• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زراعت نظر انداز

میزبان: شازیہ ناہید

(ایڈیٹر جنگ فورم ،ملتان)

معاونت: خالد نور

عکاسی: وسیم خان

 1975ء کے بعد پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بنایا جا سکا۔ دو بڑے ڈیم بنا لئے جاتے تو 12ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی۔ڈیمز کی تعمیر کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔ صرف باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔چارٹر آف ڈیمو کریسی کی طرح چارٹر آف زراعت ہونا چاہئے۔ جو بھی نئی حکومت آئے اس کو آتے ہی ایگری کلچر کمیشن بنانا چاہئے

سید فخر امام

زراعت نظر انداز

صوبوں کے محکمہ زراعت کاشتکاروں کو سہولتیں فراہم کریں اور آگاہی مہم چلائیں تو مسائل کا حل ممکن ہے۔زمینداروں کو کم پانی استعمال ہونے والی فصلیں اگانے کی طرف رہنمائی کی جائے ۔ زرعی اجناس اور دیگر فصلات کی کاشت سے متعلق زرعی تحقیق پر زیادہ کام نہیں کیا جا سکا

نوید عصمت کاہلوں

لائیوا سٹاک سیکٹر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے،،لائیو اسٹاک میں جانوروں کی اچھی نسلوں کی ضرورت ہے۔حکومت کاشتکاروں کو اچھی نسل کے جانور فراہم کرے تاکہ دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے

ڈاکٹر ناظم حسین لابر

پاکستان کے لئے پانی کا بحران وقت کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے، خریف کی فصل گزشتہ سال کی نسبت اس سیزن میں 30فیصد کم ہوئی ہے،بارشیں نہ ہونے کی صورت میں دریائوں میں پانی کی کمی ہو سکتی ہے

زراعت نظر انداز

انجینئر ممتاز خان

پاکستان میں زراعت پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکی، لائیو اسٹاک کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے،پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے،پاکستان میں مویشیوں اور بھینسوں کے دودھ دینے کی فی کس مقدار بہت کم ہے۔ جس کی وجہ جدید طریقوں سے لاعلمی اور اچھی خوراک کا میسر نہ ہونا ہے

نواب ندیم الدین

زراعت نظر انداز

پاکستان ایک ذرعی ملک ہے لیکن اس شعبے کو بھی بے پناہ مسائل درپیش ہیں، کسی بھی حکومت میں ان کے حل کے لیے توجہ نہیں دی گئی۔2018 کے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں بھی ایسی کوئی حکمت عملی واضح نہیں کی جس سے ذراعت سے وابستہ مسائل حل ہوسکیں۔ مسلم لیگ (ن) کسان سپورٹ پیکیج، ویلیو ایڈیشن، لائیو سٹاک سیکٹر کے فروغ اور پیداوار کو منظم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف زراعت کو کسان کے لئے منافع بخش بنانے،پیداوار میں کئی گنا اضافہ،پیداواری لاگت میں کمی،زرعی منڈیوں کی اصلاح،لائیو سٹاک شعبے کا فروغ اورقومی واٹر پالیسی بنانے کا وعدہ کررہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی خوراک کی قلت، زرعی اصلاحات کے ذریعے غربت پر قابو پانے ، پرائس سپورٹ سسٹم، کراپ انشورنس سکیم متعارف کرانے، سبزیوں، پھلوں کی برآمدات میں اضافے اور زرعی قرضوں میں سہولت فراہم کرنے اور متحدہ مجلس عمل زرعی ترقی کے لئے مؤثر منصوبہ بندی،بلاسود زرعی قرضے،سرسبز و شاداب پاکستان سکیم ،جاگیرداری نظام کے خاتمے کی یقین دہانی کرواتی نظر آ رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں بظاہر شعبہ زراعت کے لئے روشن امکانات موجود ہیں۔ ان دعوئوں کو عملی شکل دینے کے لئے سیاسی جماعتیں کس ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گی یہ مستقبل بتائے گا۔’’ملکی معیشت میں زراعت کا کردار اور پالیسیاں ‘‘کے موضوع پر روزنامہ جنگ ملتان کے زیراہتمام فورم کا انعقاد کیا گیا۔ تفصیلی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔

جنگ: گزشتہ کئی برس سے شعبہ زراعت کی شرح نمو تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ وجوہات کیا ہیں اور ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

سید فخر امام :گزشتہ 20سال کے دوران زراعت کے شعبے کو بہت نظر انداز کیا گیا ہے ۔ کسی دور میں کل جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 45فیصد تھا۔صنعت کے فروغ سے زراعت کا شیئر کم ہو کر 20فیصد رہ گیا۔ زراعت کے شعبے میں 55فیصد لائیو سٹاک اور 45فیصد اجناس کا شیئر ہے۔قریباً چالیس فیصد افراد کا انحصار زراعت پر ہے۔ کپاس کے حوالے سے گزشتہ حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1991ء میں کپاس کی پیداوار 12.8ملین بیلز جبکہ گزشتہ سال 11.3ملین بیلز رہی ہے۔ پانی کا مسئلہ پاکستان کے لئے اس وقت سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ستلج ، بیاض اور راوی کا 30ملین ایکڑ فٹ پانی بھارت کے سپرد کر دیاگیا۔متبادل کے طور پر پاکستان میں منگلا اور تربیلا دو ڈیم اور چھ رابطہ نہریں بنائی گئیں۔منگلا ڈیم کو 2.9ملین ایکڑ فٹ کی گنجائش کے ساتھ بنایا گیا تھا جو کہ وقت کے ساتھ کم ہو چکی ہے۔تربیلا ڈیم کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی وقت کے ساتھ ختم ہو گئی ہے۔ 1975ء کے بعد پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بنایا جا سکا۔ دو بڑے ڈیم بنا لئے جاتے تو 12ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی۔ڈیمز کی تعمیر کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔ صرف باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔چارٹر آف ڈیمو کریسی کی طرح چارٹر آف زراعت ہونا چاہئے۔ جو بھی نئی حکومت آئے اس کو آتے ہی ایگری کلچر کمیشن بنانا چاہئے ۔ آخری کمیشن رپورٹ 1988ء میں آئی تھی گزشتہ 30سال سے کوئی ایگری کلچر کمیشن رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ 1960ء کی ایگری کلچر کمیشن رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پتوکی سے صادق آباد تک کوئی شوگر مل نہیں لگنی چاہئے۔1986میںاس رپورٹ کو پس پشت ڈالتے ہوئے پنجاب میں قریباً 45 شوگر ملز لگائی گئیں حالانکہ گنے کی فصل کو فی ایکڑ 55انچ پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔

زراعت نظر انداز

بہترین پیداوار رکھنے والی کپاس کی زمینوں پر گنا کاشت کیا گیا ہے حالانکہ شوگر کو دوسرے ممالک سے بھی منگوایا جا سکتا تھا۔ایسے معاملات کو پالیسیاں بنا کر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ہم ایسی چیزوں کو فروغ دے رہے ہیں جن کی پیداواری لاگت زیادہ ہے حالانکہ بجلی،ڈیزل، پانی ، فرٹیلائزر، پیسٹی سائیڈز اور ایگری کلچر مشینری جیسے زرعی مداخل کی لاگت کم سے کم ہونی چاہئے۔گندم، گنا، چاول اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار ی لاگت کاشتکار کی استطاعت سے بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم دوسری مارکیٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ بھارت میں بھی ہر سطح پر کاشتکاروں کو سبسڈی دی جا رہی ہے۔پاکستان میں کاشتکار وںکی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انہیں مسائل میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ گندم کے علاوہ کسی اجناس کی امدادی قیمت طے نہیں کی جاتی اور گزشتہ چار سال سے گندم کی امدادی قیمت طے کرنے کے نتائج میں پیداوار بھی ہر سال سر پلس ہو رہی ہے جو ہم سے سنبھالی نہیں جا رہی۔دیہی علاقوں کی تقریباً 9ملین چھوٹے درجے کے کاشتکاروں اور غریب ہاریوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ لائیو سٹاک ہے۔ملک کے بارانی علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہاں فصلوں کے تباہ ہونے کی صورت میں لائیو سٹاک انہیں سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن گزشتہ حکومتوں میں لائیو سٹاک کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جا سکی۔

