• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیٹرول کی آگ

بجٹ کا خسارہ دائمی ہو گیا ہے انکم ٹیکس اور اس نظام کی خرابی، بدعنوانی اور اشرافیہ کی مفاد پرستی نے لاکھوںافراد سے براہ رست ٹیکس وصول نہ کرکے ملکی حیثیت کو تباہ کر دیا ہے۔ اب خود انحصاری کے لئے روایتی سیاست کی بجائے سینٹ کرافٹ کی گہری مہارتیں درکار ہیں ۔عوام کی محنت اور ان کی تربیت کو سی پیک کے لئے ’’اسکل فل‘‘ پاکستانیوںکو تیکنیکی کاموںپر لگایا جائے تاکہ سی پیک سے استفادہ کیا جا سکے، ورنہ نقصان ایک اور عذاب کو دعوت دے گا۔ خود انحصاری کو درکنار بجٹ کے خسارے ختم کرنےکے لئے غیر ملکی درآمدات پر منحصر صنعتوں کی انفرا اسٹرکچر کے تحفظ سے بھی معذور ہے۔ قوم کی تخلیقی اور پیداواری نظام سے لاتعلق بجٹ کے موجودہ اعداد و شمار کی حیثیت قرضوں اور سود کی ادائیگی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتی۔ بحران کی اس نازک گھڑی میں خود اعتمادی کی تعمیر کے لئے عوام پر یہ ثابت کرنے کی ضرورت تھی کہ قومی صلاحتیں ارتقا کا بنیادی ماخذ ہیں اور وسائل کے مالک عوام خاص طور پر محنت کش اور کسان ہیں ،نہ کہ گنے چنے طبقات جو قوم کے مادی اور انسانی وسائل کو اپنے مفادات میں لا کر بیرون ملک زرمبادلہ (دس ارب ڈالر سالانہ) بھیج رہے اور جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ اس لئے غیر ملکی ذہنی اثاثوں پر مبنی ہمارا مسابقتی نظام ٹیکنالوجی کے جدید انقلاب کے باعث بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اسی لئے آج حکومتوں کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بجلی، پیٹرول اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کر کے بجٹ کے خسارے کو پورا کریں۔ گزشتہ حکومت اور نگراں حکومت نے روپے کی قدر کو جب بے قدر کر دیا تو یہ ناگزیر ہو گیا کہ پیٹرول، ڈیزل اورمٹی کے تیل کی قیمتوںکو بڑھادیا جائے اور یہ کام ایک عرصے سے ہو رہا ہے، جس سے عوام کی قوت خرید ختم ہوتی جا رہی ہے ،سفید پوشی اور غربت میں انتہائی اضافہ ہو رہا ہے۔ نگراںحکومت کا پیٹرولیم پروڈکٹس کے نرخ بڑھانے کا غلط فیصلہ صارف کے زخموں کو ہرا کر رہا ہے۔روپے کی قدر میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ بین الااقوامی قیمتوں کے ساتھ چلنا ضروری ہے یا پھر نگراں حکومت زر تلافی دے، جب کہ خزانہ بھی خالی ہے اور مسائل بھی بہت ہیں، ویسے بھی پیٹرولیم پروڈکٹس پر ایک عرصہ ہوا، زر تلافی گزشتہ حکومتوں نے آئی ایم ایف کے کہنے پر ختم کر دی تھی ۔ روپے کی بے قدری سے پہلے مصنوعی طور پر پیٹرول کی قیمتوں کو سہارا دیا جا رہا تھا لیکن اس کے باوجود کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا رہا۔زرمبادلہ کو خطر ناک حد تک ماضی میں مس مینج کیا گیا ہے۔ صنعت کاری نہیں ہوئی سی پیک میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے، اس سے پاکستان کو اب تک کیا فائدہ ہوا ،اس کا علم نہیں۔ پاکستان نے سی پیک کے لئے کتنے نوجوانوں کو تربیت دی ،تاکہ ملازمتیں مل سکیں۔ اتنا ضرور علم ہے کہ زرمبادلہ کی بحرانی کیفیت کو نرم کرنے کے لئے 2 فیصد سودپر ایک اب ڈالر چین نے اسٹیٹ بینک میں جمع کرایا۔ پانی سے بجلی بنانےکے تمام منصوبے تین عشروں سے تکمیل کے مرحلوں میں ہیں۔ لاگت بڑھتی جا رہی ہے نہ تو دیا میر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، اور نیلم جہلم ڈیم مکمل ہو سکا ۔کالا باغ جو متنازع بنا دیا گیا ہے، اس پر فضول بحث چل رہی ہے۔حال ہی میں پیٹرولیم پروڈکٹس پر جو دبائو بڑھا ہے اس کی ایک وجہ روپے کی مصنوعی قیمت کو زیادہ دیر تک برقرار رکھا، اگر رکھنا ہی تھا تو برآمدات کو 30 ارب ڈالر تک لے جانا چاہیے تھا۔ اس جانب بھی کسی کا دھیان نہیں، نہ ہی چار پانچ ارب ڈالر درآمدات میں کمی کے اقدامات کئے گئے لیکن دکھاوے کی ترقی پر سیکڑوں ارب روپے ضائع کئےگئے۔ اب ہو گا یہ کہ بیرونی ملک سے جو گیس درآمد کی جائے گی روپے کی قدر گرنے سے اس کے نرخ بھی بڑھیں گے اب یہاں یہ کہنا پڑتا ہے کہ غلطیاں یا بدعنوانیاں حکومتیں کریں اور عوام اس کا خمیازہ بھگتیں تو اس سٹیٹ کرافٹ کو کیا کہہ سکتے ہیں اسی لئے KE نے پنرا سے کہا کہ تین روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے، حالانکہ KE پہلے ہی خوب منافع کما رہا ہے ٹیرف کا بڑھنا، درآمدات کے نرخوں میں اضافہ، پیٹرول، گیس کی قیمتوں میں اضافہ افراط رز کو ہوش ربا بنا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو سوچنا ہو گا کہ وہ کیا کرے۔ ڈسکائونٹ ریٹ میں کتنا اضافہ کرے۔ جو بھی کیا جائے گا افراط زر بڑھے گا، مہنگائی جان لیوا ہو گی، مجموعی طلب اور گروتھ ریٹ میں کمی آئے گی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے مزید بڑھیں گے، غریبوں کو پیدل چلنا ہو گا، چند امیر طبقے موٹر ہائی ویز کا لطف اٹھائیں گے۔ بلواسطہ ٹیکسوں میں امیر اور غریب کو یکساں ادائیگی کرنی پڑتی ہے غریب کے لئے پیٹرول کے نرخ عذاب جاں ہیں اور امیر کو اس کے بڑھانے کا علم ہی نہیں ۔ کرنٹ اکائونٹ کے خسارے کس طرح ایکسچینج ریٹ سے ایڈجسٹ ہوںگے ۔یہ مسائل اور قرضوں کی ادائیگی آئندہ حکومت اس معاشی ماحول سے کس طرح نبرد آزما ہو گی، کسی نے اس پر کوئی شیڈو پروگرام نہیں دیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ پیداوار کم ہو گی، لاگت زیادہ ہو گی، عالمی مسابقت (برآمدات) زیادہ مشکل ہو گی، درآمدات کی ولیو بڑھے گی، بے روز گاری کا بھوت منڈلاتا رہے گا۔ ماضی کی غلطیوں پر ماتم کرتے ہوئے ان کو دہرایاجائے گا قرض لو، اور خرچ کرو، مصنوعی شرح نمود کھائو، خوشحالی کا خواب دکھاتے رہو۔ اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ۔ ٹریڈ اور انڈسٹری کی تنظیموں نے پیٹرولیم کے نرخوں کے بڑھنے پر شدید تنقید کی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے وائس چیئرمین نے کہا ہے کہ ’’اچھا رہے گا اگر نگران حکومت پیٹرولیم کی قیمت 20جون 2018 تک ہی پھررکھیں‘‘۔ حکومتوں نے اس قدر معاشی صورت حال خراب کردی ہے کہ اب بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے ڈیزل جس کی فروخت 70فیصد ہے ،اس پر 31 فیصد سیلز ٹیکس ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 17 فیصد ٹیکس ہے، نگراں اور تو کچھ نہیں سکتے، اسی سے ریونیو کمائیں گے ،چاہے عوام کی چمڑی اتر جائے۔ سیالکوٹ کےمالدار طبقے جن کے پاس بہت زرمبادلہ ہے ایمنسٹی اسکیم میں وہ نہیں آرہے تو ان سے پوچھا جائے کہ وہ کس طرح ملک کے اندر زرمبادلہ لانے پر راضی ہیں۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ ان کی شرائط پر زرمبادلہ لایا جائے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ زرمبادلہ اندرون ملک لانے کو تیار ہیں، اگر کوئی قدغن نہ لگائی جائے۔ سرمایہ داری نظام میں یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے وائس چیئرمین طارق حلیم کہتے ہیں ’’پیٹرولیم پروڈکٹس کے زیادہ نرخ اسمگل شدہ پیٹرول ڈیزل کی حوصلہ افزائی کریںگے۔ پڑوسی ملکوںسے 15 سے 20فیصد پیٹرولیم پروڈکٹس اسمگل ہوکر آ رہے ہیں اس سے نگران حکومت کو ریونیو کا نقصان ہو رہاہے اور کنزیومر کو ملاوٹی تیل مل رہا ہے‘‘۔ ان معاشی پیچیدگیوں کو سپریم کورٹ حل نہیں کر سکتی۔ یہ کام تو حکومتوں کا تھا، جنہوں نے کچھ نہیں کیا، سوائے سڑکیں بنانے کے، اگر سندھ کے کسی علاقے میں20لاکھ آبادی ہے اور 86 لاکھ مویشی ،تو پانی کے قحط یا قلت میں مویشی پانی پییں یا انسان، یہ رہی ہمارے ملک کی70سالہ معاشی منصوبہ بندی… اب ایک اور تماشہ دیکھئے ایک رپورٹ سرکاری ذرائع سے 10-4-2017 کو شائع ہوئی اس میں بتایا گیا کہ پیٹرولیم نکالنے والی کمپنیوں کے ساتھ پیٹرولیم وزارت کے آفیشل مل کر 86ارب روپے کے گھپلے کر چکے ہیں اور FIA ایف آئی اے 2.13 ارب روپے صرف گیس کمپنیوں سے حاصل کر چکی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق 40بیرونی کمپنیاں مبینہ طور پر 86ارب روپے کا گھپلا کر چکی ہیں اس کا حوالہ پیٹرولیم وزارت کی آڈٹ رپورٹ کا دیا جاتا ہے جس نے 2013-15 (جو ایف آئی اے کو دی گئی) میں یہ بتایا کہ مذکورہ کمپنیوں نے 2012 سے 2015 تک اربوں روپےکے گھپلے پیٹرولیم لیوی اور گیس سرچارج میں کئے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 34آئل ویلز سے ٹیسٹ پروڈکشن کے نام سے تیل مارکیٹ میںگزشتہ چھ برس سے فروخت ہو رہا ہے۔ قانون کے مطابق ٹیسٹ پروڈکشن 2سال سے زیادہ نہیں کی جا سکتی اس کے بعد یا تو کنواں بندکر دیا جائے یا پھر تیل کی فروخت کو کمرشل قرار دیا جائے۔ جن کمپنیوں کو 2002 میں تیل نکالنے کا لانسنس ملا تھا ان سے سابق وزارت پیٹرولیم نے48ارب روپے وصول کئے تاہم 86ارب روپے ابھی تک گرفت میں نہیں آئے۔ اگر گیس اور پیٹرولیم کمپنیوں میں ملی بھگت سے یہ کچھ ہوتا رہا ہے تو ملک کا کیا مستقبل ہو گا؟ نگران حکومت نے پیٹرولیم پروڈکٹس پر سیلز ٹیکس کی شرح 12فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی لیکن وہ پرائسینگ فارمولا کے دو اہم عناصر نظر انداز کر گئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس جو پیٹرولیم پروڈکٹس پر نافذ ہے اس سے قومی خزانے کو 140؍ارب روپے ماہانہ حاصل ہوتے ہیں ،یکم جولائی کو نگرانوں نے سیلز ٹیکس 5 فیصد بڑھا دیا۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل جس پر 24فیصد سیلز ٹیکس تھا ،اسے 7 فیصد بڑھا کر 31 فیصد کر دیا ،باالفاظ دیگر نگرانوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ ایسا نہ کیا گیا تو بجٹ کا خسارہ خطر ناک حد تک بڑھ جائےگا لیکن نگرانوں کو علم ہوناچاہیے کہ سیلز ٹیکس بلواسطہ ٹیکس ہے، جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے، اس سے ٹرانسپورٹ اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو گا اور پھر اشیائے خورد نوش اور ملبوسات وغیرہ غرضیکہ ہر شے کے نرخوں میں اضافہ ہوگا۔ مینوفیکچرنگ زراعت اور صنعتی پیداوار کی لاگت بڑھے گی۔ ان معاملات پر بحث نہیں ہوتی کہ حکومتوں نے کیا کارکردگی دکھائی ہے۔ معاشی نقطہ نظر سے دیکھیں کہ جتنا بجٹ کا خسارہ بڑھے گا، اتنا ہی افراط زر بڑھے گا۔ اس لئے خرچ کرنے کی آمدنی عام آدمی کے پاس بہت کم رہے گی۔ اب یہ بتایا جائے کہ کیا بجٹ کا خسارہ زیادہ خطر ناک ہے یا پیٹرولیم پروڈکٹس کی قیمتوں کوبڑھانا زیادہ نقصان دہ ہے ۔معیشت دانوں کو پتہ ہے کہ بجٹ کا خسارہ قیمتوں کو اور قرضوں کو بھی بڑھائے گا ،محتاج معیشت کو فروغ دے گا۔ منتخب حکومت اگر صنعت کاری نہیں کر سکتی، بے روزگاری ختم نہیں کر سکتی،زراعت درست نہیں کر سکتی، قرضوں کا نعم البدل براہ راست ٹیکس وصول نہیں کر سکتی، تو پھر اسے حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ آئل مارکٹینگ کمپنیوں کا موقف ہے کہ نومبر 2017سے فروری 2018 تک جی ایس ٹی وصول نہ ہونے پر845 ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پیٹرولیم لیوی کو دگنا کر دیا گیا اور یہ بھی عوام ادا کریں گے،نہ ڈیمز بنے نہ ہندوستان کو بڑے ڈیمز بنانے پر روک سکے۔ نہ تالاب بنا سکے ، نہ برآمدات بڑھا سکے اور نہ ہی درآمدات کم کر سکے۔ علاج معالجے اور تعلیم کی فروخت تو موضوع ہی نہیں ہے اور نہ ہی 95 ارب ڈالر کا قرضہ اور 35 ارب ڈالر توازن ادائیگیوں کا ذکر کرنا یہاں ضروری ہے، البتہ گردشی قرضہ ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جو بجلی والوں کو ادا کرنا ہے، تمام بجلی گھر نقصان پر جا رہے ہیں تو پھر فائدے میں کون ہے؟


تازہ ترین