’’مجھے بچپن سے کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا جب اور جہاں موقع ملتا کھیلنے کے لیے دوڑ پڑتا، لیکن مجھ پر گھر والوں کی طرف سے کھیلنے پر پابندی تھی، ابا کو خطرہ تھا کہ کہیں میں کھیل میں اُلجھ کر تعلیم سے محروم نہ رہ جاؤں، مگر میں گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اکثر ان کے علم میں لائے بغیر دور دراز گاؤں میں کھیلنے چلا جاتا تھا‘‘ ان خیالات کا اظہار فخر پاکستان، فخر زمان نے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
فخر زمان، جیسا نام ویسا کام۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے کیرئیر کے مختصر عرصے میں اپنی کارکردگی کی بناء پر، ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مرادن کی تحصیل کاٹلنگ کے رہائشی ’’فقیر گل زمان‘‘ کے گھر میں 10 اپریل 1990ء کو آنکھیں کھولنے والے فخر زمان پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف سے ریٹائرڈ ان کے والد فقیر گل ہمیشہ اپنے بچوں کو پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کیا کرتے تھے، بالخصوص اپنے سب سے چھوٹے بیٹے فخر زمان کو، کیوں کہ انہیں بیٹے کے کھیل سے لگاؤ کا اندازہ تھا۔ ایک انٹرویو میں ان کے والد کا کہنا تھا کہ، ’’میں ہمیشہ اپنے بچوں سے کہتا تھا کہ، کرکٹ میں کچھ نہیں رکھا، اسے کھیلنے والے کبھی کچھ نہیں بن سکے، پڑھائی پر توجہ دیں۔ لیکن فخر میری بات سنی ان سنی کر دیتا تھا اور جہاں کہیں بھی کرکٹ میچ ہوتا، وہ وہاں کھیلنے کے لیے پہنچ جاتا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کرکٹ میں اتنا آگے چلا جائے گا۔‘‘
فخر زمان نے ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کے دلچسپ اور یادگار واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ، ’’بچپن میں ایک بار مجھے اپنے گاؤں میں کرکٹ کھیلنے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ میں اچھا کھیلتا تھا۔ اسکول کے زمانے میں، ایک یا دو میچ اسکول میں کھیلے اور مشکل گیند پر بھی اچھا اسکور کیا، جس کے باعث ساتھی کھلاڑیوں میں میرے حوالے سے خوف پیدا ہوگیا، نہ صرف اسکول بلکہ گاؤں میں بھی میرے بارے میں مشہور ہوگیا کہ، میں مشکل سے مشکل گیند پر بھی کھیل سکتا ہوں، لہٰذا مجھے گاؤں کی کسی بھی ٹیم میں شامل نہ کیا جائے، اکثر بڑے بھائی بھی مجھے کرکٹ کھیلنے پر مارتے اور ڈانٹتےتھے۔‘‘
’’عارف زمان‘‘، ان کے بڑے بھائی نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے میںکہا کہ، ’’اتنی پٹائی کے باوجود بھی فخر کرکٹ کھیلنے سے باز نہ آتا تھا۔ اسے کرکٹ کھیلنے کا اس قدر شوق تھا کہ وہ کسی چیز کی پروا کیے بغیر روزے کی حالت میں بھی سائیکل پر دوسرے گاؤں کرکٹ کھیلنے جاتا تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ آج فخر صرف ہمارے گھر یا گاؤں کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک و قوم کا بھی فخر ہے‘‘۔