جنگ:پاکستان کے تجارتی خسارے میں تیلدار اجناس کی درآمدکا بڑا کردار ہے۔ اس طرف حکومتوں کی توجہ کیوں نہیں رہی؟

سید فخر امام: آئل سیڈ میںخوردنی تیل کی امپورٹ 3بلین ڈالر ہے۔30سال سے خوردنی تیل کی پیداوار کو پاکستان میں اہمیت دی ہی نہیں گئی۔یہ پالیسیوں کا بہت بڑاسقم ہے۔خوردنی تیل کو دوسری کراپس کی نسبت زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس پر پانی کا استعمال بھی کم ہے۔اس سے خوردنی تیل کی تین ارب کی امپورٹ کو کم کر کے خسارے میں کمی لائی جا سکے گی۔کمیشن رپورٹ کے ذریعے ترقی کے پائیدار اہداف کی طرف گامزن ہونا ممکن ہو گا۔فارم مینجمنٹ اور نہروں کی لائننگ سے6,6ملین ایکڑ فٹ اور 12ملین پانی دو ڈیم بنا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کھیلوں پر کاشت، ڈرپ ایری گیشن اور سپرنکلر ایری گیشن کے ذرائع سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ٹیکنالوجی اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک ڈرپ ایری گیشن اور کھیلیوں پر کاشت کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔پاکستان میں ایگری کلچر ریسرچ کے حوالے سے بھی بڑا خلاء موجود ہے۔بنیادی اور اپلائیڈ دونوں میدانوں میں ریسرچ کی خاصی کمی ہے۔کاٹن میں سیڈ کی وجہ سے بہت زیادہ مسائل ہیں۔بی ٹی ٹیکنالوجی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ریسرچ میں اس حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کے پھل بہترین ہونے کے باوجودایکسپورٹ صرف 2سو ملین ڈالر ہے جبکہ پھلوں کی ایکسپورٹ ایک ارب ڈالر سے کم نہیں ہونی چاہئے۔پاکستان میں فلوری کلچر پر زیادہ بات نہیں کی جا تی جبکہ بھارت اس حوالے سے بہت وسیع پیمانے پر ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ ہالینڈ ایک بڑی مارکیٹ ہے پاکستان میں اگر فلوری کلچر پر ریسرچ اور مارکیٹنگ کو بہتر بنایا جائے تو ایکسپورٹ کے ذریعے زر مبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ماہی گیری بھی ایک منافع بخش شعبہ ہے جس میں ترقی کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔پاکستان کے بڑے ہوٹل تھائی لینڈ اور ویت نام سے مچھلی منگوا رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں ہی ماہی گیری کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف مقامی بلکہ وسطی ایشیا میں بھی بھجوا کر فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔جنگلات پر توجہ دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔پاکستان کے کل رقبے کا چار فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔گزشتہ چند سال میں آنے والے سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا پیش خیمہ ہیں۔شمالی علاقوں میں بارشیں اور برف باری نہ ہونے کی وجہ موسمی تغیرات ہیں۔

