آج کل گھر سے نکلنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، کچھ اپنی سستی جو شاید عمر کا تقاضا ہے لیکن اصل مسئلہ گھر سے باہر کی دنیا ہے، باہر کے شور اور ہنگاموں کی خبر کچھ تو ٹی وی کے خبر نامے سے ملتی رہتی ہے، کچھ بے ہنگم شور اور مستقل چیخ چیخ کر کی جانے والی تقریروں کی آوازیں، نہ چاہنے کے باوجود سارا دن کانوں میں پڑتی رہتی ہیں۔ شاید آپ کو پہلے بتایا تھا کہ خیر سے ہم کراچی پریس کلب کے بالکل سامنے رہتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے ریڈ زون قرار دیا جا چکا ہے یعنی جس کی حفاظت کے لئے چوبیس گھنٹے پولیس موبائلیں، بکتر بند گاڑیاں اور ایمبولینسیں موجود رہتی ہیں لیکن ان کا مقصد پریس کلب یا ہم غریبوں کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ گورنر ہاؤس اور اس سے ذرا آگے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور ان کے مکینوں کی جان و مال کا تحفظ ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اب پرانا ہوچکا اور ہم بھی عادی ہوچکے ہیں اور ان ساری رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے گاہے گاہے اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے گھر سے نکل ہی پڑتے ہیں لیکن پھر ٹریفک کا ایک سیلاب بلا اور ڈرائیوروں کی پاگل کردینے والی حرکتیں، زندگی سے بیزار کردیتی ہیں اور ہم خود سے عہد کرتے ہیں کہ صرف چھٹی والے دن ہی گھر سے نکلیں گے تاکہ اپنا خون کم سے کم جلے۔ ویسے خون جلانے کا تو یہ ہے کہ ہر ہر بات پر جلتا ہے ۔سیاست اور سیاستدان تو صرف یہی کام کرتے ہیں۔ میں زندگی کے اس پہلو سے کمال بے نیاز ی سے آنکھیں چرا لیتی ہوں لیکن جن چیزوں یا باتوں کا مجھ سے براہ راست تعلق ہوتا ہے ان پر کیسے آنکھیں بند کروں؟
ہمارے گھروں کے بالکل سامنے سی این جی اسٹیشن ہے، جس کی مہربانی سے صبح ہوتے ہی ہمارے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ صرف جس دن ان اسٹیشنوں کے بند رہنے کا سندیسہ ملتا ہے، اس دن آپ بے فکری سے کھانا پکا سکتے ہیں اور گیزر جلانے کی عیاشی بھی کرلیتے ہیں ورنہ سارا دن تیلی جلا جلا کر مایوس ہوتے رہتے ہیں اور چولہا نہیں جلتا،کہاں کا کھانا اور کہاں کی چائے۔ بجلی ہو تو ایک پیالی چائے بنا لیتے ہیں یا پھر لسی اور ڈبل روٹی کے سلائس پر گزارا ہوتا ہے لیکن گھر سے بھاگ کر جائیں تو کہاں جائیں۔ کراچی کی سڑکیں، بازار بلکہ سارے علاقے کلنگ فیلڈز (Killing fields) کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ دن میں بھی کہیں جاتے ہوئے دس دفعہ سوچنا پڑتا ہے۔ شامیں اور گہری شامیں تو ویسے ہی لاکھوں اسرار لئے ہوتی ہیں۔ ویسے بھی آج کے کراچی میں گہرے اندھیرے اور اجنبی راستوں پر جانا خود اپنی شامت کو دعوت دینا ہے۔بڑے باہمت اور قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو ان حالات میں بھی اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق اور زندگی کے جھمیلوں سے نمٹنے کے لئے دن اور رات کے سارے لمحوں میں، شہر کے مختلف علاقوں میں آتے اور جاتے ہیں۔
مگر میں یہ سب آپ کو کیوں بتا رہی ہوں۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو ان حالات سے نہ صرف باخبر ہوں گے بلکہ اکثریت ان کی شکار بھی ہے۔ لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور اور دوسرے علاقوں کے مکین… تو ان کے اپنے اپنے عذاب ہیں اور ہر کسی کو اپنے اپنے دکھوں اور تکلیفوں کی گٹھڑیاں اٹھا کر ہی زندہ رہنا ہے بلکہ ان پریشانیوں کے بیچ اپنے زندہ رہنے کا سامان بھی کرنا ہے۔