کاٹلنگ کے چھوٹے سے گاؤں ’’انزریلے‘‘ کی گلی کوچوں میں کرکٹ کھیل کر جوان ہونے والے فخر زمان کا شوق، کب جنون کی صورت اختیار کر گیا، یہ شاید خود انہیں بھی معلوم نہیں۔ جب انہوں نے اپنے آبائی علاقے کاٹلنگ سے میٹرک کی تعلیم مکمل کی تو یقیناً انہوں نے مستقبل کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائیں ہوں گے، جن کا مرکز کرکٹ ہوگا۔ لیکن پُر امید آنکھوں نے جو خواب سجائے تھے، ان کی تکمیل میں وقت درکار تھا، کیوں کہ، ہوا کچھ یوں کہ اس دوران ان کے والد کو سخت مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے گھر والوں کی ذمہ داری فخر کے کمزور کاندھوں پر آگئی تھی، دوسری جانب والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پاکستان نیوی میں بھرتی ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرے۔ فخر نے والد کی خواہش کا احترام کیا اور ان کے کہنے پر پاکستان نیوی کا داخلہ ٹیسٹ دیا۔ جس میں وہ کام یاب ہو کر ، 2007ء میں صرف سترہ برس کی عمر میں پاکستان نیوی میں بطور ’’سیلر‘‘ بھرتی ہوگئے۔ ملازمت کے آغاز میں ان کی تربیت مردان میں ہوئی بعدازاں انہیں تیراکی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے کراچی آنا پڑا۔
فخر زمان، پاکستان نیوی سے منسلک تو ہوگئے تھے، مگر ان کا دل اس وقت بھی کرکٹ کے لیے ہی دھڑکتا تھا، حد تو یہ تھی کہ کرکٹ کا جنون ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی گیا۔ انہیں احساس ہونے لگا کہ، وہ نیوی کے لیے نہیں بلکہ کرکٹ کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک دن پی این ایس کارساز کراچی، میں ان کی ملاقات پاکستان نیوی کرکٹ اکیڈمی کے کوچ اعظم خان سے ہوئی، ان سے کرکٹ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا جو خوش قسمتی سے پوری ہوگئی ، جلد ہی انڈر 19 انٹر ڈسٹرک میچز میں پاکستان نیوی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی۔ اعظم خان کے سامنے فخر کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر منوانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ انہوں نے اس میچ میں نصف سنچری اسکور کی جس میں چار چھکے بھی شامل تھے۔ یہ اعظم خان ہی تھے جنہوں نے فخر زمان کے اندر چھپے کرکٹر کو پہچانا اور انہیں پروفیشنل کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے فخر کے گھر والوں کی اجازت کے بغیر بحریہ حکام کو درخواست دی کہ فخر کو’’ سیلر‘‘ کی بجائے نیوی پروفیشنل کرکٹ ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔ ان کی یہ درخواست منظور ہوگئی اور 2008 ء میں اس شرط کے ساتھ فخر زمان نے بطور کھلاڑی بحریہ جوائن کی کہ، اگر کھلاڑی کی حیثیت سے وہ اپنے آپ کو منوانے میں ناکام ہوگئے تو انہیں سیلر کی ملازمت پر دوبارہ فعال کر دیا جائے گا۔ بحریہ حکام نے یہ شرط مان لی، جس کے بعد انہیں انڈر 19 اور انڈر 23 میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ لیکن گھر کے معاشی حالات کے باعث ذہنی دباؤ کے شکار فخر کے ذہن میں کئی سوال تھے کہ کیا وہ کام یاب ہو سکیں گے، اگر وہ میچ میں بہترین پرفارم نہ کرسکے تو ان کا فرسٹ کلاس کرکٹ میں سلیکشن نہیں ہوگا، اور پھر کرکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا، کیا انہیں دوبارہ موقع ملے گا، کیا وہ اپنے گھر کے حالات سدھار سکیں گے؟۔ اسی کش مکش اور ذہنی دباؤ کے باعث شروع کے تین میچز میں 25 سے زائد اسکور نہ کر سکے تو کئی بار ان کے ذہن میں خیال آیا کہ انہیں کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اعظم خان نے ہر قدم پر ان کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ، ’’تم چاہے سو رن بناو یا صفر پر آؤٹ ہو جاؤ، میں تمہیں ڈراپ نہیں کروں گا‘‘۔ یہ اعظم خان کا فخر زمان پر بھروسہ تھا، جس کے باعث فخر نے اگلے تین میچز میں لگاتار 150 رن بنا کر کراچی کو اسکور چارٹ میں اول پوزیشن پر لے آئے۔
