• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی نے ایم ایم اے سے علیحدگی کا اصولی فیصلہ کرلیا

اسلام آباد (انصار عباسی) 25؍ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں قیام پذیر ہونے والی متحدہ اپوزیشن بظاہر وزیراعظم پاکستان کے انتخاب سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی وزیراعظم کے عہدے کیلئے مسلم لیگ ن کے امیدوار شہباز شریف پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے جبکہ جماعت اسلامی نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ اس کے دو ارکان قومی اسمبلی جمعہ کو وزیراعظم کے انتخاب کے دن کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کا ایک منتخب رکن جبکہ ایک مخصوص نشست پر ایک خاتون رکن ہیں۔ سونے پہ سہاگہ، جماعت اسلامی شوریٰ نے بھی اصولی فیصلہ کیا ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد، ایم ایم اے، کی عام انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کے بعد اس کے ساتھ اتحاد جاری نہیں رکھے گی۔ تاہم، اتحاد سے فوری طور پر علیحدگی اختیار نہیں کی جائے گی بلکہ چند ماہ کے بعد یہ اقدام کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق منصورہ لاہور میں جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹرز میں 11؍ اور 12؍ ا گست کو ہونے والے شوریٰ اجلاس کے فیصلے کے تحت پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی میں اسپیکر کے عہدے کیلئے بھی کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ تاہم، انہوں نے قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کے ڈپٹی اسپیکر کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، اے این پی اور دیگر جماعتوں نے 25؍ جولائی کے انتخابات کے فوراً بعد ہاتھ ملاتے ہوئے نہ صرف متنازع انتخابات کے مسئلے کے حل کے حوالے سے متفقہ موقف اختیار کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا بلکہ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کے عہدے کیلئے بھی امیدوار لانے پر اتفاق کیا تھا۔ متحدہ اپوزیشن نے نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اس بات کا اعلان بھی کیا کہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے مسلم لیگ ن، اسپیکر کیلئے پیپلز پارٹی جبکہ ڈپٹی اسپیکر کیلئے ایم ایم اے کے امیدوار کی حمایت کی جائے گی۔ تاہم، یہ اتحاد زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور جماعت اسلامی نے اسپیکر کے عہدے پر کسی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی نے کھل کر کہا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے شہباز شریف کی حمایت نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی نے تجویز دی کہ ن لیگ کوئی دوسرا امیدوار سامنے لائے لیکن ن لیگ نے انکار کر دیا اور اس کا کہنا ہے کہ یہ بات اُس معاہدے کیخلاف ہے جو اپوزیشن جماعتوں کے درمیان طے پایا تھا۔ اگرچہ شہباز شریف اور آصف زرداری دونوں نے قومی اسمبلی میں عمران خان سے مصافحہ کیا لیکن قومی اسمبلی میں بالترتیب دوسری اور تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آنے والی جماعتیں اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے گریز کر رہی ہیں اور اس کی وجہ ماضی کے برسوں پرانے اختلافات ہیں۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن کے دن، قومی اسمبلی میں اپوزیشن بری طرح منقسم نظر آئی کیونکہ مسلم لیگ ن نے احتجاج اور نعرے لگانے کا فیصلہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے اور ن لیگ کے احتجاج کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ وزیراعظم کے انتخاب کے دن، پی ٹی آئی اور اس کے اتحاد پر اعتماد ہیں کہ عمران خان چیف ایگزیکٹو منتخب ہو جائیں گے۔ لیکن اس بات کا تاحال کوئی اشارہ نہیں کہ پیپلز پارٹی اپنا ذہن تبدیل کرے گی اور متحدہ اپوزیشن کی حیثیت سے شہباز شریف کو ووٹ دے گی یا نہیں۔ مسلم لیگ ن کو دال میں کالا نظر آ رہا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی چال بازیوں اور وعدے سے مکر جانے کا براہِ راست تعلق مبینہ طور پر مشکوک بینک اکائونٹس کے کیس کے ساتھ جڑا ہے۔ اس کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے زرداری اور ان کی بہن فریال ٹالپر اور ان کے مبینہ فرنٹ مین کیخلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے متحدہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کی حمایت نہ کرنے پر قائم رہتی ہے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اختلافات بڑھ جائیں گے۔ پی ٹی آئی متحدہ اپوزیشن میں پہلے ہی ایسی تقسیم کی پیشگوئی کر چکی ہے۔ دوسری جانب، ایم ایم اے کے سینئر رکن جے یو آئی کے فضل الرحمان، جو سڑکوں پر دھرنوں، احتجاج اور اسمبلیوں کے بائیکاٹ جیسے سمیت سخت اقدامات چاہتے ہیں، اب شاید جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رویے سے مایوس ہوں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کیلئے یہ صورتحال ایک امتحان جیسی ہے کیونکہ پارٹی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے 25؍ جولائی کے الیکشن میں بدترین شکست پر ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان پر مولانا فضل الرحمان کے ارکان اسمبلی کے حلف نہ لینے کے ابتدائی فیصلے کی حمایت کے اعلان پر بھی تنقید ہوئی تھی۔ سراج الحق نے مبینہ طور پر شوریٰ کو اپنا استعفیٰ پیش کیا لیکن شوری نے انہیں آئندہ 4؍ سے 5؍ ماہ بعد امیر کے انتخاب تک کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔

تازہ ترین