• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوانہ جبیں

خواتین کو ہمارے معاشرے میں عام طور پر’ صنف نازک‘ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ انہیں گھر کی زینت بھی قراردیاجاتاہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر ہی اچھی لگتی ہیں، ان کا کام سجنا سنورنااورتمام عمر گھر سنبھالنا ہی ہے۔ زندگی کے سنجیدہ سماجی و معاشی معاملات اور معاشرتی زندگی کے باقی تمام پہلوؤں سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے، یہ فرسودہ اور متعصبانہ خیالات معاشرتی نفسیات میں ایک ناسور کی طرح اپنی جڑیں پکڑ چکے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یوں تو پوری دنیا میں عورتیں استحصال، جبر اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں، لیکن ہمارے معاشرےمیں یہ مسائل بہت زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ پورے پاکستان میں عورتیں ان مسائل میں گھری ہیں لیکن محنت کش طبقےکی عورت ان مسائل کا زیادہ شکار ہے۔مثلاً روزگار کے مواقع نہ ہونا یا ان میں رکاوٹ، کم اجرت، بلامعاوضہ کام، جنسی یا نفسیاتی طور پر ہراساں کیا جانا، امتیازی قوانین، سیاسی عمل میں شمولیت میں رکاوٹیں، معاشرتی تعصب، تشدد، رسم و رواج کے بندھن، عزت کے نام پر قتل، زنا بالجبر، اغوا، گھر اور گھر سے باہر عدم تحفظ، تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں، آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ، جبری محنت، زبردستی کی شادی، غیر معیاری رہائش، نامناسب خوراک، پروفیشن کے انتخاب میں پابندیاں،انصاف تک رسائی میں رکاوٹ اور کھیلوں میں شمولیت میں رکاوٹ جیسے مسائل قابل ذکر ہیں۔ 

کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن آج بھی ہمارے ہاں عورت غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے عورتوں کی صورت حال تب تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک کہ سیاسی عمل میں عورتوں کی شمولیت مردوں کے مساوی نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے محض نمائشی اقدامات سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ منتخب اداروں میں محض عورتوں کا کوٹہ رکھوا دینے کا یہ مطلب نہیں کہ اب ان کی آواز سنی جائے گی بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ عورتوں کی سیاست میں آزادانہ شمولیت کے لئے تمام سماجی، سیاسی اور معاشی رکاوٹوں کو دور کیا جائے، چونکہ عورتیں سماج میں انتہائی پسی ہوئی ہیں اس لئے ایسی شمولیت کے لئے رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ شعوری کاوشیں انتہائی ضروری ہیں۔ اس حوالے سے وہ علاقے جہاں عورتوں کی سیاست میں شمولیت کی شرح انتہائی کم ہے وہاں خصوصی اقدامات کئے جائیں اور اگر کہیں عورتوں کو سیاسی عمل میں شرکت سے روکا جاتا ہے تو ایسے عمل کو جمہوریت اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی مانتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔

منتخب ہونے والی عورتوں کو اختیارات دئیے جائیں اور انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کا حق دیا جائے۔ عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین کاخاتمہ کیا جائے۔ انہیںقانونی حقوق کے حصول کے لئے سہولیات فراہم کی جائیں ۔ ان قبائلی اور جاگیردارانہ رسوم و رواج کو روکا جائے جو عورتوں پر جبر کا ذریعہ ہیں اور ان کی آزادی میں رکاوٹ ہیں۔ قانون سے متعلق تمام شعبوں جس میں عدالتیں، وکلاءاور پولیس شامل ہے کو عورتوں کے حقوق کے بارے میں باقاعدہ تعلیم دی جانی چاہیے۔ ”غیرت کے نام پر قتل“ ”قرآن سے شادی“ زبردستی شادی کرنے اور کروانے پر انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری منصفانہ فیصلے کئے جائیں اور رسم و رواج کے نام پر کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ تعلیم میں عورت اور مرد کی تقسیم کو ختم کیا جانا چاہیے ۔ عورتوں کی شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور اس کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ تعلیم کے لئے بجٹ میں کم از کم 10 فیصد فنڈز رکھے جائیں جس میں عورتوں کی تعلیم پر اخراجات زیادہ مختص کئے جائیں۔

عورتوں کے لئے تعلیم بالغاں کا پروگرام پورے ملک میں وسیع پیمانے پر شروع کیا جائے۔ تعلیم کے جن شعبوں میں عورتوں کی شمولیت کم ہے وہاں کم از کم مردوں کے مساوی لانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جانے چاہئیں،تعلیم کے شعبہ میں عورتوں کو ترقی کے مساوی مواقع دینے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس حوالے سے مخصوص عہدوں پر مردوں کے غلبے کو ختم کیا جائے۔ عورتوں اور بچوں کی صحت کا انتظام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تمام عورتوں کو صحت کی تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔صحت سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے کا پورے ملک میں وسیع پیمانے پر مناسب بندوبست کیا جانا چاہیے۔ ملازمت میں ترقی کے عورتوں کو مساوی مواقع فراہم کئے جانے چاہئیں۔ ملازمت اختیار کرنے کے لئے عورتوں پر موجود تمام سیاسی، سماجی اور معاشی دباؤ کو حائل ہونے سے روکا جائے۔ زچگی کے لئے کم از کم 6 ماہ کی معاوضے کے ساتھ رخصت کو تمام نوعیت کی ملازمتوں میں یقینی بنایا جائے اور ایسا نہ کرنے والوں کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ ان فارمل سیکٹر میں عورتوں کی تنظیم سازی کو قانونی حیثیت دی جائے۔ زراعت اور صنعت میں کام کرنے والی عورتوں کے حالات کار کو صحت کے اصولوں کے مطابق بنانے کو یقینی بنایا جائے اور اس دوران صحت کو پہنچنے والے نقصان کا معاوضہ بھی ادا کیا جائے۔ 

محنت کشوں کی تنظیموں میں عورتوں کی شمولیت ہر سطح پر مردوں کے مساوی ہو اور اس حوالے سے تنظیموں میں شعوری کوششیں کی جائیں۔ بچوں کی نگہداشت، تعلیم اور تربیت کے لئے ملک بھر میں مراکز قائم کئے جائیں تاکہ ملازم پیشہ عورتیں دوہرے بوجھ سے نجات حاصل کر سکیں۔ کام کی جگہ پر عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خاتمہ کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔موجودہ قوانین پر عملدرآمد کیا جائے اور ضرورت کے مطابق نئی قانون سازی کی جائے تاکہ عورتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ گھر سے کام کی جگہ تک ٹرانسپورٹ مفت فراہم کی جائے اور مردوں ، عورتوں کو مساوی اجرت دی جائے۔ عورتوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔

تازہ ترین