یہ آخری موقع تھا جب انہوں نے کرکٹ کو چھوڑنے کے بارے میں سوچا تھا، بعدازاں انہوں نے اپنے ریجن (مردان) سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور مردان واپس چلے گئے۔ ان کے اس فیصلے سے اعظم خان ناراض ہو گئے اور ان کے درمیاں چھ ماہ تک بات چیت کا سلسلہ منقطع رہا ، اس کے چھ ماہ بعد جب ان کے درمیاں بات چیت ہوئی تو اعظم خان نے فخر کو کراچی واپس آنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ، یہاں سے کھیل کر وہ دنیا کی نظروں میں آجائیں گے۔ اُس وقت فخر زمان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور پھر اعظم خان کا مشورہ مان کر کراچی واپس آگئے۔ یہ 2011ء کی بات ہے۔ ایک سال بعد ہی، یعنی 2012ء میں انہیں آسٹریلیا میں ہونے والے ’’بین الاقوامی دفاعی کرکٹ چیلنج‘‘ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا۔ واضح رہے کہ ان میچز کو عسکری ورلڈ کپ کا درجہ حاصل ہے۔
فخر زمان نے نہ صرف ان میچز میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ کپ جیت کر پاکستان لے آئے۔ یہ نیوی کی جانب سے فخر کا آخری ٹورنامنٹ تھا۔ بعدازاں انہوں نے 2013 میں وہ مشکل فیصلہ کیا جس کے نتائج کا شائد خود فخر کو بھی اندازہ نہیں تھا، انہوں نے نیوی کو خیر بادکہہ کر نجی ادارے کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کا کانٹریکٹ سائن کیا۔ اب ان کے کرکٹر بننے کے خواب کی تعبیر نظر آرہی تھی۔ لیکن زندگی اتنی آسان کب ہوتی ہے جتنی نظر آتی ہے۔ نیوی سے الگ ہونے کے بعد انہیں کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں سب سے اہم ان کی رہائش کا مسئلہ تھا۔ کیوں کہ ان کے اہل خانہ مردان میں رہتے تھے، جب تک بحریہ سے منسلک رہے تب تک پی این ایس کارساز میں ان کی رہائش کے تمام انتظامات تھے، مگر جب نیول اکیڈمی سے علیحدگی اختیار کی تو انہیں رہنے کے لیے مکان کی تلاش تھی، چوں کہ معاشی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے اس لیے وہ کرائے پر گھر نہیں لے سکتے تھے، اس لیے دو سال کے لیے اپنے ایک دوست کے ساتھ رہے۔
2016 ء میں ہونے والے پاکستان کپ میں انہوں نے خیبر پختون خوا ہ کی نمائندگی کرتے ہوئے 297 رنز بنائے، جس میں ایک سینچری اور دو نصف سینچریاں شامل تھیں۔ ان کی بہترین کارکردگی کے باعث خیبر پختون خوا ہ کی ٹیم فائنل میں اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئی، جس میں فخر زمان نے 115 رنز کی شاندار اننگ کھیلی تھی۔ وہ پاکستان کپ میں دوسرے ٹاپ اسکورر رہے۔2017 ء کی قائداعظم ٹرافی میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ اسی سال ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں انہوں نے ڈبییو کیا اور عمدہ کارکردگی نے سلیکٹرز کو فخر کی جانب متوجہ کیا۔ مسلسل شاندار کارکردگی کے باعث فخر زمان پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز لاہور قلندر کا حصہ بن گئے اور پی ایس ایل میں بھی بہترین کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے چیمپئنز ٹرافی کی ٹیم میں جگہ بنالی۔
