قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہے۔ توقع یہ ہے کہ دیگر جماعتوں کے تعاون سے عمران خان پاکستان کے بلحاظ عہدہ بائیسویں اور شخصی لحاظ سے انیسویں وزیر اعظم بن جائیں گے۔
حالیہ انتخابات کے بعد میں نے ایک بہت خوش آئند بات یہ نوٹ کی ہے کہ عمران خان کی کامیابی کو مڈل کلاس اور غریب طبقے کے ووٹرز اپنی ذاتی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور اس طرح خوش ہورہے ہیں جیسے کہ اپنی کسی ذاتی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان کی یہ کامیابی ان کے ذاتی خواب (یعنی وزیر اعظم بننے) کی تعبیر ہے یا یہ کامیابی واقعی پاکستان کے عوام کے خوابوں کی تعبیر کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ 2018ء کے انتخابی نتائج پاکستانی عوام کی سوچ کے کئی پہلوؤں کو بہت اچھی طرح واضح کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
1۔ ووٹرز کی واضح اکثریت نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو اہمیت نہیں دی۔ 2۔ لسانی یا نسلی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو حمایت فراہم نہیں کی۔ 3۔ وفاق کو کمزور کرنے کی خواہش مند یا علیحدگی پسند قوتوں کو مسترد کردیا۔
انتخابات کے ذریعے پاکستان کے ہر علاقے کے ووٹرز نے کرپشن کے خلاف جنگ اور بدعنوانیوں کی روک تھام کیلئے مدد کا پیغام دیا ہے، پاکستان کے استحکام اور ترقی کیلئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے اور ووٹ کے ذریعے قومی اتحاد کو مضبوط کیا ہے۔ یہ مقاصد پانے کیلئے ایک اہل، دیانت دار اور محب وطن سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ اس قیادت کی فراہمی جمہوری عمل کے ذریعے ہوتی رہنی چاہئے۔ حالیہ انتخابات پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کا واضح اشارہ ہیں۔ قوم منتظر ہے کہ یہ انتخابی نتائج معیشت کے استحکام، عوام کی حالت بہتر بنانے اور بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان کی بہتر پوزیشن کیلئے ایک اہم سنگ میل بنیں گے۔
نئی منتخب حکومت نے ابھی کام شروع نہیں کیا ہے۔ الیکشن کے فوراً بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں (اضافہ نہیں) بہتری یا اسٹاک مارکیٹ کی تیزی کا کریڈٹ تحریک انصاف کو نہیں جاتا۔ عمران خان کی حکومت پاکستان کی ترقی کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے اور اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں اس کا علم آئندہ تین چار ماہ میں ہوجائے گا۔ ابھی یہ انتظار ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کیلئے کیسے افراد کا چناؤ ہوتا ہے اور وعدوں کو پورا کرنے کیلئے کس قسم کے پلان بنتے ہیں۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشکلات کا سامنا کیا جائے گا یا پھر ماضی کی طرح ایڈہاک ازم پر چلتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹے جائیں گے۔ 70ء کے عام انتخابات کے بعد سے آج تک کا تجربہ تو یہ ہے کہ انتخابی مہمات میں سیاست دانوں کے وعدے اور دعوے حکومت مل جانے کے بعد حیلے بہانوں اور عذر تراشیوں میں تبدیل ہوتے رہےہیں۔ عمران خان کو لوگوں نے اس توقع پر ووٹ دئیے ہیں کہ وہ ایک سچے اور اہل لیڈر کے طور پر سامنے آئیں گے۔ کئی افراد عمران خان میں ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے طیب اردوان کی جھلک بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایسی توقعات رکھتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ قوم کے اچھے لیڈر کو اپنے ہم وطنوں کی بھرپور حمایت اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم اپنے معاشرے کے مختلف شعبوں میں خرابیوں اور بگاڑ سے واقف ہیں۔ بگڑے ہوئے نظاموں کو درست کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ معاشرے میں نظام کے بگاڑ سے کئی طاقتور طبقات کے مفاد وابستہ ہوجاتے ہیں، ایسے نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو مفاد پانے والے عناصر سخت مزاحمت کرتے ہیں۔ کمزور معاشروں میں دولت مند اور بارسوخ طبقات حکومت کا حصہ بن کر نہ صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ مستقبل میں خود کو لاحق ہونیوالے خطرات سے بچاؤ کی تدبیریں بھی کرتے رہتے ہیں۔ عوام کیساتھ ساتھ خواص یا طبقۂ اشرافیہ پر قانون کے یکساں نفاذ کیلئے سچے لیڈر کو مسلسل عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کا نظام اچھی طرح چلانے کیلئے حکومت کو عوام کا تعاون اور عوام کو حکومت کی جانب سے تحفظ کا احساس درکار ہوتا ہے۔ عام پاکستانی کرپشن کے سامنے خود کو مجبور اور بے بس پاتا ہے۔ جس ملک کے اپنے کئی اداروں اور اکثر سیاسی جماعتوں میں کرپشن سرایت کرچکی ہو وہاں کرپشن کے خلاف جنگ کیلئے پختہ سیاسی عزم وائیٹ کالر کرائم کو سمجھنے اور کالے پیسے کی روک تھام کیلئے پیشہ ورانہ استعداداور رشوت کی بڑی بڑی پیشکشوں کو رد کردینے کا جذبہ ضروری ہے۔ کرپشن کے ذریعے دولت مند اور طاقت ور بن جانیوالے طبقات یہ کام آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے اصلاح کا عمل بہت مشکل ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کو ٹف ٹائم دیتی رہیں گی۔میرا اندازہ ہے کہ 2019ءکے وسط تک اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کرے گایا مڈ ٹرم انتخابات کامطالبہ کیا جائے گا۔ ایسے حالات میں عمران خان کو عوام کی مزید حمایت درکار ہوگی۔ عوامی حمایت محض باتوں یا نعروں سے نہیں ملتی۔ عوام کا اعتماد پانے کیلئے اخلاص ثابت کرنا ہوتا ہے، اہلیت واضح کرنی ہوتی ہے اور قوم کی خاطر قربانیاں دینی ہوتی ہیں۔ یہ اعلیٰ صفات ہمارے ملک کے بہت کم اہل سیاست میں نظر آتی ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ثابت کرنا ہے کہ وہ قوم کے مسائل کا درست ادراک رکھتے ہیں، ان کے اسباب سے واقف ہیں، ان مسائل کے حل کی اہلیت رکھتے ہیں اور قوم کیلئے بھرپور ایثار اور ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔
عوامی حمایت کے حصول کیلئے سب سے پہلے تین شعبوں پولیس، سرکاری اسکول اور ایف بی آر سے وابستہ سب محکموں کی حالت سدھارنے پر توجہ دینی چاہئے۔ پولیس کے سپاہی اور افسران، پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے اساتذہ اور ٹیکس جمع کرنے والے سب محکموں کے ملازمین اور افسران کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ دوسروں سے پہلے کردیا جائے۔ بجٹ فنانس بل 2018ء میں ترمیم کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے ہنگامی طور پر شامل کردہ شق منسوخ کردی جائے۔ عباسی حکومت کی جانب سے بارہ لاکھ روپے سالانہ تک انکم ٹیکس کی چھوٹ کے شاہانہ فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ انکم ٹیکس ادائیگی کیلئے آمدنی کی حد چھ لاکھ سالانہ مقرر کی جائے۔ سرکاری اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے ایک فیصلہ یہ بھی کیا جائے کہ پہلے مرحلے کے طور پر گریڈ 18 تک کے سب سرکاری افسران کے بچے سرکاری اسکولوںاور کالجوں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کا علاج سرکاری اسپتالوں میں ہوگا۔ پولیس کے محکمے کی اہمیت تسلیم کی جائے اور انہیں سیاسی مداخلت سے پاک کرتے ہوئے بھرپور احترام دیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے چند انتظامی اقدامات حکومت کو بہت زیادہ عوامی تائید و حمایت فراہم کردیں گے۔اچھائیوں کے فروغ کیلئے مسلسل ترغیب کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ترغیب دینے کے کئی طریقے ہیں۔ پیراسائیکلوجی یا مائنڈ سائنس کے مطابق ترغیب کا ایک موثر طریقہ مراقبہ بھی ہے۔ امریکہ، یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بہت سے مرد و خواتین نفسیاتی و جسمانی عارضوں سے نجات کیلئے مراقبہ سے مدد لیتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں کسی مثبت فکر کو عام کرنے اور اچھی باتوں کی ترغیب دینے کیلئے اجتماعی مراقبے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ نفسیات اور مابعد النفسیات کے ماہرین کو لوگوں میں مثبت فکر اور اچھائیوں کے فروغ کیلئے اجتماعی مراقبے سے مدد لینے کے طریقوں پر بھی غور و خوص کرنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)