تبدیلی آنہیں رہی ،تبدیلی آگئی ہے۔ بھٹو اور شریف خاندان کو پچھاڑ کر عمران خان کا وزیر اعظم بن جانا بجائے خود تبدیلی ہے۔ غیر روایتی سیاستدان جو اقتدار حاصل کرنے یا اسے جاری رکھنے کے لئے اپنے اصولوں پر سمجھوتے سے انکار کردے۔وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، تاہم انہیں اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں، چنانچہ انہیں بعض چھوٹی علاقائی پارٹیوں سے مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینا پڑی۔ مخلوط حکومت بنانے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) کو ساتھ ملانے پر کوسنے دینے والے خیبر پختونخوا میں بننے والی مخلوط حکومت پر شیر پائو اور جماعت اسلامی کی مدد لینے پر بھی طعنہ زنی کیا کرتےتھے۔
نگر نگر، بستی بستی پھرے مسافر پرویز خٹک پر بھی پھبتی کسی گئی کہ ماضی کی ہر حکمران جماعت میں چکر کاٹنے والا شخص کیا تبدیلی لے کر آئے گا؟ اسی پرویز خٹک کی وزارت عالیہ بے اعتبار اتحادیوں کے ساتھ عمران خان کی رہنمائی میں بڑی اور بنیادی اصلاحات کرنے میں کامیاب رہی ،بعد میں جن سے متاثر ہو کر عوام نے اپنی عادت کے برعکس تحریک انصاف کو دوسری باری دینے کا یوں فیصلہ کیا کہ نہ صرف اتحادیوں کی مجبوری سے بےنیاز کردیا بلکہ انہیں دوتہائی اکثریت دے دی تاکہ وہ پوری دلجمعی سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرسکے۔
عمران خان مخلوط حکومت کے تجربے کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے ہیں۔ کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو124کے ایوان میں تحریک انصاف کے پاس صرف48ممبران تھے، چنانچہ انہوں نےآزاد اراکین کے علاوہ جماعت اسلامی اور شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی اور انہیں اتحادیوں کو ان کی پسند کے مطابق وزارتیں دینا پڑیں۔ عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے بلیک میل ہونے سے انکار کرتے ہوئے بدعنوانی کے الزام پر ناگزیر اتحادی شیر پائو کو کابینہ سے الگ کردیا، حکومت کے آخری مہینوں میں سینیٹ انتخابات کے دوران پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر اپنے بیس(20)ممبران صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے خارج کرکے اپنی حکومت کو خطرے میں ڈال دیا لیکن مصلحت کو اصول پر ترجیح نہ دی۔
وزیر اعظم عمران خان کو وفاق میں مخلوط حکومت بنانا پڑی مگر ماضی کی کے پی کے حکومت کے مقابلے میں ان کی مجبوریاں کم ہیں۔ ایک آدھ اتحادی کے چھوڑ جانے سے حکومت ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہیں سب سے بڑے صوبے پنجاب اور کے پی کے حکومت کے علاوہ بلوچستان میں بھی اتحادی ہونے کی وجہ سے مرکز میں پو زیشن مضبوط تر ہوتی جائے گی۔ اتحادیوں نے پرویز خٹک کے انداز حکمرانی سے بہت کچھ سیکھ لیا ہوگا، یقیناً جان گئے ہوں گے کہ ان کے لئے نئی حکومت کو بلیک میل کرنا ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کی جیت پر یوں تو سب کے اوسان خطا ہیں لیکن جو بوکھلاہٹ مولانا فضل الرحمٰن اورجماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے چہرے پر لکھی ہے وہ سب سے الگ سب سے جدا ہے۔ دراصل انہوں نے اقتدار میں واپسی کے لئے آخری دائو آزما کے دیکھے، اس دائو کے آزمانے سے اقتدار ملنا تو دور الٹا سیاست میں نام رکھنا بھی مشکل ہے۔ ’’سراج الحق صاحب تو اپنا واحد مرغا بغل میں دبائے نکل گئے، نہیں معلوم ان کے مرغ کی بانگ کے بغیر پارلیمنٹ کی صبح طلوع ہو کہ نہ ہو‘‘۔ تحریک انصاف کے پی کے میں حکومت ہونے کے باوجود پوری رفتار نہیں پکڑ سکی کہ ایک طرف مرکزی حکومت کی پیدا کردہ رکاوٹیں، اتحادیوں کا بوجھ مرکز کا گورنر اور ان کے مراعات یافتہ مقامی عہدیداروں نے کتنے ہی ممبران اسمبلی کو گمراہ کر رکھا تھا ان ناگزیر مجبوریوں کے باوجود صوبائی حکومت کے اقدامات اور اصلاحات نے صوبے کے عوام کو خوش کرکے ان کے دل جیت لئے یوں ماضی کی تمام حکمران جماعتیں تحریک انصاف کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکیں۔
