• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم چوہان راجپوت ہیں اور ہمارا آبائی وطن، چنیوٹ ہے۔ میرے نانا، چوہدری احسان الٰہی اور چوہدری محبوب الٰہی سگے بھائی تھے۔ نانا ٹیچرز ٹریننگ اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور ہاسٹل کے وارڈن تھے۔ وہ پڑھے لکھے، روشن خیال اور دوسروں کی مدد کرنے والے انسان تھے۔چنیوٹ کے محلّے، کمانگراں کا کوچہ میاں مستقیم کا قدیم گھر، میرا ننھیالی گھر ہے۔ اس گھر میں میرے نانا کی فیملی کے علاوہ، دو اور رشتے دار خاندان بھی رہتے تھے۔ اس طرح کی رشتے داریوں میں تھوڑا بہت کھنچاؤ تو رہتا ہی ہے، مگر مجموعی طور پر سب کے مل جل کر رہنے سے خُوب رونق بھی لگی رہتی تھی۔ گھر کا ماحول سادہ اور محبّت کرنے والا تھا۔ عزیز رشتے داروں کا تو وہاں ڈیرہ لگا ہی رہتا، اہلِ محلّہ کے لیے بھی اس گھر کے دروازے کُھلے تھے۔ میرے نانا تعلیمی مسائل حل کرنے میں جہاں اپنے عزیزوں کی مدد کرتے، وہیں محلّے کے بچّے بھی اُن کے فیض سے محروم نہیں رہے۔ نیز، محلّے کی بڑی بوڑھیاں اُن سے اپنے عزیز و اقارب کے نام خط لکھوایا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں، میری یادداشت میں وہ دن بھی محفوظ ہیں، جب اردگرد کی خواتین اپنی امانتیں نانا، نانی کے پاس رکھوانے آیا کرتیں۔ اُن کی ایک خُوبی یہ بھی تھی کہ وہ ضرورت مندوں کو خوش دلی سے قرض دیا کرتے تھے، تو انتہائی رازداری سے غریبوں کی مدد بھی کرتے۔ 

اس ضمن میں اُن کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے بچّوں کے ذریعے نقد رقم یا امدادی اشیاء ضرورت مندوں تک پہنچاتے تاکہ اُن کی بھی خیر کے کاموں میں رغبت بڑھے۔ بعدازاں، میری والدہ نے یہی طریقہ میرے ساتھ بھی اپنایا۔ نانا کے چاچا صدیق اور فقیریا نامی دو ملازم تھے، جب کہ ماسی نوراں گھر کے کام کاج میں نانی امّاں کا ہاتھ بٹایا کرتیں۔ نانی امّاں نے انتہائی منکسرانہ طبیعت پائی تھی اور وہ مقامی مدرستہ البنات میں ٹیچر تھیں۔ اُن کا گھریلو ملازمین سے برتاؤ انتہائی مشفقانہ تھا۔ نانی امّاں کی چاروں بہویں، یعنی میری ممانیاں آج بھی اپنی ساس کے گُن گاتی ہیں۔ اُنھوں نے چاروں بہوئوں سے بہت بناکر رکھی اور اُنھیں حُسنِ سلوک سے اپنا گرویدہ کر لیا۔ نانا اور نانی کو حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی، یہ اُس زمانے کا حج تھا، جب بحری جہاز پر چودہ دن جانے اور چودہ دن آنے میں لگتے تھے۔

میرے نانا کے سات بچّے تھے۔ 3بیٹیاں اور 4بیٹے۔ اُنھوں نے اپنے بچّوں کی بہت اچھے انداز سے تربیت کی، لیکن میری نانی اور چار بچّے، یکے بعد دیگرے 50 برس کی عُمروں ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میری والدہ قیصرہ بیگم، ماموں شوکت الٰہی، لیاقت الٰہی اور خالہ، طاہرہ صدیقہ چنیوٹ کے آبائی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ جب بھی اُن کا خیال آتا ہے، تو دِل غم سے بَھرجاتا ہے۔ میرے ماموں، حافظ محمّد علی چنیوٹ، ماموں سعادت الٰہی اور خالہ، نائلہ بلال لاہور میں مقیم ہیں۔ نانا اور نانی کی خصوصیات اُن کی اولاد میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ کوچہ میاں مستقیم کا آبائی گھر، چھوٹے ماموں، سعادت الٰہی کے ملتان شفٹ ہوجانے کے باعث کرائے پر دے دیا گیا ہے، لیکن اس گھر سے وابستہ یادیں آج بھی میرے قلب و نظر کو تابندہ و فروزاں رکھے ہوئے ہیں اور مَیں اکثر خوابوں میں بھی اپنے ننھیالی گھر کو آباد دیکھتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ میرے نانا، نانی، والدہ، خالہ اور ماموئوں کی مغفرت فرمائے، اُن کی قبروں کو روشن کرے اور میرے خوابوں، خیالوں میں اس گھر کو ہمیشہ زندہ و جاوید رکھے (آمین)۔

( مصباح طیّب، سرگودھا)

تازہ ترین
تازہ ترین