نوید عصمت کاہلوں:زراعت کو ملکی معیشت میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ صوبہ پنجاب کی کل آبادی کا 45فیصد جبکہ دیہی علاقوں کے 65فیصد افراد کا روز گار زراعت سے وابستہ ہے۔ ملکی برآمدات کا 63فیصد انحصار بھی زراعت پر ہے۔ملکی سطح پر گندم کی پیداوار صوبہ پنجاب 76فیصد حصے کے ساتھ پہلے ، صوبہ سندھ 15فیصد حصہ کے ساتھ دوسرے، خیبرپختونخوا 6فیصد حصہ کے ساتھ تیسرے اور بلوچستان 3فیصد حصہ کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔پاکستان میں چاول کی کاشت زیادہ تر صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں کی جاتی ہے۔صوبہ پنجاب چاول کی مجموعی پیداوار کا 52 فیصد ، صوبہ سندھ 38فیصد ، بلوچستان 8فیصد اور خیبر پختونخوا 2فیصد حصہ پیدا کرتا ہے۔گنے کی مجموعی پیداوار میں پنجاب 64فیصد کے ساتھ پہلے ، سندھ 28فیصد کے ساتھ دوسرے، خیبرپختوا8فیصد کے ساتھ تیسرے اور بلوچستان 1فیصدحصے کے ساتھ چوتھے نمبر پرہے۔ ہائی ویلیو ایگریکلچر میں سٹرس 95فیصد اور 66فیصد آم کی پیداوار صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتی ہے۔ درحقیقت صوبہ پنجاب ملک میں فوڈ سکیورٹی اور غربت کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔صوبہ میں امسائل 5.7ملین ایکڑ رقبہ پر کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا جس سے 10ملین گانٹھ کے پیداواری ہدف کے حصول کی خاطر ممکنہ وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔کپاس کی ملکی مجموعی پیداوار کا قریباً72فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔امسال اب تک 56لاکھ 58ہزار 726ایکڑ رقبہ پر کپاس کاشت ہو چکی ہے جو مقرر کردہ ہدف کا 99.28فیصد ہے۔کپاس کے بیج پر اب تک 29.122ملین روپے سبسڈی دی جا چکی ہے جس سے 22ہزار 3سو کاشتکار مستفید ہو چکے ہیں۔کپاس کے کاشتکاروں کو 14کروڑ 74لاکھ روپے کی خطیر رقم سے سپرے مشینری سبسڈی پر فراہم کی گئی ہے۔کپاس کی اعلیٰ کوالٹی اور فی ایکڑ پیداوار کے حصول کے لئے راجن پور میں کاٹن ریسرچ اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔1.90بلین روپے کی لاگت سے 1لاکھ 96ہزار ایک زمین قابل کاشت بنائی گئی۔2.9بلین روپے سے 38ہزار ایکڑ پر ڈرپ نظام آبپاشی نصب کی گئیں۔صوبہ میں زرعی تحقیق میں بہتری لانے کے لئے 26ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈز کا قیام عمل میں لایا گیا۔کسان دوست پالیسیوں کی وجہ سے صوبے میں صرف ایک سال کے اندر زرعی گروتھ ریٹ 3.81 فیصد تک جا پہنچا جو کہ کسی بھی شعبہ کی بحالی کی دنیا میں ایک تاریخی مثال ہے۔مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی نئی پالیسی کے تحت سرٹیفائیڈ پلانٹس کی تیاری کا عمل جاری ہے۔محکمہ زراعت نے قریباً 2لاکھ کاشتکاروں کو بلاسود قرضے فراہم کئے اور زرعی مداخل پر سبسڈی فراہم کی گئی ہے تاکہ ہمارے کاشتکار بھائی خود کفیل ہو سکیں۔سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں زراعت کی ترقی کے بہت مواقع ہیں لیکن کسان کو رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔ صوبوں کے محکمہ زراعت کاشتکاروں کو سہولتیں فراہم کریں اور آگاہی مہم چلائیں تو مسائل کا حل ممکن ہے۔زمینداروں کو کم پانی استعمال ہونے والی فصلیں اگانے کی طرف رہنمائی کی جائے ۔ زرعی اجناس اور دیگر فصلات کی کاشت سے متعلق زرعی تحقیق پر زیادہ کام نہیں کیا جا سکا اسی لئے صوبوں کی مجموعی زرعی شرح نمو خاصی کم رہی۔

