ہمارے ملک کی ایک قومی سیاسی جماعت کے سربراہ نے اپنے کارکنوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ کسی لوٹے کو الیکشن کا ٹکٹ نہیں دیں گے۔ ہمارا انہیں مشورہ ہے کہ وہ یہ یقین دہانی ’’لوٹوں‘‘ کو بھی کرائیں ،تاکہ ان کی پارٹی میںلوٹوں کی آمد کا سلسلہ بند ہو۔ یہ وہ سلسلہ ہے جس پر ’’لوٹا برادر مظاہروں‘‘ کے انعقاد کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ سیاسی رہنما اگر لوٹوں کو ٹکٹ نہیں دیں گے تو پھر کیا مٹکوں کو ٹکٹ دیں گے؟ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے برتن ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ انہیں بھی ٹکٹ نہیں دیں گے۔ ممکن ہے اس بار برتنوں کی بجائے فرنیچر سے تعلق رکھنے والی کسی شے کو ٹکٹ مل جائے ،کیونکہ لوٹوں کے بارے میں بہت لعن طعن ہورہی ہے۔
بہرحال جو لوگ ’’لوٹ لگانے‘‘ کے ماہر ہیں، وہ ہر پارٹی سے ٹکٹ لے لیتے ہیں اور الیکشن کے موسم میں پرندوں کے غول کی صورت میں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ اگرچہ لوگ ’’لوٹے‘‘ کو برابھلا کہتے ہیں لیکن یہ لوٹاہی ہے جو چھ سات بار منتخب ہوکر کم و بیش اتنی ہی بار وزیر بن جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی لوٹوں نے وطن عزیز میں ایک نیا کلچر متعارف کرایا ہے جسے لوٹا کلچر کہا جاتا ہے اور اس طرز سیاست کو لوٹا کریسی کہتے ہیں۔ ماہرین نے لوٹا کریسی کی تعریف کچھ یوں کی ہے،
’’لوگوں کی حکومت، لوٹوں کے ذریعے اور کچھ مخصوص لوٹوں کیلئے!‘‘
مذکورہ تعریف کی خوبیوں اور خامیوں پر آپ خود فرصت کے اوقات میں غور کرسکتے ہیں۔ بہرحال اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ملکی سیاست میں لوٹا کلچر یا لوٹا کریسی کو روکنا کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے قوم کو ایک لوٹا شکن پارٹی بنانے کی ضرورت ہے جو لوٹوں کو توڑ کر کھوٹوں کو آگے لائے۔
ہمارے چند دوست احباب نے لوٹے سے متعلق ہم سے چند سوالات دریافت کئے تھے۔ ہم یہاں لوٹیانہ خلوص کے ساتھ ان کے جوابات پیش کررہے ہیں۔
سوال… لوٹا کون ہوتا ہے؟
جواب… ہر وہ شخص لوٹا ہوتا ہے، جو لوٹے کی طرح لوٹ لگائے۔
سوال… لوٹے کے مقاصد بتایئے؟
جواب… لوٹے کا اولین مقصد اقتدار پر لوٹتے رہنا ہے۔
سوال… اگر بہت سارے لوٹے ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو اس سے کیا مراد لینا چاہئے؟
جواب… اس سے مراد یہ لینا چاہئے کہ لوٹوں کا یہ اجتماع ہی آئندہ حکومت تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
سوال… لوٹے کی چند خصوصیات بتایئے؟
جواب… قرض لیتا ہے، واپس نہیں کرتا۔ برے وقت میں فوراً ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ وفاداری بدلتے وقت اپنے سابق قائدین پر لعنت بھیجتا ہے، ہر دور میں عیش کرتا ہے۔
سوال… ملکی سیاست میں لوٹے کی اہمیت اجاگر کیجئے؟
جواب… اگر ملکی سیاست میں لوٹا نہ ہو تو صرف سیاست بچے گی۔
سوال… لوٹے کے دوسرے شعبہ ہائے زندگی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیجئے؟
جواب… لوٹے نے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اب ہر شعبے میں لوٹے ابھرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔
مذکورہ سوال و جواب اور لوٹے پر شدید نکتہ چینی کے باوجود وطن عزیز میں لوٹے کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لوگ لوٹے کی جتنی مخالفت کررہے ہیں، لوٹوں کا شوق اتنا ہی بڑھتا جارہا ہے۔ بقول غالب؎
انکار کیسی لذت اقرار میں کہاں
بڑھتا گیا شوق غالب ان کی نہیں نہیں سے
پاکستان میں ایک زمانے میں مٹی کے لوٹے بہت پسند کئے جاتے تھے لیکن وہ ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ جاتے تھے۔ آج کل پلاسٹک کے لوٹوں کا زمانہ ہے اور ان معنوں میں لوٹا ہر گھر میں موجود ہے لیکن یہ لوٹے زیادہ مدت تک نہیں چلتے ،البتہ ہمارے سیاسی لوٹے بہت مضبوط ہوتے ہیں اور ان لوٹوں کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ بوقت ضرورت بے پیندے کےلوٹے بھی بن جاتےہیں۔
اگر کوئی سیاسی سربراہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ لوٹ لگانے والوں کو ٹکٹ نہیں دے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے، کیونکہ جو سیاسی پارٹیاں لوٹ لگانے والوں کو ٹکٹ نہیں دیتیں، ان پارٹیوں میں یہ لوگ لوٹ لگا کر ٹکٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ جس طرح مسافر، بس کنڈیکٹر سے پیسے دے کر ٹکٹ لیتا ہے۔
ٹکٹ اور لوٹے کا باہمی تعلق بہت گہرا ہے۔ یہ دونوں ہر الیکشن میں ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ اس جوڑی کو توڑنے کی بجائے کسی مٹکے کو توڑ دیا جائے۔