• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتظارِ قائد

صبا اکبر آبادی

مسافرانِ وفا دورِ اعتبار میں ہیں

تھے جس دیار کے خواہاں، اُسی دیار میں ہیں

اگرچہ پست و بلند اپنے اختیار میں ہیں

سمجھ رہے ہیں مگر یہ کہ رہ گزار میں ہیں

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

ابھی نہیں ہے ہمیں اعتبار، منزل کا

جما ہوا ہے دلوں پر غبار، منزل کا

ہر اک نشان ہے گو آشکار، منزل کا

گماں وطن پہ ہے بے اختیار، منزل کا

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

ہماری زیست کا مقصد، ابھی نہیں حاصل

ابھی تو راہ نظر آتی ہے بہت مشکل

ابھی وطن کی حقیقت سمجھ سکا نہیں دل

ہے کوئی اور بھی منزل، یہی نہیں منزل

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

یہ چاہتے ہیں کوئی راستہ دکھائے ہمیں

سفر تمام کہاں ہوگا، یہ بتائے ہمیں

پڑے ہیں خاکِ وطن پر، ذرا اٹھائے ہمیں

بلندیوں کی طرف ساتھ لے کے جائے ہمیں

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

ہوئی ہے ختم، شبِ غم یقیں نہیں آتا

سحر کے پاس ہی ہیں ہم، یقیں نہیں آتا

یہی تھی منزل ِعالم، یقیں نہیں آتا

نہ آئیں قائدِاعظم، یقیں نہیں آتا

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

اُسی نے خوابِ گراں سے ہمیں جگایا تھا

اُسی نے نغمہ ٔجوشِ عمل سنایا تھا

وہی مصیبت ِملّت میں کام آیا تھا

وہ ہم کو چھوڑ نہ دے گا، جو ساتھ لایا تھا

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

ہمارا کیفِ تمنا اُتر نہیں سکتا

نظامِ شوق ہمارا بکھر نہیں سکتا

صبا ہمیں کوئی مایوس کر نہیں سکتا

حیات بخشنے والا تو مر نہیں تھا

ہم اب بھی قائدِاعظم کے انتظار میں ہیں

تازہ ترین
تازہ ترین