ڈاکٹر ناظم حسین لابر: ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان پر موسمی تبدیلیوں کے اثرات شدت سے نمایاں ہو رہے ہیں۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی کمی ہو رہی ہے جس سے زمین کے نمکیات تیزی سے کم ہو کر اوپر کی سطح پر آ جاتے ہیں۔ٹیوب ویل کے ذریعے استعمال میں لایا جانے والاقریباً70فیصد پانی ناقابل استعمال ہے۔پمپنگ کرنے سے زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے۔جب تک زمین کاشت کے قابل نہیں ہو گی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کو ممکن نہیں بنایا جا سکے گا۔درجہ حرارت میں اضافے سے زمین میں نامیاتی مادے ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں لائیو سٹاک سیکٹر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کاشتکاروں کے پاس جانور ہونے کی وجہ سے جانوروں کا فضلا کھاد کی صورت میں زمین کو ملتا تھا۔ لائیو سٹاک کم ہونے کی وجہ سے یہ سسٹم بھی ختم ہو چکا ہے۔لائیو سٹاک میں جانوروں کی اچھی نسلوں کی ضرورت ہے۔حکومت کاشتکاروں کو اچھی نسل کے جانور فراہم کرے تاکہ دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔بنیادی فصلوں پر کچھ نہ کچھ توجہ دی جاتی ہے لیکن دالوں اور آئل سیڈ کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ دونوں کی درآمدات ملکی معیشت پر بڑا بوجھ ہیں۔دالوں کی پیداوار میں کوشش کے باوجود دس من سے زائد اضافہ ممکن نہیں بنایا جا سکا۔اس حوالے سے بھی اداروں کو مانیٹر کرنا ضروری ہے۔مارکیٹنگ کے شعبے کو صحیح خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے کاشتکار کو اس کی پیداوار کی جائز قیمت نہیں ملتی۔ کاشتکار کی محنت کا40فیصد مڈل مین لے جاتا ہے ۔زراعت میں فی ایکڑ منافع کی شرح سرمایہ کاری کی نسبت بہت کم ہے شعبہ زراعت کی پستی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے اور اسی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا کی نوجوان نسل زراعت کے شعبے کی طرف نہیں آ رہی۔زرعی مشینری میں بڑے اور چھوٹے کاشتکاروں کے لئے میکنائزیشن کی ضرورت ہے۔سابقہ حکومت نے مختلف سبسڈیز دی ہیں لیکن حال ہی میں ڈیزل اور ساتھ ہی فرٹیلائزر کی قیمتوں میں اضافہ کاشتکار کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ گزشتہ برس پانی اور زراعت کو سی پیک میں شامل کرنے کے بعد چین اور پاکستان کی زرعی یونیورسٹیوں نے ایم اور یو پر دستخط کئے ۔سیڈ ریسرچ کے لئے چین کے ساتھ شراکت داری کو مزید بڑھانا چاہئے۔زراعت میں سرمایہ کاری کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: پانی کے بحران پر سیاسی جماعتوں کے ادراک اور پالیسیوں بارے آپ کی کیا رائے ہے؟

انجینئر ممتاز خان: پاکستان کے لئے پانی کا بحران وقت کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔1975 کے بعد ہم نے کوئی ڈیم نہیں بنایا۔43سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ تربیلا ڈیم کا اس سیزن میں خشک ہونا لمحہ فکریہ ہے حالانکہ یہ سیزن تربیلا ڈیم کے بھرنے کا ہے۔ خریف کی فصل گزشتہ سال کی نسبت اس سیزن میں 30فیصد کم ہوئی ہے۔اس وقت بھی نہروں میں جو پانی موجود ہے وہ مطلوبہ ضرورت سے 15سے 20فیصد کم ہے۔بارشیں نہ ہونے کی صورت میں دریائوں میں پانی کی کمی ہو سکتی ہے جس سے خریف کی فصل کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ایک ملین ایکڑ فٹ بارش کا پانی60سے 70ارب کی معیشت کے برابر ہے۔پاکستان میں ایک ملین ایکڑ فٹ سے جتنا رقبہ کاشت کیا جاتا ہے امریکہ پانی کی اتنی مقدارسے قریباً چار گنا زیادہ رقبہ کاشت کرتا ہے اور تین گنا زیادہ پیداوار حاصل کرتا ہے۔امریکہ میں ایک ملین ایکڑ فٹ پانی دو ارب ڈالر کی معیشت کے برابر ہے۔گزشتہ چالیس سال کے دوران ہم 12سو ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر چکے ہیں۔گزشتہ ادوار میں کئی سال ایسے بھی آئے ہیں جب ایک سال کے دوران 80سے 90ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکا گیا ہے۔2010کے سیلاب میں ضائع ہونے والا پانی 54ملین ایکڑ فٹ تھا۔اگر اس وقت منگلا اور تربیلا ڈیم کے علاوہ تین ڈیمز کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی بنا لئے جاتے تو اتنی بڑی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔پاکستان کے دریائوں پر 15ایسی سائٹس موجود ہیں جہاں بڑے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں جن میں قریباً 140ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے لیکن ناقص پالیسیوں اور حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آج پاکستان پانی کے سنگین مسائل سے دو چار ہے۔ایسی صورتحال میں کوئی بھی ایگزیکٹو پانی کے حوالے سے اقدامات کرنے کی کوشش کرے تو وہ حق بجانب ہے۔حکمرانوں کو پانی کے مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ہے اسی لئے ان کے سیاسی منشور میں پانی کبھی ترجیح نہیں رہا۔سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریائوں کے سودے نے پاکستان کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا۔دریائے جہلم ، سندھ اور چناب کے شمالی اور سنٹرل پنجاب اور سندھ کی زراعت کے لئے دریائوں کا پانی دستیاب ہے جبکہ جنوبی پنجاب کا براہ راست وسیلہ ستلج اور راوی ہے جن کی فروخت کے بعد جنوبی پنجاب کو پانی کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔زراعت کے نظام کو رابطہ نہروں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

زراعت نظر انداز

انجینئر ممتاز خان: ہر حکومت میں ایوان بالا میں بیٹھنے والے 75فیصد اراکین کا تعلق جاگیردار اور زمیندار طبقے سے ہوتا ہے اوروزارتیں بھی انہی افراد کو ملتی ہیں۔ اس کے باوجود شعبہ زراعت کی تنزلی فہم سے بالاتر ہے۔

جنگ:امدادی قیمتوں کا مسئلہ کاشتکار کے لئے ہمیشہ سے انتہائی پریشانی کا باعث رہا ہے۔ امدادی قیمتیں طے کرنے میں کیا قباحت ہے؟

سید فخر امام:امدادی قیمتوں کو طے کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔کاشتکاری کے وقت بھارت میں 31فصلوں کی امدادی قیمتیں طے کی جاتی ہیں۔ہمارے ہاں بھی 5سے 6بنیادی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین کاشتکاری کے وقت کیا جانا چاہئے۔چند تحصیلوں اور اضلاح کی سطح پریقینی پیداوار کے مطابق امدادی قیمت طے کرنے کے لئے 3سے 5سالہ مرحلہ وار منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔زرعی مداخل کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ سبسڈی ہونی چاہئے۔ زرعی مداخل پر امریکہ میں 4سو ارب ڈالر ،یورپی یونین میں 350ارب ڈالر ، بھارت میں 120ارب کی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سبسڈی دی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں 2 ارب کی سبسڈی بھی نہیں دی جاتی جبکہ بہت زیادہ سبسڈی دینے کا شور مچایا جاتا ہے۔

جنگ: چاروں صوبوں میں پانی کی تقسیم منصفانہ ہے یا کسی صوبے کو کوئی شکایت ہے؟

انجینئر ممتاز خان: چاروں صوبوں میں 1991کے معاہدے کے تحت ارسا پانی کی منصفانہ تقسیم کویقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔ارسا میں سندھ کے 2 اور باقی تین صوبوں کا ایک ایک نمائندہ موجود ہے۔دستیاب پانی چاروں صوبوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے اس پر کوئی تنازع نہیں ہے لیکن پانی کی کمی ہونے پر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔پانی کی کمی پر قابو پانے کا ذریعہ صرف ڈیمز ہیں۔

جنگ:ملک میں لائیو سٹاک کے وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے حکومتوں نے کیا کر دار ادا کیا ہے؟