زندگی کرنے کے سامان کی بات کریں تو مجھے انگریزی زبان کے رومانوی شاعر ورڈزورتھ کا طریق کار بہت پسند ہے۔ اس نے زندگی اور فطرت کے سارے مظاہر میں اپنے لئے خوشی کے ان گنت پہلو ڈھونڈ لئے تھے۔ جن کے سہارے اس کے مشکل لمحے بھی آسانی سے گزر جاتے تھے۔ آج ورڈز ورتھ مجھے یوں یاد آیا کہ کسی ضرورت کے تحت ہم پرانے کلفٹن کی طرف نکل گئے تھے۔ جیسے ہی شاہی چورنگی والا موڑ مڑا ہے میرے دل پر جیسے خوشیوں کی برسات ہوگئی۔ دور دور تک پیلے پیلے پھولوں کی دو رویہ قطاریں مجھے بے یقین کررہی تھیں،کیا پیلے پھولوں کی رت آگئی؟
اسلام آباد اور لاہور میں تو پیلے پھولوں کی رت ٹھٹھرنے والی سردی سے وابستہ ہے، یہ کراچی کے گرم موسم میں قدرت نے کیا مہربانی کردی؟ لیکن ان پھولوں کی زیارت نے اتنا ضرور کیا کہ مجھے ذہنی طور پر اٹھا کر راولپنڈی کے گورنمنٹ کالج فارویمن کے کھلے لان میں لے گئی۔ جہاں یخ سردی میں پیلی چنبیلی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہی تھی اور ہماری اردو کی استاد مسز رابعہ نیازی موسم کی مناسبت سے عجب دلفریب رنگ کا لباس پہنے کھڑی تھیں جسے کسی رنگ کا نام دینا زیادتی تھی اور ہماری ہوسٹل کی ساتھی اور سائنس کی استاد عائشہ مقصود (جو بعد میں عائشہ اسماعیل ہوگئیں) بالکل پیلی چنبیلی کی ہم رنگ شال اپنی بنفشی ساڑھی پر سنبھالتے ہوئے سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ میں اور صوفیہ لطیفی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ پیلے پھولوں کا یہ موسم زیادہ دلفریب تھا یا ہمارے مہربان استادوں کی شخصیتیں۔لیکن اگلا موڑ تو گورنمنٹ کالج لاہور کا پڑتا تھا۔ صبح کی ٹھنڈی اور نم آلود گھاس کے کنارے گل داؤدی کی نہ ختم ہونے والی قطار… اب بھی ذہن میں آتے ہی جی چاہا کہ ایک گھونٹ اس ٹھنڈے میٹھے رنگ کا بھر لوں۔ پتہ نہیں لوگوں نے پیلے رنگ کو ناپسندیدگی کے اظہار سے کیوں وابستہ کر دیا ہے۔ سرخ رنگ جہاں محبت کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے وہاں سفید رنگ صلح و آشتی کا پیامبر تصور کیا جاتا ہے لیکن سچی بات ہے مجھے تو زرد اور بسنتی رنگ سے عشق ہے لباس میں بھی یہ دل کو بھاتا ہے لیکن پھولوں میں تو عجیب طرح سے بہار کی نوید دیتا ہے اور طبیعت اسی طرح شگفتہ ہو جاتی ہے۔ضروری نہیں کہ میری طرح دوسروں کو بھی پیلے پھول ہی ان جانی خوشی عطا کرتے ہوں لیکن ایسا اس دنیا میں، اس زندگی میں ضرور کچھ ہوگا، جسے دیکھ کر…جسے سوچ کر آپ بے اختیار خوشی محسوس کرتے ہوں گے۔ دل کے اندر چھپی یہ خوشیاں دراصل زندگی کے وہ سوتے ہیں جو انسانوں کو جینے کا حوصلہ اور زندہ رہنے کی امنگ دیتے ہیں اور ایک لحاظ سے اپنی جنت کہلائے جانے کے حقدار ہیں۔ مانا کہ باہر کی دنیا بے حد مکروہ اور تکلیف دہ ہے لیکن ہماری یہ ذاتی جنت اور اس سے وابستہ خوشیاں کون چھین سکتا ہے۔ سچ بتائیں آپ کبھی سرسوں کے کھیت میں گئے ہیں؟ پیلی چنبیلی کی بہار دیکھی ہے؟ گل داؤدی کے تختوں اور لمبی قطاروں کو قریب سے دیکھا ہے؟ یا کبھی نرگس کی کھلی آنکھوں کی خوشبو سونگھی ہے؟ اگر آپ نے یہ سب دیکھا اور محسوس کیا ہے تو پھر آپ کو کچھ بتانے یا کہنے کی ضرورت نہیں۔ نہیں دیکھا تو ضرور دیکھئے… قدرت اور فطرت کے مظاہر کے آگے دنیا کی ہر چیز ہیچ ہے!!