پاکستانی اوپنر نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے جنوبی افریقا کے خلاف ایک روزہ میچ سے انٹر نیشنل کرکٹ کیریئر کا آغاز کیا اور اپنے تیسرے میچ میں انگلینڈ کے خلاف اظہر علی کے ساتھ 118 رنز کی ریکارڈ پارٹنرشپ کھیلی، پھر انہوں نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ فخر زمان کی قومی ٹیم میں نمائندگی پر اہل خانہ اور اہل علاقہ کی خوشی دیدنی تھی، جو کبھی کسی زمانے میں انہیں اسکول کی کرکٹ ٹیم میں نہیں کھلاتے تھے، علاقے میں کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کرتے تھے، وہ چیمپئنز ٹرافی میں بہترین کارکردگی دکھانے پر ان کے گھر مبارک باد دینے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار دوڑے چلے آئے۔
فخر زمان ہر ٹیم کو حریف سمجھ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور پاکستان کا جھنڈا سر بلند کرکے ہی لوٹتے ہیں۔ قومی ٹیم میں ’’فوجی‘‘ کے نام سے مشہور فخر اماں نے رواں سال پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ، وہ پریشر میں زیادہ اچھا کھیلتے ہیں۔ پھر چاہے وہ چیمپئنز ٹرافی کا بھارت کے خلاف فائنل ہو یا ٹرائی سیریز ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کا آسٹریلیا کے خلاف فائنل۔ وہ صرف اسکور نہیں کرتے، ٹیم کو فتح کے قریب بھی کردیتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے زمبابوے کے خلاف ایک روزہ سیریز کے دوران متعدد عالمی ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں، فخر زمان 18 ایک روزہ میچز میں تیز ترین 1000 رنز مکمل کرنے والے دنیا کے واحد کرکٹر بن گئے ہیں، انہوں نے سر ویون ریچرڈ کا اڑتیس سال پرانا ریکارڈ توڑا ہے۔ اس سے قبل فخر زمان نے ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے پہلی ڈبل سینچری کی۔ اب تک ون ڈے میں کُل پانچ کھلاڑی (سات بار) ڈبل سینچری کر چکے ہیں۔ سچن ٹنڈولکر نے اپنے چار سو اکتیسویں ون ڈے میچ میں ڈبل سینچری اسکور کی۔ کرس گیل نے دو سو اکسٹھ، وریندر سہواگ نے دو سو اکتیس، روہت شرما اور مارٹن گپٹل کو ایک سو تینتیسویں میچ میں ڈبل سینچری بنانے کا موقع ملا۔ صرف روہت شرما کو یہ عزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ایک روزہ میچ میں تین بار ڈبل سینچری اسکور کی ہیں۔
جب کہ فخر زمان اپنے کیرئیر کے سترہویں میچ میں دو سو کا ہندسہ عبور کرنے والے چھٹے کھلاڑی بن گئے۔ وہ پاکستان کے پہلے اور بین الاقوامی آٹھویں کھلاڑی ہیں جس نے ڈبل سینچری اسکور کی۔ اس میچ میں ہی فخر زمان نے اوپنگ وکٹ کے لئے سب سے بڑی 304 رنز کی شراکت کابھی ریکارڈ بنایا۔ فخر زمان جس تیزی سے رنز بنا رہے ہیں، اتنی ہی تیزی سے ورلڈ ریکارڈ بھی اپنے نام کر رہے ہیں۔ انہوں نے پانچ میچز کی سیریز میں سب سے زیادہ 515 رنزبنانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔ اس سے قبل کوئی بھی بیٹسمین پانچ میچزکی باہمی سیریز میں اتنا اسکور نہیں کرسکا۔ پاکستان کرکٹ کا فخر، فخر زمان سے پاکستانیوں کو اُمید ہے کہ، وہ پاکستانی ٹیم کے لئے کامیابیاں سمیٹتے رہیں گے۔