گھارو (نامہ نگار) 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں مگر ضلع ٹھٹھہ میں انتخابی جوش و خروش کم ہونے کی وجہ ماضی کے پیپلزپارٹی کے مضبوط ترین حریف شیرازی گروپ کی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لینا ہے، اس طرح پیپلزپارٹی کی ضلع ٹھٹھہ میں پوزیشن مضبوط ہو چکی ہے اگرچہ دونوں جانب سے ایک بڑا حلقہ اس اتحاد پر ناخوش دیکھائی دیتا ہےجبکہ ضلع کا سنجیدہ طبقہ بھی اس وقت شیرازی برادری کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کو درست فیصلہ قرار نہیں دے رہا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے نامزد امیدوار جب انتخابی مہم کے سلسلے میں حلقے کے مختلف علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں تو انھیں عوام کی جانب سے سخت شکووں کا سامنا ہے اور وہ اپنا غصہ شکووں کے انداز میں نکال کر اپنے مسائل کی طویل فہرست لیے کھڑے ہیں اور امیدوار انھیں انکے مسائل فوری حل کرانے کی یقین دہانیوں میں مصروف ہیں اس بار ضلع ٹھٹھہ این اے 232 سے پیپلزپارٹی کی نامزد امیدوار شمس النساء میمن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے نوجوان ارسلان بروہی میدان میں موجود ہیں اور بڑی محنت سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور اسی طرح پی ایس 79 میں پی پی کے نامزد امیدوار جام اویس گہرام جوکھیو ہیں اس نشست پر انکے والد سردار جام بجار خان جوکھیومرحوم سابقہ جنرل ضیاء کے دور میں آذاد امیدوار کی حیثیث سے کامیاب ہوئے تھے اور اب انکا بیٙٹا جام اویس گہرام جوکھیو پی پی کی جانب سے اس نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں اس نشست پر پی ٹی آئی کے مٹھا خان بلوچ ایس ٹی پی کے محمد عمر ناھیو متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالوہاب بلوچ سنی تحریک کے محمد آصف اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے رفیق احمد وحید علی رند دلدار خاصخیلی صدام حسین بھی امیدوار ہیں اگر چہ پیپلزپارٹی کی گذشتہ دس سالہ دور حکومت میں کارکردگی صفر رہی ہے اس کے باوجود پیپلزپارٹی کا پلڑا پھر بھی بھاری ہے اور حال ہی میں بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کو تین تین ہزار کی قسط جاری کر دی گئی ہے اور انھیں یہ بھی باور کرایا جا رہا ہے کہ دوسری قسط انتخابات کے فوری بعد جاری کی جائے گی اس لیے پی پی کو ووٹ دینا ہے یہ طریقہ بھی پی پی کے لیے معاون اور مثبت ثابت ہو گا۔