• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دوست کو آج ’’وزیر اعظم عمران خان‘‘ کی حلف وفاداری کی تقریب کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے جو 14؍ اگست کو ایوانِ صدر میں منعقد ہو گی۔ میں نے یہ کارڈ دیکھا تو دوست کو فون کیا کہ برادر ابھی خاں صاحب کی حلف وفاداری کا نوٹیفکیشن تو جاری ہوا نہیں یہ کارڈ کیسے چھپ گیا۔ ستم ظریف دوست نے جواب دیا ’’یہ کارڈ تو پتہ نہیں کب کا چھپا ہوا ہو گا، اب اسے ضائع کرنا قومی خزانے کی لوٹ مار کے زمرے میں آتا، چنانچہ لوگوں کو پوسٹ کر دیا گیا‘‘۔ خان صاحب کی یہ پھرتیاں دیکھ کر میں نے سوچا کہ ممکن ہے موصوف عوامی مسائل کے حل کے ضمن میں بھی یہ پھرتیاں دکھائیں گے۔ بہرحال ابھی تک تو یہی لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزارتِ عظمیٰ کے لئے اپنا مشترکہ امیدوار شاید کھڑا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں، اس صورت میں تو وزیر اعظم بہرحال عمران خان ہی بنیں گے۔
ویسے اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں یہی رائے دوں گا کہ اپوزیشن اکثریتی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے والے خاں صاحب کی وزیر اعظم بننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہونے دیں۔ وہ اور ان کے بچے آپ کو عمر بھر دعائیں دیں گے۔ ویسے بھی جنہوں نے عمران خاں کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کی ہے وہ اس مشن کی تکمیل کے لئے رستے کی ہر رکاوٹ کو دور کرنے پر قادر ہیں تاہم مستقبل بہرحال اسی کا ہے جو لندن سے اپنی بیٹی کے ساتھ صرف جیل جانے کے لئے پاکستان آیا۔ چنانچہ مسلم لیگ (ن) سے خصوصاً میری درخواست ہے کہ وہ عمران خان کے رستے میں نہ آئیں، اسے ہنسی خوشی وزیر اعظم بننے دیں اور پھر ’’دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘‘ کا منظر سال ڈیڑھ سال بعد اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
مجھے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کو بہت جلد آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ انہوں نے اپنے ناتواں کندھوں پر دعووں کا اتنا بوجھ اٹھا رکھا ہے کہ چند قدم چلنے کے بعد ان کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں گی اور ان کا سانس پھول جائے گا۔ اس کے علاوہ انہوں نے چن چن کر کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ہے جو ابھی نت نئے مطالبے کریں گے اور ان لوٹوںکے مطالبات پورے نہ ہوئے تو لڑھک کر دوسری طرف چلے جائیں گے اور یوں بھان متی کا یہ کنبہ عمران خان کی چند ووٹوں کی اکثریت سے بنی ہوئی حکومت کے خاتمے کا سبب بن جائے گا۔
سب سے زیادہ مایوسی خاں صاحب کے ووٹروں کو ہو گی جنہوں نے خاں صاحب سے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ اگر ان کی امیدیں پوری نہ ہوئیں تو ان کی مایوسی صرف خاں صاحب نہیں، جمہوریت کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہو گی۔ اس کے علاوہ خاں صاحب کو اپنے ’’مہربانوں‘‘ کے مطالبات بھی ماننا پڑیں گے اور اس وقت انہیں معلوم ہو گا کہ اقتدار اور اختیار میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ یہ سب سے کڑا مرحلہ ہو گا، اس وقت پتہ چلے گا کہ عمران خان وہ نیازی ہیں جس نے ہتھیار ڈال کر پاکستانی قوم کو عمر بھر کا روگ لگایا تھا یا اس سے مختلف ہیں؟
عمران خان نے اکثریت اپنی مقبولیت کی وجہ سے حاصل نہیں کی اس کے لئے بڑوں کو بڑے بڑے پاپڑ بیلنا پڑے۔ وہ ان تمام بڑوں کی وجہ سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران ان سے بھرپور ’’تعاون‘‘ کیا۔ اخبارات سنسر کی وجہ سے حقائق سامنے لانے کے حوالے سے بے بس نظر آئے۔ خبروں اور کالموں پر بھی پہرے بٹھائے گئے۔ ان کا سب سے بڑا حریف اس وقت جیل میں ہے اور ابھی بہت سے سروں پر احتساب کی تلوار لٹک رہی ہے۔ عمران خان سب حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ وہ خدا کو حاضر ناظر جان کر سوچیں کہ کیا ان کی کامیابی عوام میں ان کی مقبولیت کی وجہ سے ہوئی ہے یا الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران بہت بڑے ’’تعاون‘‘ کی مرہونِ منت ہے۔
ابھی تو خاں صاحب کو ان ٹی وی چینلوں کا سامنا بھی کرنا ہے، جنہوں نے عمران خان کو جتوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جونہی خاں صاحب نے اقتدار کو اختیار سمجھ کر ادھر ادھر ہاتھ چلانے کی کوشش کی، اس وقت یہی چینل ان کے اختیار کو وہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ دکھائیں گے جو انہیں دکھایا گیا ہو گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کو اس صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، جو ان کے جیالوں کے ذہن میں ہے اور جس کی بنیاد پر انہوں نے خاں صاحب کو ووٹ دیئے تھے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو تاکہ ملک ایک نئے انتشار سے دوچار نہ ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین