’’امریکا کے گزشتہ صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کے الزام کے مطابق روس نے اقلیتی نسل پرست ووٹرز کو ہدف بنایا، انہیں خاموشی سے ہلیری کلنٹن کو ووٹ نہ دینے پر راضی کیا اور شاطرانہ طور پر ان پر اثر انداز ہوکر انہیں ووٹ نہ دینے پر آمادہ کیا گیا‘‘
’’ارکان اسمبلی کی جانب سے اس طرح کی رپورٹس اکثر اوقات آتی رہتی ہیں تاہم انہیں بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ تاہم اس رپورٹ کو سنجیدہ لینا چاہئے اور اسے حکومت کی جانب سے آن لائن اشتہارات اور جھوٹی خبروں کو روکنے کے لئے منصوبہ بندی میں بھی شامل کرنا چاہئے۔‘‘
جمہوری دنیا کی سیاست میں اس وقت کیا ہورہا ہے اگر اس کے لئے صرف ایک لفظ استعمال کیا جائے تو وہ لازمی طور پر ’پولارائزیشن‘ یعنی سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم کا لفظ ہوسکتا ہے۔ امریکا کی بات کی جائے تو وہاں لوگ ٹرمپ سے محبت اور ان سے نفرت کرنے والوں میں تقسیم ہے جبکہ یورپ کی بات کی جائے تو وہاں لوگ اور صف اول کی جماعتیں مہاجرین مخالف پالیسی پر منقسم ہیں اور اسی طرح برطانیہ میں یورپی یونین سے انخلاء کے معاملے پر آراء میں تضاد پایا جاتا ہے جو ایک نہ ختم ہوتا ہوا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لوگ جو یکجا ہوکر حکومت کرتے رہے ہیں اس بارے میں انتہائی تقسیم کا شکار ہیں کہ آیا حکومتوں کو کیا کرنا چاہئے۔
ایک دائمی مباحثہ اور مختلف نظریے ایک صحت مندانہ چیز ہوتی ہے لیکن سخت اور نا ختم ہونے والی تقسیم کس طور پر مفید نہیں ہوتی۔ یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ اگر ہم ایک مرتبہ انتہائی سخت دلائل دینے میں لگ جائیں تو پھر ہم اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے کم ہی راضی ہوتے ہیں اور دوسرے کا نظریہ ماننے یا پھر میرٹ کے اوپر دوسرے فریق کے دلائل کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی کے نتیجے میں امریکی کانگریس میں دوسری پارٹی کی جانب سے پیش کئے گئے سنجیدہ قوانین کو پاس کرنے کی روایت معدوم ہوتی جارہی ہے جبکہ یورپی یونین کو طویل مدت تک یکجا رکھنے کی امید بھی دم توڑتی جارہی ہے جبکہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا معاملہ پارلیمنٹ کے زریعے طے پانا مسلسل کھٹائی میں پڑرہا ہے۔ اس طرح کے واقعات بالآخر شدید تلخی اور منافرت کا باعث بنتے ہیں اور بنیادی طور پر خود جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس کا حل کھلا مباحثہ اور مخالفین کے نقطہ نظر کو سننا ہے۔ تاحال اس وقت عام طور پر مباحثے کی تحریک کو تسلیم کیا جاتا ہے تاہم ڈیجیٹل دنیا جیسا کے فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے پولارائزیشن کو فروغ دیا ہے۔
بڑی تعداد میں لوگ اپنے نظریات کے حامل دنیا میں رہنے لگے ہیں جہاں انہیں صرف اپنے نظریات ہی سننے کو ملتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر انہیں ایسی آراء ملتی ہیں جنھیں وہ پہلے سے ہی پسند کرچکے ہوتے ہیں، انہیں ایسی ہی مزید خبریں ملتی ہیں ’خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط‘ جن پر وہ یقین رکھتے ہیں، اور اسی طرح اشتہارات بھی انہیں ان کے ذہنوں میں موجود آراء اور مخصوص پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہدف بناتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے انسانی ذہنیت اور سمجھ بوجھ کی وسعت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ کے باعث سیاست کے شعبے میں چھوٹے ذہن رکھنے والے، شدت پسند اور عدم برداشت رکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے خواہ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہوا یا بائیں بازو سے۔ ایک کارگر جمہوریت میں کھلے مباحثے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹرز کے سامنے کئے جانے والے دعوئوں کو دوسرے فریق کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہوتا۔ اس وقت لوگوں کو انفرادی طور پر ہدف بنایا کر ان تک پیغامات پہنچائے جاتے ہیں جس کے بارے میں دوسرے کو معلوم بھی نہیں پڑتا اور اس بارے میں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ پیغامات کہاں سے آئے ہیں یا پھر ان پیغامات کو جھوٹا ثابت کرنے کا کوئی موقع بھی نہیں ملتا۔ ایسے پیغامات جنھیں ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد اچانک سے غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسی ’اطلاعات‘ جن کے زریعے آپ کو گمراہ یا پریشان کیا جائے کی بناء پر آپ اپنا ووٹ دینے کے فیصلے کے بارے میں بھی تذبذب کا شکار ہوسکتے ہیں۔
