پروفیسر عفت بانو
چودہ اگست 2018کی آمد آمد ہے ، امسال بھی چودہ اگست حسبِ دستور جوش و خروش سے منایا جائے گا ہمارے نوجوان اپنی موٹر سائیکلوں کے سائلینسر نکال کر سمندر کا رخ کریں گے، بچے ہرے رنگ کے بال سر پر سجائیں گے، ماسک لگائیں گے اور بے چارے غریب والدین چاہے ان کے پاس پیسہ ہویانہ ہو ،کسی نہ کسی صورت بچوں کی خواہشات پوری کریں گے۔ بغیر سوچے سمجھے چھوٹے چھوٹے جھنڈوں پر مشتمل لباس زیب تن کئے جائیں گے، نوجوان سڑکوں پر رقصاں نظر آئیں گے ،وہ بھی ہندوستانی گانوں کی تھاپ پر اسی شور وہنگامے میں چودہ اگست کا دن گزرجائے گا ،چھٹی ختم ہوجائے گی زندگی پھر اپنے ڈگر پہ رواں دواں ہوجائے گی ۔
عزیز نوجوانو!سوچو کیا ہمیں چودہ اگست ایسے ہی منانا چاہیے ؟کیا ہم ان لوگوں کو بالکل ہی فراموش کردیں جن کی بدولت آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آزادی کا سورج طویل تاریک رات کے بعد طلوع ہوا اور ایسے ہی طلوع نہیں ہوا اس کے پیچھے ایک طویل جدو جہد ہے ۔بے شمار گمنام شہید ،مجاہد ، سیاسی رہنما ، علماء ،شاعر وادیب ہیںاور ایک عام آدمی بھی ، جس نے سیاسی رہنماؤں کی آواز پر لبیک کہا اور نعرہ مساتنہ بلند کیا کہ لے کے رہیں گے پاکستان یہ جذبے کی شدت ہی تو تھی جس نے ناممکن کو ممکن کردکھایا اوربالآخر14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا ،یہ مسلمان قوم کی اتنی بڑی کامیابی ہے کہ ہم اس پر جتنی بھی خوشیاں منائیں کم ہے، لیکن خوشی منانے سے پہلے ہمیں اس پاک پروردگار کے آگے سجدہ ریز ہونا چاہئے ،جس نے ہمارے بزرگوں کی کوشش و جدو جہد کو کامیابی عطا کی اور ہمیں ایک آزاد ملک میں زندگی گزارنے کا موقع دیا۔
نوجوانو! آزادی کی خوشی ضرور مناؤ لیکن اس ماں کو فراموش نہ کرو جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچے خون میں نہلادیئے گئے ،ایک لمحے کے لئے اس بہن کو بھی یاد کرو جس کے جوان بھائی شہید کردیئے گئے جسے اغوا کرلیا گیا اور وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا گیاان بے گناہ شہیدوں کو فراموش نہ کرو جنہیں گورو کفن بھی نصیب نہ ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ تاریخ ِ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت 1947میں ہوئی، جب ان گنت انسان اپنے گھر بار چھوڑ کر ایک آزاد ملک میں بسنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے نکل کھڑے ہوئے ،نہ جانے کتنے اس وطن تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے اور کتنے راستے میں ہی شہید کردیئے گئے ۔
یہ آزادی کی قیمت ہے جو ہمارے بزرگوں نے ادا کی کہ آنے والی نسلیں آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں ،مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے آزادی کی وہ قدر نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی، افسوس کہ ہم مذہبی ،لسانی ،صوبائی ،گروہی سیاسی تعصبات کا شکار ہوتے چلے گئے اورجیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ہم اپنے ہی وطن میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کانام لینا پسند نہیں کرتے ہم سندھی بلوچی پنجابی پختون سرائیکی مہاجر سب کچھ ہیں ،مگر پاکستانی نہیں ہیں ،سوچو کیا ،ایسا نہیں ہے ۔
ہم سب ایک دوسرے کو قصور وار ٹہراتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب قصور وار ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کوئی وسعتِ قلب و نظر کاروادار نہیں۔ ہمارا آج کا نوجوان مذہبی حوالے سے بھی بہت جذباتی ہے ۔اس حوالے سے فیس بک پر جس طرح کی گفتگو سامنے آتی ہے، وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اس کا ذہن ماؤف، آنکھیں اور کان بند ہیں۔ انہیں اپنے حقیقی دشمن کے بارے میں کچھ علم نہیں ،وہ تو بس ملک دشمن قوتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ،انجانے میں اپنے ملک کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ خدارا! وقت کی آواز سنو، حالات کا اندازہ کرو، آپس میں دست وگریباں ہونے کے بجائے اس دشمن کے بارے میں سوچو،جو تمہارے ملک پر نظریں جمائے ہوئے ہے ۔
نسل نو پہ لازم ہے کہ صرف حال میں جینے کے بجائے ماضی کے حال احوال کا مطالعہ کرکے مسقبل کا تعین کرنے کی کوشش کرے، تاریخ کا مطالعہ سب سے اہم ہے، جب تک ہمارے بچے تاریخ سے واقف نہیں ہوں گے اس وقت تک وہ نہ تو اپنے لائحہ عمل کا تعین کرسکتے ہیں اور نہ ہی حقیقتوں کا ادراک۔اپنے آپ سے سوال کریں کہ جو ملک اتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ، کیا ہمیں اس کے ساتھ یہ سلوک کرنا چاہئے،صرف محرومیوں کا رونا نہ روئیں۔
مذہبی معاملات میں بھی اس قدر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہم سب مسلمان ،کلمہ گو ہیں۔ اللّٰہ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں،توایک دوسرے سے نفرت کیوں؟ خدار اآپس میں محبت کی بات کریں عفوو درگزر رواداری ،احترام کو عام کریں۔ ہمارے پیارے نبیؐکو کل عالمین کے لیے رحمت بنا کربھیجا گیا، پھر آپؐکا امتی اتنا غضبناک کیوں ؟