پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری قائم ہے یابرف پگھلنے لگی؟دونوں ممالک کے دفتر خارجہ کے بیانات میں پایا جانا والا تضاد اور ہی کہانی کی طرف اشارہ کیوں کررہا ہے؟
دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کا یہ کیسا رخ ہے کہ ایک طرف سے آواز آتی ہے ہم سے ڈو مور کا مطالبہ نہیں کیا گیا،دوسری طرف سے کہا جاتا ہے ہم نے دہشت گردوں کے خلاف فائنل اقدام کا کہہ دیا ہے۔
پاک امریکا تعلقات میں کئی ماہ سے آئے تعطل نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کررکھا ہے،امریکا نے پہلے آئی ایم ایف کو پاکستان کی امداد نہ دینے کا حکم دیا، اس کے بعد اتحادی فنڈز بھی روک لیا،اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے حوالے سے سخت نوعیت کے اقدامات کا اعلان کرچکے تھے۔
پاکستان میں عمران خان کی حکومت آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید کی جارہی تھی ،اس حوالے سے مائیک پومپیو نے پہلے پاکستانی وزیراعظم کو مبارک باد کا ٹیلی فون کیا جس پر دونوں طرف سے ایک کے بعد ایک وضاحت نے معاملہ پیچیدہ بنادیا تاہم بات کچھ دن بعد ٹھنڈی ہوگئی۔
پاک امریکا تعلقات میں ایک بار پھر چنگاری اس وقت بھڑکی جب امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈز کے 300 ملین ڈالر روک لیے،اسی روز دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ یہ امریکی امداد نہیں،ہمارے خرچ کئے ہوئے پیسے ہیں جو ’ری امبرس‘ کئے جانے ہیں۔
بہرحال اس پر امریکی محکمہ دفاع ’پینٹاگون‘ کا وضاحتی بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا کہ پاکستانی فنڈز کی معطلی کا اعلان نیا فیصلہ نہیں،اس حوالے سے اعلان جنوری 2018ء میں کیا گیا تھا۔
اگر واقعی پاکستانی فنڈز کی معطلی کا معاملہ گزشتہ دور حکومت میں ایک رخ پر جا پہنچا تھا،جیسا کہ امریکی محکمہ دفاع نے اپنے بیان میں کہا اور جس کی آج وزیر خارجہ شاہ محمود نے اپنی بریفنگ میں تصدیق بھی کی،تو پھر گزشتہ میڈیا ٹاک میں ’ری امبرس ‘والی بات کس وجہ سے کہی گئی؟
آج میڈیا کے سامنے وزیر خارجہ نے ’سب اچھا رہا،ماحول بدلا بدلا تھا، مثبت رخ پر بات ہوئی،ڈومور کا نہیں کہا گیا وغیرہ وغیرہ ۔۔‘کی گردان کی۔ اگر واقعی معاملہ اتنا سادہ سا ہے اور امریکی ڈو مور کہنے کی ابتدائی خبریں غلط تھیں تو پھر امریکی محکمہ خارجہ نے شاہ محمود قریشی کی پریس ٹاک کے اختتام کے چند منٹ بعد ہی اس حوالے سے یہ بیان کیوں جاری کیا کہ’ مائیک پومپیو نے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات پر زور دیا ہےـ‘
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے فوراً بعد بھارتی دورہ کرنا تھا اور نئی دہلی کی قیادت کو یہ تاثر دینا چاہا ہو کہ ہم نے اسلام آبادپر دباو بڑھاد دیا اور اس سے ایک بار پھر کہہ دیا ہےکہ ہم مطمئن نہیں اس لئے مزید کچھ کرو تاکہ بھارت امریکا تعلقات میں تنائو پیدا نہ ہو،ساتھ ہی پاکستان نے جو کچھ کہا ہے اس پر سنجیدگی سے واشنگٹن غور کرے، لیکن اس ساری بات کے امکانات کتنے روشن ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے سے پاک امریکا تعلقات میں پیشرفت ہوئی ہے یا پھر اس سے دونوں ممالک کے تعلقات کے تضادات مزید ابھر کر سامنے آئے ہیں؟ یقین دوسری بات درست لگتی ہے، کیا چیز ہے جس نے ہمارے محکمہ خارجہ کو ایک ایسی لائن لینے کی طرف مائل کردیا ہے جس کا امریکی موقف سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں یا آج ہم ایک بار پھر امریکا تک اپنے درست انداز فکر کو پہنچانے میں ناکام رہے ہیں؟
امید ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے دورہ امریکا جس کی مائیک پومپیو انہیں دعوت دے گئے ہیں،اس میں اسلام آباد کا موقف بھی درست انداز میں پہنچانے میں کامیاب رہیں گے۔