تاجدار عادل
اگست 1947 کو پاکستان کی عظیم ریا ست میں صبح آزادی کے طلوع ہونے سے پہلے جدوجہد کے چراغوں سے بھری ہوئی ایک سو برس کی ایک طویل رات تھی - ملتِ اسلامیہ کی اس عظیم مملکت کے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی فکر نے کس طرح تاریخ کا یہ معجزہ کر دکھایا، اور اس جدوجہد کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں اس کی ایک جھلک فیس بُک میں پوسٹ ہونے والی اس خوب صورت تحریر میں ملاحظہ فرمائیں، مجھے افسوس ہے کہ میں اس متاثر کن تحریر کے مصنف کا نام نہیں جانتا ورنہ قائداعظم کی فکر کی یہ جھلکیاں پیش کرنے والے مصنف کو مل کر مبارکباد پیش کرتا۔
’’Hi My Name is Jeena‘‘
خاتون نے فلائیٹ ہموار ہوتے ہی اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا،میں نے کتاب بند کی اور اس کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا خاتون بزرگ تھیں، عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ہو گی وہ شکل سے پڑھی لکھی اور سمجھ دار بھی دکھائی دیتی تھیں، انہوں نے کتاب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ”کیا یہ عربی کی کتاب ہے“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”نہیں‘‘ یہ اُردو زبان کی کتاب ہے“ وہ مسکرائیں، اپنا ہاتھ دوبارہ میری طرف بڑھایا،ملایا اور دیر تک جھلا کر بولی ” تم پاکستانی ہو“ میں نے گرم جوشی سے جواب دیا ”جی بالکل“ وہ حقیقتاً خوش ہو گئیں، فلائیٹ لمبی تھی چناں چہ ہم دیر تک گفتگو کرتے رہے، پتہ چلا جینا امریکی ہیں، تاریخ کی استاد ہیں، وہ طالب علموں کو ”عالمی تنازعے“ پڑھاتی ہیں، چناں چہ وہ مسئلہ کشمیر سے اچھی طرح واقف ہیں، وہ قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی دونوں سے بہت متاثر تھیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا ”کیا تم نے گاندھی کو پڑھا ہے“ میں نے جواب دیا ”جی ہاں میں نے گاندھی کی آٹوبائیو گرافی بھی پڑھی اور ان کے سات سماجی گناہوں کا مطالعہ بھی کیا“ جینا نے مجھ سے گاندھی کے سات سماجی گناہوں کے بارے میں پوچھا‘ میں نے عرض کیا ”پوپ گریگوری اول نے 590ءمیں سات خوفناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی،ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ ہوس،بسیار خوری ،لالچ ،کاہلی ،شدید غصہ،حسد اورتکبر ہلاک کر دیتے ہیں، انسان اگر ان سات گناہوں پر قابو پا لے تو یہ شان دار، بھرپور اور مطمئن زندگی گزارتا ہے، گاندھی جی نے پوپ گریگوری کے سات گناہوں کی فہرست سے متاثر ہو کر 1925ءمیں سات سماجی گناہوں کی فہرست جاری کی،ان کا کہنا تھا ،جب تک کوئی معاشرہ ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا ،وہ معاشرہ اس وقت تک معاشرہ نہیں بنتا،گاندھی جی کے بقول اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے، کام کے بغیر دولت گناہ ہے، ضمیر کے بغیر خوشی گناہ ہے، کردار کے بغیر علم گناہ ہے، اخلاقیات کے بغیر تجارت گناہ ہے، انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے اور قربانی کے بغیر عبادت گناہ ہے، یہ سات اصول بھارت کےلیےگاندھی کا سماجی ایجنڈا تھا“ وہ مسکرائیں، مجھے تھپکی دی اور پھر پوچھا ”کیا تم قائداعظم محمد علی جناح کے سات اصول بھی بیان کر سکتے ہو“ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”قائداعظم پریکٹیکل بااصول انسان تھے،وہ فرمودات پر یقین نہیں رکھتے تھے، چناں چہ انہوں نے زندگی میں قوم کو کوئی تحریری ایجنڈا نہیں دیا تھا“ وہ میری طرف دیکھتی رہیں، میں نے عرض کیا” گاندھی اور قائداعظم میں فرق تھا،گاندھی فلاسفرتھے اور قائداعظم پریکٹیکل انسان تھے،وہ کہنے کے بہ جائے کرنے پر یقین رکھتے تھے ،اس لیے ہمارے