نواب ندیم الدین:پاکستان کی کل جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24فیصد ہے اور اس میں 50فیصد حصہ لائیو سٹاک کا ہے۔لائیو سٹاک کا کردار پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں صوبہ پنجاب میں لائیو سٹاک سیکٹر میں جتنا کام کیا گیا اتنا گزشتہ 60سالوں میں نہیں کیا جا سکا۔ڈیری اور فیڈ لاٹ فیٹننگ میں بہت کام ہوا ہے ۔ اس حوالے سے کاشتکاروں کو ایک منزل کی طرف گامزن کر دیا گیا ہے جس کو مستقبل کے لئے گائیڈ لائن بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان میں زراعت پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکی اور لائیو سٹاک کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ہمارے ہاں حلال گوشت کی مارکیٹ اربوں ڈالرز کی ہے لیکن ہم نے اس طرف سفر کا آغاز ہی نہیں کیا۔ ڈیری کے کام کو یہاں منافع بخش نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ اس سیکٹر کی نظر اندازی ہے۔حالانکہ یہ کاروبار بہت منافع بخش ہے لیکن اس کے لئے کوئی میکنزم نہیں بنایا جا سکا۔پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے اور ایک تخمینے کے مطابق سالانہ 50 ملین ٹن دودھ پیدا کر رہا ہے جبکہ ملک میں دودھ کی کھپت 40ملین ہے۔پاکستان میں مویشیوں اور بھینسوں کے دودھ دینے کی فی کس مقدار بہت کم ہے۔ جس کی وجہ جدید طریقوں سے لاعلمی اور اچھی خوراک کا میسر نہ ہونا ہے۔ ہمارے پاس نان پروڈکٹیو جانوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جن کو پروڈکٹیو میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر انٹرنیشنل این جی اوز اور ڈونرز کام کر رہے ہیں ۔مقامی بریڈ کو پاکستان میں فروغ نہیں دیا جا سکا حالانکہ ہمارے پاس دنیا کی اعلیٰ ترین ساہیوال نسل ہے ۔ہماری دیسی نسل کا جو ذائقہ ہے وہ پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔ اس طرف ہمارا دھیان نہیں ہے ۔ سرٹیفائیڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا بیف اور مٹن عالمی مارکیٹ میں کم قیمت میں فروخت ہورہا ہے۔ہمارے پاس اس کی شیلف لائف بڑھانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔اب لوگوں نے اس فیلڈ کا رخ کیا ہے تو بہتری کے کچھ آثار دکھائی دینا شروع ہوئے ہیں۔اگر دودھ کی پیداوار میں اضافہ کر کے اس کی برآمد کو بڑھایا جائے تو اربوں کا زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔دنیا میں حلال گوشت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی اور کامقابلہ کرنا ناممکن ہے لیکن انٹرنیشنل آئی ایس او کے مطابق معیار نہ بنانے کی وجہ سے ہم اس مارکیٹ میں داخل نہیں ہو رہے۔ابھی تک کاشتکار کو یہ نہیں بتا سکے کہ عالمی معیار کیا ہے اور اس معیار پر جانور کو کس طرح تیار کرنا ہے۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بیورو کریٹس پالیسیاں بناتے ہیں اور وہ کاشتکار کو نااہل تصور کرتے ہیں۔بیورو کریٹس کی بنائی ہوئی پالیسیاں 70سال سے ناکام ہو رہی ہیں۔

جنگ: کاشتکاروں میں اتنا سیاسی شعور ہے کہ وہ اپنے حلقے کے نمائندے سے زراعت کے مسائل بارے سوال کر سکیں؟

نواب ندیم الدین:کاشتکار کو درپیش مسائل پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکے ہیں تاہم پاکستان کے چاروں صوبوں میں زراعت کی بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ اقدامات جاری رہتے ہیں ۔ درحقیقت پالیسیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیچیدہ صورتحال کو کاشتکار کے حق میں آسان بنایا جا سکے۔ دوسری صورت میں سیاسی جماعتیں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئے خود کو تیار رکھیں۔ زراعت کی ترقی سے ملک کی ترقی وابستہ ہے ۔ سیاسی جماعتیں زراعت کے حوالے سے اپنے شعور کو فروغ دیں اور اتفاق رائے سے مسائل کا حل تلاش کریں۔

جنگ: زرعی شعبے کے مسائل حل نہ ہونے میں وزارت کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

نواب ندیم الدین: ہمارا المیہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس عرصہ دراز سے مخصوص امیدوار ہیں اور مہارت و اہلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے انہی میں سے مختلف افراد کو وزارتیں دی جاتی ہیں۔شیڈو کابینہ بنانے کا رواج پاکستان میں کبھی نہیں رہا ۔سیاسی سوشلائزیشن کئے بغیر بہترین افراد کو سیاست کی طرف نہیں لایا جا سکتا اور نہ ہی اسمبلیوں میں بہترین صلاحیت و اہلیت کے حامل افراد کو جگہ ملے گی۔ایسی صورت حال میں ملک کا نظام بیورو کریسی کے ہاتھ میں رہے گا اور سیاسی کارکنان کی حیثیت صرف غلام کی سی ہو گی۔زراعت کی دگرگوں حالت کی بڑی وجہ بیورو کریٹس کی بنائی ہوئی ناقص پالیسیاں ہیں جن پر عملدرآمد کے لئے سیاست دان بھی مجبور ہوتے ہیں۔