امریکا کے گزشتہ صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کا الزام کے مطابق روس نے اقلیتی نسل پرست ووٹرز کو ہدف بنایا، انہیں خاموشی سے ہلیری کلنٹن کو ووٹ نہ دینے پر راضی کیا اور شاطرانہ طور پر ان پر اثر انداز ہوکر انہیں ووٹ نہ دینے پر آمادہ کیا گیا۔
جھوٹی یا جعلی خبروں کے نظام میں جمہوریت اپنا بقاء نہیں کرسکے گی، ایسی جعلی یا جھوٹی خبریں جس کا زریعہ کوئی بھی نہ ہو اور اس کے زریعے سے مخصوص لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا جائے یا پھر ان کی تلخیوں اور اختلافات کو ہوا دی جائے۔ سیکھنا، کسی کو چیلنج کرنا اور کھلا مباحثے کرنے یا پھر اجتماعی فیصلوں کی روایت دم توڑتی جارہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح الیکشن جیتنے والے فریق میں پولارائزیشن انتہائی سرایت کرچکی ہے جو اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔ تاہم حقیقتاً دیگر لوگ اس بارے میں خیال کرتے ہیں اسے تیزی سے تبدیل ہونا چاہئے۔ ٹیکنالوجی جس تیزی سے ترقی کررہی ہے اس کے باعث کسی بھی شخص کی جانب سے اس کی فوٹیج دکھا کر اس کی جانب سے ایسا بیان جاری کیا جاسکتا ہے جو اس نے کبھی دیا ہی نہ ہو۔ کسی بھی آزادانہ سوسائٹی کو ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کو روکنے کے لئے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیس بک اور ٹوئٹر نے امریکی انتخابات میں غیر ملکیوں کو اشہتارات کی خریداری سے روکنے کے لئے نئے قوانین کا اعلان کیا ہے جبکہ سیاسی اشتہارات کی شناخت بھی مخفی نہیں رکھی جائے گی۔ تاہم ان معاملات سے آگے بڑھ کر ہمیں پولارائزیشن کو روکنے کے لئے قوانین کی ضرورت ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے ڈیجیٹل، کلچرل، میڈیا اور اسپورٹ کمیٹی کے حوالے سے جاری عارضی رپورٹ جو کہ اتوار کو شائع ہوئی ایک مثبت آغاز ہے۔
ارکان اسمبلی کی جانب سے اس طرح کی رپورٹس اکثر اوقات آتی رہتی ہیں تاہم انہیں بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ تاہم اس رپورٹ کو سنجیدہ لینا چاہئے اور اسے حکومت کی جانب سے آن لائن اشتہارات اور جھوٹی خبروں کو روکنے کے لئے منصوبہ بندی میں بھی شامل کرنا چاہئے۔ اس رپورٹ میں اچھے آئیڈیاز موجود ہیں جس میں اس دلیل کا توڑ بھی موجود ہے جو فیس بک کی جانب سے دی جاتی ہے کہ فیس بک ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو کہ اس بات کا ذمہ دار نہیں کہ اسے کس طرح سے استعمال کیا جائے یا اس پر کیا شائع کیا جائے۔
ایک نئی حکمت عملی بنائی جائے جو کہ صرف ایک کمیٹی کی حد تک نہ ہو بلکہ اس کے زریعے سے نقصان پہنچنے والے اور غیر قانونی مواد کیخلاف کارروائی کے لئے ٹیکنالوجی کمپنیوں کی قانونی حیثیت واضح ہو جائے۔
میں اس کمیٹی اور وزراء کو حوصلہ افزائی کروں گا کہ وہ چند پہلوئوں پر مزید گہرائی سے سوچ بچار کریں۔ مثال کے طور پر انہوں نے الگورتھم کو استعمال کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ اس سے ریگولیٹر کے زریعے کسی بھی صارف کو مہیا کی جانے والی خبر کی جانچ ہوسکے۔ اس طرح کے الگورتھمز کے شائع ہونے کی ضرورت کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اس طرح کے ایلگورتھم کو شائع کئے جانے کی ضرورت کیا ہے؟ اور یہ کہنا کہ یہ لازمی ہے خبریں اور تبصرے نئی سوچ کے زریعے سے فراہم کئے جائیں کیوں کہ لوگ ہمیشہ سے ایک ہی طرح کے نظریات اور اشتہارات پر گذارا نہیں کر سکتے جو کہ پہلے ہہ ان کی سوچوں کے مطابق ہوں؟
ارکان اسمبلی سیاسی اشتہارات پر نئے قوانین کے لئے مشاورت کرررہے ہیں تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ کسی بھی مہم جوئی کے لئے چلایا جانے والا اشتہار کس نے جاری کیا ہے۔
لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ اس ضمن میں مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں ٹیلی ویژن پر ہمیشہ سے سیاسی اشتہارات پر پابندی عائد ہے خواہ ٹی وی پر خبروں اور مباحثے کے لئے پیش کئے گئے خیالات مرکزی میڈیم سے بھی آگے کے ہوں۔ اس نے برطانوی سیاستی کو مہنگائی سے بچارکھا ہے، یہاں کی سیاست سہل پسند اور منقسم ہے جیسا کہ ہر جگہ پر ہوتا ہے۔
لیبر کے سرگرم کارکن ٹوم بالڈون کی حالیہ کتاب میں انہوں نے سوشل میڈیا پر پابندی بڑھانے کی بات کو آگے بڑھایا ہے، انہوں نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ اس کے زریعے سے ساز باز اور غلط استعمال کے راستے ہمیشہ سے کھلے رہتے ہیں اور ایسا مواد اچانک سے متروک ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی پابندی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیوز اور پیغامات کو روکا نہیں جاسکے گا اگر یہ پیغامات زیادہ طاقتور یا دلچسپ ہوں، تاہم اس کے زریعے سے کسی بھی شخص کے خلاف ڈیٹا کے غلط استعمال کو روکا جاسکے گا۔