نامساعد حالات کے باوجود صوبائی حکومت نے پولیس اصلاحات کیں، نظام عدل کو موثر اور تیز تر بنایا، ریونیو کے محکمہ کو بدل ڈالا، صحت کارڈ جاری کرکے غریب گھرانوں کے مریضوں کو پانچ لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت فراہم کی، پسماندہ علاقوں میں چھوٹے ڈیم بنا کر بلا رکاوٹ صرف چار روپے فی یونٹ بجلی مہیا کی۔ شہریوں کی سہولت کے لئے میٹرو بس منصوبہ شروع کیا جس کی قیمت پنجاب اور اسلام آباد میٹرو کے مقابلے میں بہت کم رہی۔ پنجاب میں میٹرو کے ہر مسافر کے بدلے حکومت 44روپے سبسڈی ادا کرتی ہے جبکہ پشاور میٹرو میں کوئی سبسڈی نہیں دی جاتی بلکہ میٹرو صوبے کو ٹیکس ادا کرے گی۔ مرکزی حکومت کی طرف سے رکاوٹوں اور مخالفانہ پراپیگنڈے کے باوجود جو کچھ نتائج انتخابات میں سامنے آئے ہیں اس کے بعد ماضی کے حکمرانوں کو سیاست میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں مشکلات نظر آرہی ہیں۔
ایم ایم اے، اے این پی، مسلم لیگ وغیرہ باریاں لے کر رخصت ہوئیں۔ ان کے پاس کچھ نیا کرکے دکھانے کا کوئی موقع نہیں کہ تحریک انصاف کی نقل کرکے ہی کوئی نیک نامی کما سکیں۔ نئی حکومت اس کی اصلاحات اور طرز حکومت پوری قوم دیکھے گی اور ماضی کے حکمرانوں سے موازنہ بھی کرے گی جس کا نتیجہ یقیناً نئے حکمرانوں کے حق میں ہوگا۔ عمران خان کا ہر دوست، دشمن جانتا ہے کہ وہ اقتدار کو ذاتی نفع اندوزی کے لئے استعمال نہیں کرے گا نہ ہی اپنے ساتھیوں کو کرنے دے گا۔ ممبران اسمبلی اور کابینہ کے کسی رکن کو جرأت نہیں ہوگی کہ وہ کھل کھیل سکے۔ پولیس اصلاحات اور بلدیاتی نظام کے پی کے طرز کا ہو تو یہ اہل وطن کے لئے الگ اور خوش گوار تجربہ ہوگا۔ حکومت کے کروفر اور اخراجات میں ابھی سے کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ سرکاری اسکولوں، اسپتالوں کی طرف توجہ دی جائے گی۔ پورے ملک میں ہیلتھ کارڈ تجربے کو دہرایا جائے گا تو صحت اور تعلیم میں پانچ برس کے اندر بڑا انقلاب برپا ہوجائے گا۔ دوست ملکوں، حریفوں اور بڑی طاقتوں کے ساتھ عمران خان کا طرز عمل معذرت خواہانہ نہیں ہوگا، طویل مدت کے بعد قوم ایسے حکمران کا تجربہ کرے گی جس کے طریقہ کار سے انہیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ماڈل ٹائون کی طرح قتل عام نہیں ہوگا۔ پولیس حکمرانوں کے لئے پولیس مقابلے نہیں کرے گی۔
تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ تھانوں پر حملہ کرکے جرائم پیشہ دوستوں کو چھڑالے جانے کی جرأت نہیں کریں گے۔ انہیں اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈ کے نام پر قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے نہیںدیا جائے گا۔ حکمران بیرون ملک سرمایہ نہیں لے جائیں گے۔ کسانوں، صنعت کاروں اور تاجروں کے ساتھ جو دشمنی گزشتہ دس برس کی جاتی رہی اس کا خاتمہ ہونے سے زراعت اور صنعت کا پہیہ چل پڑے گا۔ آئندہ پانچ برس گزشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں یقیناً بہت اچھے گزریں گے۔ کوئی ناگہانی آفت نہ آئی تو یقیناً پورے ملک میں آئندہ انتخابات کے پی کے کا’’ایکشن ری پلے‘‘ ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لئے نئی حکومت کو قدرے دشواری کا سامنا رہے گا۔ بطور خاص آئینی ترامیم بہت دشوار ہوں گی مگر پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ، شور شرابا، ہلڑ بازی اور قانون سازی میں رکاوٹ کے باوجود، انتظامیہ کو چلانے، انتظامی اصلاحات کرنے، پولیس بہتر بنانے، فنانس ڈسپلن قائم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔
مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں، کابینہ حلف اٹھارہی ہیں، آج تک سب مراحل توقع کے مطابق تھے لیکن کھیل کا سب سے دلچسپ اور سنسنی خیز مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے۔ یہ اسرار اور سنسنی سے بھرپور ایکٹ پاکستان کا صدارتی انتخاب ہے۔ دونوں فریق مقابلے کی چوٹ ہیں، حکمران اتحاد کی طرف سے ڈاکٹر عارف علوی کو امیدوار بنایا گیا اور پیپلز پارٹی کی طرف سے اعتراز احسن کو میدان میں اتارنے کا عندیہ دیا گیا ہے، اپوزیشن میں اگر ’’رضا ربانی‘‘ سابق چیئرمین سینیٹ پر اتفاق رائے ہوگیا تو حکمران اتحاد کو جیت کے لئے سرتوڑ کوشش کرنا پڑے گی کیونکہ سینیٹ کی وجہ سے اپوزیشن کو ووٹوں کی گنتی میں قدرے برتری حاصل ہے؟