انجینئر ممتاز خان:پانی کے مسائل کا حل ڈیموں کی تعمیر ہے ۔اکھوڑی اور بھاشا ڈیم پر اختلاف نہیں ہے اس لئے ان ڈیموں کی تعمیر پر فوری کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ کالا باغ ڈیم پر اختلاف بالکل بے بنیاد ہے۔جو حکومت برسراقتدار آئے وہ فوری طور پر کالا باغ ڈیم کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔

جنگ: ملک میں اس وقت زیر زمین پانی کی کیا صورت حال ہے؟

انجینئر ممتاز خان:پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے دستیاب پانی کے بہتر استعمال کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے ۔نہروں کی لائننگ ، کھالوںکی صفائی اور زمین کی ہمواری کر کے پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔زیر زمین موجود پانی کے بے دریغ استعمال کو بھی روکنا ہو گا۔1956میںپاکستان میں صرف چار ہزار ٹیوب ویل تھے۔نہری پانی کی کمی کی وجہ سے اس وقت پورے ملک میں 7لاکھ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں۔اس سے زمین کی زرخیزی میں بھی تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

جنگ: زرعی شعبے میں بہتری کے لئے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں کہ برسراقتدار آنے والی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر شعبے کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟

سید فخر امام:پانی میں اضافے کے لئے ایک مربوط پالیسی، سرمایہ کاری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کے فروغ کے لئے مارکیٹنگ اور کولڈ چین اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر آئندہ تیس سالوں کے لئے منصوبہ سازی اور جنگلات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

نوید عصمت کاہلوں:پانی کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے ڈیموں کی تعمیر اہم ضرورت ہے۔کراپ زوننگ کے لئے قانون سازی کرنی چاہئے۔ہائی ٹیک ایگری کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔کاشتکار ی کے متنوع طریقے کار اپناتے ہوئے تیلدار اجناس اور دالوں کی پیداوار پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ ہائی ویلیو کراپ اور ویلیو ایڈیشن کی طرف جانا چاہئے۔مزید شوگر ملوں کے قیام کو روکا جائے۔کپاس کے علاقے میں کپاس اور گنے کے علاقے میں گنا کاشت ہونا چاہئے۔

نواب ندیم الدین: ہمیں روایتی طریقوں کو چھوڑ کر جدت کی طرف جانا ہو گا۔لائیو سٹاک سیکٹر کے فروغ کے لئے ایجوکیشن اور آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں تنظیم سازی بہت کمزور ہے جبکہ بھارت میں مختلف تنظیموں نے انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ مارکیٹنگ کی پالیسی بناتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینا ضروری ہے۔

انجینئر ممتاز خان: آئندہ دس سال کے دوران 35سے 40ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے برسرا قتدار آنے والی حکومت کو جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔زیر زمین پانی کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ سازی کرنے ۔اور ڈیموں کی تعمیر پر گریٹ ڈیبیٹ کی ضرورت ہے جس کے ذریعے تمام تر اختلافات کو تکنیکی بنیادوں پر دور کر کے چھ ماہ کے اندر حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ناظم حسین لابر:حکومت کو سبسڈی اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے اور ایکسپورٹر کو سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔دیہاتوں کی سطح پر بائیو گیس پلانٹ لگائے جائیں جس سے توانائی کا حصول بھی ممکن ہو گا اور سستی کھاد بھی میسر آئے گی۔بڑے ڈیری فارم پر حکومت بائیو گیس پلانٹ کی تنصیب کو لازمی قرار دے۔تحقیقی اداروں، محکمہ زراعت توسیع اور جامعات کے مابین کوآرڈی نیشن ہونی چاہئے۔مارکیٹنگ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے بغیر مقامی اور بیرونی سطح پر مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔

تازہ ترین