نواز شریف کو ان کے دوستوں اور صلاح کاروں نے غلط مشورے دیئے اور دھوکے میں رکھا۔ اس میں صلاح کاروں کی ناتجربہ کاری سے زیادہ بدنیتی کا دخل ہے۔ شروع دن سے میاں صاحب کو سیاسی دوستوں سے دور کر دیا گیا جو دائو پیچ جانتے اور ہوائوں کا رخ پہچان سکتے تھے۔ نواز شریف تاریخ سازوں کے بجائے تاریخی کتابوں کے کاتبوں اور سیاستدانوں کے بجائے سیاسی رپورٹروں کو ماہرین سمجھ کر اپنے گرد جمع کرتے رہے۔ اخبارات کے رپورٹرز اور کاتب ان کے نزدیک بڑے دانشور تھے۔ انہی دانشوروں کی رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ باریاں لینے والے دونوں خاندان اتنا عرصہ ضرور بھگتیں گے جتنا انہوں نے اقتدار میں گزارا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کے کاروبار سے کمائی گئی دولت مع سود واپس کرنا پڑے گی اور قید و بند کے مسائل اس کے علاوہ ہوں گے۔ بدنامی ملکوں ملکوں پھیل گئی، دنیا بھر کا میڈیا پیچھا کر رہا ہے، لندن جیسا محفوظ اور پرامن شہر جہاں اربوں پائونڈ خرچ کر کے پُرتعیش رہائش گاہیں بنائی تھیں ایسا غیر محفوظ ہوگیا کہ شاید اڈیالہ جیل اس کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور پُرامن ہو۔
علم اور کتاب سے تعلق نہ ہو تو بھی تجربات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ آخر کسان اور مزدور ان پڑھ ہونے کے باوجود ذاتی تجربے سے اپنے ہنر میں طاق ہو جاتے ہیں۔ نام نہاد دانشوروں کے بہکاوے میں جی ٹی روڈ تجربے سے کچھ سیکھ لیا ہوتا۔ نااہلی کے فیصلے پر لاہور سمیت پاکستان بھر میں عوام کے اندر کوئی جنبش نہ ہوئی۔ دس سال قید کی سزا پر بھی سب ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘ بیٹھ رہے۔ انتخابی میدان کیلئے پارٹی نے پھسلن پر قدم رکھا ہے۔ ایسے میں امید کے خلاف امید کرنا نری حماقت قرار پائے گا۔ یہ جانتے ہوئے ’’قدم بڑھائو‘‘ کہنے والے پیچھے مڑ کر دیکھنے پر نظر نہیں آتے۔ عین انتخاب سے بارہ دن پہلے انتخابی امیدواروں کو لاہور بلانا اور یوں کہ وہ بڑے بڑے جلوس لے کر یوں لاہور میں داخل ہوں کہ پاکستان کے ادارے اور ساری دنیا دہل جائے۔ ایک خواب ہے جو سوتے میں دیکھا جاتا ہے، جاگتے میں ایسے خواب کا ذکر نادانی نہیں پاگل پن خیال کیا جاتا ہے۔
لاہور ایئر پورٹ پر مشاہداللہ سمیت کل بیس لوگ پہنچ پائے۔ جہاں مشاہد اللہ سینیٹر ہونے کی دہائی دیتے رہے کسی نے نہ سنا تو اپنے عہدے کے جبروت سے یہ کہہ کر دھمکایا کہ فوج کے سپہ سالار سمیت سب ادارے میرے ماتحت ہیں۔ اس دھمکی کو سننے والوں نے دیوانے کی ’’بڑ‘‘ کہہ کر نظر انداز کردیا ۔
اخبارات میں چھپنے والی آئی بی اور اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف، حمزہ شہباز اور ایاز صادق کی قیادت میں تین جلوسوں میں کارکنوں کی تعداد آٹھ سے بارہ ہزار بتائی گئی ہے۔ ان جانبازوں نے کافی مہلت ہونے کے باوجود ایئر پورٹ پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔
نااہلی کے بعد احتجاجی جلسوں میں میاں نواز شریف نے انتخابات میں دوتہائی اکثریت دلانے کی اپیل کی۔ اپنے ہمدردوں سے کہا دوتہائی اکثریت حاصل کریں تاکہ آئین میں ترمیم کرکے اخلاقی پابندیوں اور دیانتداری کے اصولوں کو بدل دیا جائے۔ چوری، ڈاکہ زنی کی عام اجازت ہو اور کوئی اخلاقی جرم نہ رہے۔ کاتبوں اور رپورٹر نما دانشوروں نے یقین دلایا کہ انتخاب ریفرنڈم ثابت ہو گا اور صندوقچیوں میں شیر کے سوا کوئی پرچی نہ نکلے گی۔ آپ خاطر جمع رکھیں، عقل کو تکلیف دینے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
شروع میں دوتہائی اکثریت کا ہدف مقرر کرنا بھول پن کی آخری حد ہے۔ حالانکہ اپنی جیب سے چلائی جانے والی سروے ٹیموں نے باتوں باتوں میں اتنی لمبی چھلانگ لگانے سے منع کیا تھا۔ اگرچہ اظہار وفاداری کے ناطے صاف نہ کہہ سکے۔ کہا جیت مسلم لیگ کی ہوگی، فاصلہ اگرچہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی پلڑا ابھی تک بھاری ہے۔ یہ اشارے بھی ’’قائد‘‘ کو سمجھ نہ آئے۔
جو ہدف دوتہائی اکثریت کے دعوے سے شروع ہوا وہ روز بروز کم ہوتے ہوتے 9 جولائی تک درون خانہ 45کے عدد تک پہنچ گیا۔ ایسے دلچسپ اور حیرت انگیز انتخابات دنیا بھر میں شاید کہیں دیکھے ہوں گے کہ پارلیمنٹ میں ایک ممبر کی نمائندگی رکھنے والی جماعت اگلے الیکشن میں 31سیٹوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت بن کر ایوان میں کوئی کردار ادا نہ کرسکے مگر اس کے لیڈرکی خوداعتمادی اور شعلہ فشاں شخصیت عوام میں اپنے حریفوں کی شہرت و مقبولیت کو کچل کر رکھ دے۔ پاکستان بننے سے پہلے کی جماعتیں اور پچاس سال سے اقتدار کی باریاں لینے والے نئے لیڈر کی مقبولیت اور قوت عمل سے گھبرا کر اس کے خلاف آپس میں اتحاد اور سمجھوتے کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
آج جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے فیصل آباد سے جنوبی پنجاب کے آخری انتخابی حلقے کا ذاتی مشاہدہ اور دونوں پارٹیوں کے ماہرین شماریات سے تبادلہ خیال کے بعد قدرے وثوق سے آئندہ نتائج پر بات کی جا سکتی ہے۔
حسن اتفاق ہے کہ 85ء کے غیر جماعتی انتخاب سے آج تک ہر الیکشن سے پہلے نتائج پر اپنی رائے مضمون کی شکل میں لکھی۔ دو انتخاب ایسے تھے جس کے نتائج معروف دانشور، قلم کار اور میاں نواز شریف کے تقریر نویس ’’عرفان صدیقی‘‘ کی معرفت روزنامہ جنگ کے قارئین تک پہنچے۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ نتائج 95فیصد تک درست ثابت ہوئے۔ اب کے بار لکھنے میں قدرے جھجھک ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ نہیں معلوم حسیات (Reflexes)پہلے کی طرح تیز ہیں یا کند ہوگئے۔ بہرحال آج انتخاب سے ایک ہفتہ پہلے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں دوتہائی اکثریت سے دستبردار ہو کر پارلیمنٹ میں ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ انتخاب جیت کر اقتدار میں آنے یا باہمی اتحاد سے اکثریت حاصل کرنے کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی ملک بھر میں چالیس (40) حلقے جیت جانے کی دعویدار ہے جن میں تیس (30) سندھ، دس (10)پنجاب اور کے پی سے جبکہ مسلم لیگ نواز انتخاب سے ایک ہفتہ پہلے دوتہائی سے دستبردار ہو کر 45حلقوں میں یقینی کامیابی کی امید لگائے بیٹھی ہے۔
فیصل آباد مسلم لیگ (ن) کا قلعہ اور لاڑکانہ ہوا کرتا تھا۔ گزشتہ انتخاب میں تحریک انصاف لاہور میں ایک سیٹ جیت گئی اور باقی حلقوں میں قابل ذکر ووٹ حاصل کئے جبکہ فیصل آباد ڈویژن کے 18حلقوں میں کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکی۔ آج فیصل آباد ڈویژن کی18سیٹوں میں سے صرف ’’4‘‘ ایسی ہیں جہاں مسلم لیگ مضبوط پوزیشن کے ساتھ میدان میں ہے۔ ان 4میں ایک حلقہ آزاد امیدوار کا ہے جہاں مسلم لیگ کوئی امیدوار نہیں لاسکی وہ اس آزاد امیدوار کی حمایت کر رہی ہے جس نے ان کا ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا تھا۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے تین حلقوں میں مقابلے کی پوزیشن میں ہے اور سندھ میں اسے ’’جی ڈی اے‘‘ سے سنجیدہ مقابلہ درپیش ہے۔ اس کے باوجود نئی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا قائد حزب اختلاف بننا زیادہ قرین قیاس ہے جبکہ مسلم لیگ نواز لاہور کے 14میں سے 7پر جیت کی دعویدار ہے۔ پوچھا باقی؟ تو بولے گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ناروال اور جی ٹی روڈ، تین چار جنوبی پنجاب اور اتنی ہی خیبر پختونخوا سے نکل آئیں گی۔ یوں گنتی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔
عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کے 45میں سے 10حلقوں میں بڑی سیاسی جماعتوں سے مقابلے کا سامنا ہے۔ باقی پر آزاد امیدواروں سے مقابلہ درپیش ہے۔ مرکزی اور شمالی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے رن پڑے گا۔ تحریک انصاف اندازاً 130سیٹیں براہ راست جیت جائے گی۔ باقی حمایت یافتہ اور جنوبی پنجاب کے آزاد ممبران کے ساتھ اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لے گی۔
سب سے دلچسپ صورتحال مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کی رہے گی، جب وہ طرح دار دوشیزہ کی طرح جو شوہر کے پہلو میں بیٹھ کر اشاروں کنایوں میں آشنا کو بھی مصروف رکھتی ہے، اس طرح ان کے غمزہ و ادا دیکھنے والے ہوں گے جب وہ ماضی کے دونوں حلیفوں کو بہلائے گی۔ جہاں وہ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کیلئے ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)