں سے مزے مزے کی باتیں کیں۔ آبیان سے کہنے لگے ۔ ’’تمہارا پسندیدہ کھیل کون سا ہے؟‘‘۔ اس نے کہا ’’فٹبال‘‘۔ پسندیدہ کھلاڑی؟‘‘اس نے کہا ’’رونالڈو اور میسی‘‘ ۔ پھر آبیان نے یوسفیؔ صاحب سے سوال کیا ’بچپن میں آپ کا پسندیدہ اسپورٹس کون سا تھا؟ کہنے لگے ’’بھئی ہم نے ایک مرتبہ اسکول کے زمانے میں ریس میں حصہ لیا تھا اور جب ہم نے آنکھیں بندھ کر کے دوڑنا شروع کیا تو جب دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگے اور آنکھیں کھولیں تو معلوم ہوا کہ ریس ختم ہوئے پانچ منٹ گزر چکے تھے۔‘‘۔ میری بیٹی مژگاں (جس کا نام بھی یوسفی ؔصاحب کے فقرے اور غالب کے مصرع سے چنا گیا تھا) کی سال گرہ منائی، کیک کاٹا، بچوں کے ہاتھ سے کیک کھایا اور بہت پیار کیا، ڈھیروں دعائیں دیں۔ ہم سب نے جاتے ہوئے مرشد کے ہاتھ چومے تو کہنے لگے ’’کل ضرور آئیے گا‘‘ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اتنے اصرار سے کیوں بلا رہے ہیں اور یہ ہماری آخری عید ہو گی۔

دوسرے روز میری طبیعت صبح ہی سے بے چین تھی۔ عجب بے قراری تھی۔ یوسفیؔ صاحب کے گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ دوڑتے ہوئے ضیاء الدین اسپتال پہنچے۔ یوسفیؔ صاحب کو آئی سی یو میں داخل کر دیا گیا تھا۔ہم سب گھر والے بہت پریشان تھے۔ رات بڑی تکلیف میں گزری۔ صبح ڈاکٹرز نے کہا کہ رات سے کومے میں ہیں۔ واپسی کے آثار کم ہیں، دعا کریں۔ جب آخری بار آئی سی یو میں اپنے مرشد کا ہاتھ چوما جو ٹھنڈا ہو چکا تھا مگر وہ میرے آنسوئوں سے گیلا ہو گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس حالت میں بھی وہ میرے آنسو پونچھ رہے ہیں۔ انھیںجاتا ہوا دیکھنا کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ 17سال پہلے جب میرے والد کا اچانک انتقال ہوا تو مجھے اس غم کا ایسا اندازہ ہی نہیں تھا کیونکہ یوسفیؔ صاحب موجود تھے اور میرے سامنے چھوٹے آٹھ بہن بھائی، ان کی تعلم و تربیت۔ شاید ذمہ داریوں کا بوجھ یتیمی کے دُکھ پر غالب آگیا تھا ۔ کسی کا باپ چلا جائے تو وہ یتیم ہو جاتا ہے مگر کسی کا پیرو مرشد ، مربّی و محسن، ساتھی و مسیحا بچھڑ جائے تو وہ صرف یتیم ہی نہیں بے وجود ہو جاتا ہے۔ ان ہی ہاتھوں سے انھیں لحد میں اتارا۔ ایک ایسا انسان جس نے ایک جہان کو مسکراہٹ اور خوشی عطا کی ہو اور آگہی سے منور کیا ہو جس کے نثر پاروں نے ایک زمانہ خوشبوئوں سے بھر دیا ہو،احباب و اقربا نے جب مٹی ڈالنا شروع کی تو وہ لڑکا جس کا ہاتھ یوسفیؔ صاحب نے 31برس پہلے تھاما تھا، ہاتھوں میں پھول اور آنکھوں میں آنسو لیے دیکھتا رہ گیا۔

اے عافیت کنارہ کر۔ اے انتظام چل

سیلابِ گریہ در پئے دیوار و در ہے آج

(غالبؔ)

تازہ ترین