پاس اقوال سے زیادہ قائداعظم کی مثالیں موجود ہیں“ میں خاموش ہو گیا،وہ بولیں ”میں وہ مثالیں سننا چاہتی ہوں“ میں نے عرض کیا ”مثلاً قائداعظم نے پوری زندگی وقت کی پابندی کی، پوری زندگی قانون نہیں توڑا، پوری زندگی اقرباء پروری نہیں کی، پوری زندگی رشوت دی اورنہ لی، پوری زندگی اپنے مذہبی رجحانات کی نمائش نہیں کی( وہ سنی تھے، وہابی تھے یا پھر بریلوی قائد نے پوری زندگی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی)،پوری زندگی وعدے کی پابندی کی،پوری زندگی کوئی سمجھوتہ نہیں توڑا، پروٹوکول نہیں لیا، سرکاری رقم نہیں کھائی، ٹیکس نہیں بچایا،آمدنی نہیں چھپائی،اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا،کسی کا حق نہیں مارا اور پوری زندگی کسی شخص کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی“۔
وہ مسکرا کر بولیں ”ویل ڈن، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں،وہ واقعی بہت شان دار انسان تھے، میں ان سے بہت انسپائر ہوں“ وہ رکی اور پھر آہستہ سے بولیں ”میں اگر آپ سے مزید سوال پوچھ لوں تو آپ مائینڈ تو نہیں کریں گے“ میں نے مسکرا کر جواب دیا” نہیں ضرور پوچھیں‘ میں حاضر ہوں“ وہ بولیں ”کیا آپ قائداعظم سے محبت کرتے ہیں“ میں نے فوراً جواب دیا ”دل و جان سے“ وہ بولیں ”آپ پھر بتائیے آپ میں اپنے قائداعظم کی کون کون سی خوبی موجود ہے“ میرے لیے یہ سوال غیر متوقع تھا،میں پریشان ہو گیا اور میں پریشانی میں دائیں بائیں دیکھنے لگا،وہ شرمندہ ہو گئیں اور آہستہ آواز میں بولیں ”آپ یہ چھوڑ دیں،آپ صرف یہ بتائیں آپ کی قوم نے اپنے قائد کی کون کون سی خوبی کو اپنی ذات کا حصہ بنایا“ میں مزید شرمندہ ہو گیا،میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا،وہ مسکرا کر بولیں ”میں تاریخ کی طالب علم ہوں‘ میں اسلام سے بھی انسپائر ہوں‘ میں آدھی اسلامی دنیا دیکھ چکی ہوں، آپ مسلمان دو عملی (منافقت) کا شکار ہیں،آپ لوگ ہمیشہ نبی ؐ کو اپنا ہیرو کہتے ہیں،آپ ان کے خلفاءاور صحابہؓ کو بھی آئیڈیل کہتے ہیں ،لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو آپ ان کی کوئی ایک خوبی بھی ”اڈاپٹ“ نہیں کرتے،آپ میں آپ کے آئیڈیلز کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی‘ آپ لوگ قائد اعظم جیسی شخصیات کے بارے میں بھی اسی طرز عمل کا شکار ہیں،آپ نے قائداعظم کو نوٹ پر چھاپ دیا، آپ ہر فورم پر ان کی عزت بھی کرتے ہیں اور آپ ان کےلیے لڑنے مرنے کےلیے بھی تیار ہو جاتے ہیں، لیکن جب ان جیسا بننے کی باری آتی ہے، تو آپ دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں، چناں چہ میرا مشورہ ہے آپ اگر اسلام پھیلانا چاہتے ہیں ،تو آپ رسول اللہ ؐ جیسی عادتیں اپنا لیں اور آپ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں ،تو قائداعظم کے اصولوں پر عمل شروع کر دیں،آپ کا ملک یورپ سے آگے نکل جائے گا“ وہ رکیں اور نرم آواز میں بولیں ”میں اپنی ہر پہلی کلاس میں طالب علموں سے ان کے آئیڈیلز کے بارے میں پوچھتی ہوں،یہ جب اپنے اپنے آئیڈیلز بتا دیتے ہیں ،تو پھر میں ان سے پوچھتی ہوں آپ وہ خوبیاں گنوائیں، جو آپ نے اپنے آئیڈیلز سے متاثر ہو کر اپنی زندگی میں شامل کیں،زیادہ تر طالب علموں کا رد عمل آپ جیسا ہوتا ہے،میں پھر ان کو بتاتی ہوں میں اس وقت تک آپ کے آئیڈیل کو آئیڈیل نہیں مانوں گی، جب تک آپ کی زندگی میں ان کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی،آپ اگر دل سے اپنے آئیڈیلز کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں، تو پھر آپ میں ان کی عادتیں موجود ہونی چاہئیں ،ورنہ آپ منافق ہیں اور میں نے زندگی میں کسی منافق کو کبھی مطمئن اور اچھی زندگی گزارتے نہیں دیکھا۔