• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ اینڈ سروس کے ڈائریکٹر کوکب جمال نے پی کے ایل آئی سے متعلق 43صفحات اور 20ہزار دستاویزات پر مشتمل فرانزک آڈٹ رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے پی کے ایل آئی کے بارے میں بے شمار بے ضابطگیاں سامنے لائی گئی ہیں ۔ ایک ہی کمپنی کو مختلف ٹھیکے دیئےگئے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو ہر وقت میرٹ کا راگ درباری پچھلے تیس برس سے الاپ رہے تھے کہ ان کی حکومت نے ہر کام میرٹ پر کیا اس کی قلعی اس رپورٹ کے بعد کھل گئی ہے۔ اس ادارے کی فرانزک رپورٹ نے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ سے متعلق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور ادارے کے سربراہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ 20 ارب 60 کروڑ روپے خرچ ہوئے اوراس ادارے کے تعمیراتی اور دیگر کام کرنے والی کمپنیوں کو ایڈوانس اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ مثلاً ایک کمپنی کو 12ارب 13کروڑ اور دوسری کمپنی کو 16ارب 84کروڑ روپے ایڈوانس دے دیئے گئے۔ کام شروع نہیں ہواتھا اور پیسے ایڈوانس مل گئے۔ اس پر تبصرہ کریںگے تو پھر برا منائیں گے۔ دوسری جانب اس ملک میں بعض ٹھیکیداروں کو کام کرنے کے بعد بھی برس ہا برس تک پیسے نہیں ملتے۔ مگر یہاںتو اس ادارے کے پیچھےشہباز شریف کا ہاتھ تھا۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرکے ایک بیوروکریٹ کو اس کا سربراہ بنایا گیا جس کی اٹھتے بیٹھتے میاں صاحب تعریف کرتے رہے ہیں۔اب تک سرکاری خزانے سے 30ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ 10کروڑ روپے ماہانہ تنخواہیں جا رہی ہیں۔ لاکھوں روپے کا ماہانہ پٹرول اور ڈیزل خرچ ہو رہا ہے، گاڑیوں کی دیکھ بھال پر ماہانہ لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ غریب ملک اور شاہ خرچیاں آسمانوں پر۔ الیکشن 21ارب روپے میں ہواہے اور یہ ادارہ اس سے بھی زیادہ پیسوں کا بناہے۔
ہم نے جب شروع میں آج سے تین برس قبل اس منصوبے کی مخالفت کی تھی تو اس اسپتال سے جن کی دال روٹی بلکہ مرغن غذائیں چلتی تھیں اور اب بھی چل رہی ہیں انہوں نے ہماری بات سے اختلاف کیا تھا بلکہ مخالفت کی تھی۔ آج خود چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے کر اس ادارے کے خلاف جب فرانزک آڈٹ کرایا تو بے شمار مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ہم نے تب بھی لکھا تھا کہ20 ارب روپے صرف ایک ادارے پر خرچ کرنے کی بجائے یہ 20ارب پنجاب کے ان تمام ٹیچنگ اسپتالوں کے جگر اور گردوں کے شعبہ جات کو دیئے جانے چاہئیں جو اس وقت کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کر رہے ہیں تاکہ وہ اپ گریڈ ہو سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سرکاری اسپتال کس طرح اپنے اخراجات خود اٹھائےگا؟ یہ سفید ہاتھی ہے۔ آپ دیکھ لیجئے گا کہ جلد ہی اس کے حالات بھی دیگر سرکاری اسپتالوں جیسے ہو جائیں گے، کبھی پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرائیں گے کبھی کچھ اور۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سوشل میڈیا پر اس کیس کے حوالے سے چلنی والی مہم کوفوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا کہ آئندہ اگر اس حوالے سے کوئی مہم چلائی گئی تو وہ سخت ایکشن لیں گے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نےپنجاب میں بے شمار ایسے کام کئے ہیں جس سے غریب عوام سے زبردستی حاصل کی گئی اربوں روپے کے ٹیکس کی رقم کو شاہانہ انداز میں خرچ کیا گیا ہے۔ اس اسپتال کی خاطر پیپرا کے رولز کو نظر انداز کردیا گیا۔ صد افسوس کام کرنے والی کمپنی کا ایک مالک اسپتال کے بورڈ کاممبر بھی ہے۔ ظاہر ہے اس کے مفادات کس طرف ہوں گے۔ پھر کہنا ہے کہ ہر کام میرٹ پر کیا ہے، سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔ اب تک ڈیڑھ ارب روپے اشتہارات پر خرچ ہو چکے ہیں۔ کیا کسی سرکاری اسپتال کو بھی اشتہار بازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تک مختلف رپورٹوں کے مطابق 30ارب روپے اس ادارے پر خرچ ہو چکے ہیں اور کڈنی ٹرانسپلانٹ صرف چھ کے قریب ہو ئے ہیں۔ غربت کا رونا رونے والی مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے پنجاب میں 56کمپنیاں بنا کر وہ لوٹ مار کی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ تو بھلا ہو کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا جنہوں نے ان 56کمپنیوں کے خلاف بھی ازخود نوٹس لے لیا۔ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے اور اہم پوسٹوں پر کام کرنے والے بیوروکریٹس اور دیگر افراد پہلے سے سرکاری ملازمتوں میں گریڈ 17سے گریڈ 20 تک میں کام کر رہے تھے۔ پھر اپنے محکموں سے لمبی رخصت لے کر خود مختلف کمپنیاں بنا کر اس میں شامل ہوگئے۔ مثلاً ایک نامور بیوروکریٹ جو کہ آشیانہ ہائوسنگ اسکیم فراڈ کیس میں آج کل نیب کی جیل میں ہے وہ خود اسکیل 19 کا افسر تھا اور قائد اعظم تھرمل پاور کمپنی میں 19لاکھ 74 ہزار 152 روپے ماہانہ تنخواہ لے رہا تھا۔ ایک گریڈ 17 کا افسر ایک اور کمپنی سے 5لاکھ 52ہزار 422 روپے ماہانہ تنخواہ لے رہا تھا۔ ایک پوری فہرست ہے اگر یہاں پر لکھیں تو کالم ختم ہو جائے۔ ان کمپنیوں میں کام کر نے والے افسروں کی کم از کم تنخواہ چار لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ بیس لاکھ روپے تھی اور تقریباً یہ سب سرکاری ملازمت کر رہے تھے۔ اس کو کہتے ہیں بچے سقے کا نظام۔ ہمارے علم میں ہے کہ ن لیگ کی حکومت میں پنجاب میں جتنی سرکاری تقریبات، میٹنگیں اور کانفرنسز منعقد ہوئیں ان کے تمام کھانے اور پرتکلف چائے کے تمام انتظامات لاہور کے ایک فائیوا سٹار ہوٹل سے ہوتے تھے۔ بلکہ عام میٹنگوں کے لئے کیک، پیسٹری، سینڈوچ تک بھی اس ہوٹل سے تیار ہو کر جاتے تھے۔ کاش نئی حکومت اسلام آباد اور لاہور کے فائیو اسٹارز ہوٹلوں کے بل چیک کرے تو ششدر رہ جائے گی کہ کس بے دردی سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو اڑایا گیا۔ ہم نے خود پی پی کی حکومت میں ایک سابق وفاقی وزیر کے لئے روزانہ اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل سے کھانا آتے دیکھا ہے، اب دیکھنا ہے کہ عمران خان کی حکومت سادگی اپناتی ہے یا وہ بھی صرف نعروں کی حد تک رہتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے سالانہ اخراجات اربوں تک پہنچ چکے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ کون کتنا پروٹوکول لیتاہے؟ اور کون اپنی بات کا پاس رکھتا ہے؟کیا وی آئی پی کلچر ختم ہو جائے گا؟ کیا بیس بیس گاڑیوں کا پروٹوکول ختم ہو جائےگا؟ آج کل بڑا سکون ہے نہ کوئی وی آئی پی موومنٹ ہے اور نہ ٹریفک بند کیا جا رہا ہے۔
نئی حکومت سے لوگوں کو توقعات بہت زیادہ ہیں۔ اندرونی اور بیرونی گندی سیاست بھی بہت زیادہ ہے۔ ریشہ دوانیاں بھی ہیں، سازشیں بھی ہیں، مسائل بھی ہیں اور ہر طرف سے دبائو بھی۔ عمران خان کاحکومت کرنا کوئی آسان نہیں، اپوزیشن ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے، کیا کچھ ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
پچھلے ہفتے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مینٹل اسپتال کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے قائم کمیٹی کے ممبران اور چیئرمین کمیٹی پروفیسرسعد بشیر ملک سے ایک طویل میٹنگ کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں قائم تمام سرکاری ذہنی علاج گاہوں کو اپ گریڈ کیا جائےگا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مینٹل اسپتال کو اپ گریڈ کرنے والی کمیٹی کے ممبران کوبتایا کہ پشاور میں قائم مینٹل اسپتال کا میں نے جب دورہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ پچھلے 32سالوں سے گریڈ 17 کاکبھی افسر یہاں نہیں آیا، یہاں کے حالات انتہائی ابتر ہیں۔ سندھ میں مینٹل اسپتال کراچی کی بجائے حیدر آباد میں ہےکیا عجیب صورتحال ہے ان دونوں اسپتالوں کاکوئی پرسان حال نہیں۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین