• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوور سیز پاکستانیوں کے حقِ ووٹ پر’’خاموش ڈاکہ‘‘

امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان’’ ون آن ون‘‘ طویل ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں خود اپنے امریکی انٹیلی جنس اور تحقیقاتی اداروں کی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کے اس موقف کو تسلیم کر لیا کہ 2016کے امریکی انتخابات میں روس اور اس کے ہیکروں نے کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ اپنے اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے اپنی مخالف صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ان کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا نام لئے بغیر ایک پاکستانی نژاد امریکی کا ذکر کر کے سوال اٹھا دیا کہ اس ’’پاکستان جینٹلمین‘‘ کے کمپیوٹر نظام کا SERUERکہاں ہے جو ڈیمو کریٹک پارٹی کے لئے کام کر رہا تھا۔
صدر ٹرمپ کے اس بیان کی کسی قدر مذمت خود ری پبلکن سینیٹرز کانگریس مین اور لیڈر شپ کر رہی ہے اور ’’پاکستان نژاد جینٹلمین‘‘ کا ذکر کر کے صدر ٹرمپ نے امریکہ کے پاکستانیوں کیلئے کیا صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ؟ یا اسی روز ہمارے پاکستانی سیاست دانوں اور فیصلہ سازوں کے غلط فیصلوں اور غفلتوں کے باعث امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ ایک ڈالر130پاکستانی روپے کو ٹچ کر گئی ہے۔کیوں؟ الیکشن اور اس کے بعد اس صورتحال کے معاشی اثرات ہماری معیشت اور عوام پر کیا ہوں گے؟فی الوقت تو کسی پاکستانی سیاست دان اور فیصلہ ساز کو اسکی قطعاً کوئی فکر نہیں ۔ عوام کی نگاہیں تو الیکٹرانک میڈیا کے سیاسی ٹاک شوز پر مرکوز ہیں اور سیاست دانوں اور فیصلہ سازوں کی نگاہیں اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں اقتدار کی کرسی اور حلقے میں کامیابی کے حصول پر ہیں۔ اربوں کے اخراجات، کی ریل پیل چل رہی ہے۔ تمام انتخابی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کیلئےیکساں آزادی اور انتخابی مواقع کی عملی تعریف خود فیصلہ ساز اپنی ترجیحات کے مطابق متعین کر رہے ہیں۔ عام شہری سے میڈیا کی غیر جانبداری کے بارے پوچھیں تو وہ ایک ایک ٹی وی پروگرام کے بارے میں آپ کو بتا دیتا ہےکہ کون کس سیاسی پارٹی کی حمایت کر رہا ہے۔ صرف چند دنوں میں دہشت گردی کے تابڑ توڑ حملوں میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں کتنے پاکستانیوں کا خون بہ گیا ہے اور ان صوبوں میں احساس محرومی اور امتیاز کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کے لئے مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر کیا عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے یہ سب حاکمان وقت کی فکر کا حصہ نہیں ہے۔ اسکی فکر تو غیر ممالک میں آباد ان پاکستانیوں کو ہے جو پاکستان کو ہر سال 12تا15ارب امریکی ڈالرز کے مساوی زر مبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر ہے کہ ان کی شناخت پاکستان ہے۔ انتخابی سیاست کے جنگ وجدل نے پاکستانی معاشرے کو کس قدر تقسیم کر ڈالا ہے۔پاکستانی نظام کے فیصلہ سازوں کے سلوک،انداز جمہوریت اور حاکمیت کے ہاتھوں مشرق وسطی ،یورپ ،برطانیہ ،آسٹریلیا ،کینیڈا اور امریکی سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے پاکستانی بھی محرومی اور بے توقیری کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں ۔
بیرسٹر عثمان خان اب تو کینیڈین شہری اور پیشہ وکالت سے منسلک ہیں لیکن اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی پاکستان میں جمہوریت کے کاز کی خاطر فوجی عدالت سے تین سال کی سزا کا سامنا کر چکے ہیں اور تکمیل تعلیم کے بعد پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار سمیت مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور کینیڈا میں کئی سال گزارنے کے باوجود بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے علمی اور سیاسی حلقوں میں مضبوط روابط رکھتے ہیں اور مملکت پاکستان کے جغرافیائی اور آئینی فریم ورک میں رہ کر چھوٹے صوبوں کیلئے مساوی حقوق و سلوک کے حامی اور طالب ہیں وہ ہر پختون ،بلوچ ،پنجابی اور سندھی پاکستانی کا خون یکساں اہمیت و قدر کا پاکستانی خون اور جان قرار دیتے ہیں۔ان کا یہ شکوہ بجا ہے اور کئی دیگر حلقوں نے پاکستان میں بھی کہا ہے کہ نگران حکومت، پاکستانی میڈیا اور دیگر حلقوں نے بلوچستان اور پختونخوا میں دہشت گردی کے ان واقعات اور جانوں کے نقصان کو وہ اہمیت نہیں دی جو ایک قومی المیہ کو دی جاتی ہے۔ آخر یہ بھی پاکستانی خون اور پاکستانی شہری تھے۔ انہیں انتخابات کے انداز یکساں موقع اور ماحول کے بارے میں تحفظات ہیں۔ بیرسٹر عثمان آئین، جمہوریت اور پاکستان کے تمام آئینی اور عملی پہلوئوں سے بخوبی واقف ہیں اور الیکشن میں جانبدارانہ جھکائو کے شاکی ہیں ا ور اسکے منفی اثرات بارے خدشات بھی رکھتے ہیں۔ امتیازی اور دہرے معیار کو جمہوریت سے متصادم سمجھتے ہیں۔ یہی خیالات و جذبات بہت سے اوور سیز پاکستانیوں کے ہیں اور بجا طور پر درست ہیں نہ جانے ہم پاکستانی نظام میں خامیوں کی نشاندہی اونچی آواز یا تلخ انداز میں بیان کرنے والوں کو ’’ملک دشمنی‘‘ کا فتوی ٰ لگانے کے عادی کیوں ہو چکے ہیں۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ مادر وطن کے نظام میں کسی کمی یا خرابی کی نشاندہی اور اونچی آواز میں کرنے والا شہری حب الوطنی کے درد سے ایسا کر رہا ہو۔
ممکن ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو بوقت ضرورت اور بطور روایت بیرونی دنیا میں ’’پاکستانی سفیر‘‘ کا لفظی خطاب دیکر ان کی خدمات کا کافی ’’معاوضہ ‘‘ سمجھ لیا جاتا ہو لیکن اوور سیز پاکستانیوں کے حقائق کچھ یوں ہیں (1) مرحوم صدر فاروق لغاری کے دورہ نیویارک کے وقت سے اوورسیز پاکستانیوں کی نمائندگی اور حقوق کے مطالبہ کے جواب میں حکومتی وعدوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت سے آج تک کی برسر اقتدار ہر سویلین اور فوجی حکومت نے اس بارے میں حمایتی تقریروں، وعدوں اور کچھ کاغذی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا لیکن کسی بھی پارٹی کی حکومت یا فوجی حکومت نے عملاً اوورسیز پاکستانیوں سے ایک ’’پرائی ‘‘ مخلوق کا سلوک ہی کیا۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر کاغذات کے اجراء میں کچھ سہولتیں ضرور ہیں لیکن اسکی فیس کئی گنا زیادہ اور فارن کرنسی میں مقرر رہی اور اس کے ساتھ کمیونٹی ویلفیئر فنڈ بھی اضافی چارج کیا جاتا جو ہر قونصلیٹ اور سفارتخانہ کے پاس کئی کئی ملین ڈالرز یوروز اور پونڈز میں جمع ہوتا ہے اور بالآخر کمیونٹی کےنام پر وزیروں اور مشیروں کے دوروں ،کاروں اور دعوتوں پر خرچ ہوتا ہے۔ (2) اوور سیز پاکستانیوں کو مساویانہ پاکستانی حقوق بشمول حق ووٹ کے بارے میں عدالتی فیصلے کے باوجود انہیں نہ تو الیکشن میں ووٹ کا حق عملاً دیا اور نہ ہی مساویانہ شہری تسلیم کیا ۔ ہاں جہاں اور جس حکمراں کو اپنے قصیدہ خوانوں کو نوازنے کی خواہش ہوئی تو انہیں دوہری شہریت کے باوجود انہیں سفیر، وزیر، مشیر اور دیگر عہدوں پر مقرر کر کے تمام ضابطوں اور قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں، (3) پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین نے اوور سیز پاکستانیوں کو اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران اپنی میزبانی ،ڈنرز ،استقبالئے اور دیگر مقاصد کیلئے خوب استعمال کیا ۔
اسی طرح امریکہ ،کینیڈا ،برطانیہ اور یورپی ملکوں میں حکومتوں اور سفارتی مشنوں نے اپنے مقاصد کی لابنگ اور وزیروں ،مشیروں سے روابط کیلئے وہاں آباد پاکستانی نژاد شہریوں کی آبائی وطن کیلئے خیر سگالی کو تو خوب استعمال کیا انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب بھی کیا لیکن ان کے سرمائے اور خرید کردہ جائیدادوں کو پاکستان میں غیر قانونی قبضوں سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا (4) ہر سال بارہ ارب سے لیکر 20ارب ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان کو فراہم کرنے والوں کو زرمبادلہ چھاپنے کی مشین سمجھ لیا گیا لیکن ان حقوق کے معاملات پر ’’ڈاکہ‘‘ ہی ڈالا جاتا رہا ہے۔ (5)25جولائی کے انتخابات میں بھی کئی ا یسے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جن کو اوورسیز پاکستانیوں نے اخراجات کیلئے فنڈز فراہم کئے ہیں۔ پاکستان کی کونسی سیاسی پارٹی ایسی ہے جس نے غیر ممالک میں آباد اپنے ہمدرد پاکستانیوں سے فنڈز اور مالی تعاون حاصل نہیں کیا ؟ پی ٹی آئی، مسلم لیگ(ن) پی پی پی ،جماعت اسلامی اور دیگر قابل ذکر سیاسی اور سماجی تنظیموں سمیت سب ان خوشحال پاکستانیوں کی کمائی سے اپنا حصہ لیتے اور استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ان اوورسیز پاکستانیوں کے حق ووٹ ،حق نمائندگی اور ضروریات و مطالبات کے بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اگر یہ پاکستانی قدرے تلخی سے اپنے حقوق اور پاکستانی سماج میں ہونے والی ظالمانہ طبقاتی زیادتیوں، غلط پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کریں تو انہیں ’’اینٹی پاکستان‘‘ ہونے کا الزام دے کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔لیکن جب اوور سیز پاکستانیوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے تو آبائی وطن سے محبت کے تقاضے اور فریضہ کا حوالہ دیکر تمام ذمہ داریاں گنوا دی جاتی ہیں۔ اگلے ہفتے ہونے والے عام انتخابات میں غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینےکا وعدہ کیا گیا تھا لیکن پانچ سال بعد بھی نہ تو اس کے انتظامات کئے گئے اور نہ ہی سکنڈے نیویا کے ممالک اور دیگر ایسے ممالک کے ووٹنگ کے نظام پر بھی نظر نہیں ڈالی کہ وہ غیر ممالک میں اپنے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا انتظام کیسے کرتے ہیں؟ کیا پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں کینیڈا کے بیرسٹر عثمان خان اور اوور سیز پاکستانیوں کو گھٹن ،جانبداری اور آنے والے خطرات کے بارے میں کچھ کہنے اور کرنےکا حق ہے یا نہیں ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین