ٹھیک ستر برس پہلے، سال 1948کا ستمبر برصغیر میں شمال سے جنوب تک بسنے والے مسلمانوں کے لئے ایک انتہائی اَعصاب شکن مہینہ تھا۔ پاکستانی قوم نے چند روزبیشتر ہی اپنا پہلایوم آزادی منایا تھا لیکن ماہِ ستمبر کے شروع ہوتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کی صحت سے متعلق اچھی خبریں موصول نہیں ہورہی تھیں۔ اُدھر دلّی میں ہندوستانی حکمراں جنوبی ہند کی آزاد ریاست حیدرآباد پر عسکری جارحیت کے ذریعے قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ چند ہی دنوں بعدبانی پاکستان کی رحلت کی خبر قوم پر قیامت بن کرٹوٹتی ہے اور صرف اڑتالیس گھنٹوں بعد ریاست دکن پر ہندوستانی فوج کی یلغار کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔ ستمبر کا یہ پورا مہینہ بلا شبہ پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے کڑا امتحان تھا ۔
ایک طرف ملک میں بانیِ پاکستان کی رحلت پر قوم دل گرفتہ تھی اور دوسری طرف دکن میں ’’پولو‘‘ نامی پولیس ایکشن شروع ہوتے ہی مسلح بلوایو ں نے نہتے مسلمانوں پر حملے شروع کردیئے۔ اُس وقت پاکستانی دارلحکومت کراچی کے سینٹرل جیل سے ملحقہ اِسلام آباد نامی ایک محلّے میںبسنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق ریاست دکن سے تھا۔ یہاں ایک خاندان ایسا بھی تھا جو ایک سال قبل 1947میں ہجرت کر کے کراچی تک بخیرو عافیت پہنچ گیا لیکن بعد ازاں اپنے آبائی علاقے میں بھڑکنے والے فسادات میں اپنوں کو گنوا بیٹھا۔ طارق ابوالحسن کا تعلق اِسی خاندان سے ہے۔ اِن کا کہنا ہے کہ فسادات کے دوران اُن کی سگی نانی اور ایک ماموں کی گمشدگی نے اِن کی والدہ کی زندگی کو بدل کررکھ دیا۔ ’’والدہ کو خط کے ذریعے پتہ چلا کہ دکن میں مقیم نانی اور چھوٹے ماموں فسادات کے دِنوں سے لاپتہ ہیں ؛ ـیوں والدہ نے ساری زندگی اپنی ماں اور بھائی کی یاد میں گزاردی ۔‘‘ طارق ابوالحسن صحافی ہیں اور جیونیوز سے وابستہ ہیں۔
دکن کے نہتے اور بے بس مسلمانوں پر ظلم و ستم کی یہ داستاںریاست کے نظام عثمان علی خان، آصف جاہ ہفتم، کی جانب سے بھارت میں شمولیت سے انکار سے شروع ہوتی ہے۔ راج کے خاتمے پر تمام آزاد ریاستوں نے ایک کے بعد ایک پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ دکن مغلوں کے آخری دور سے ہی ہندوستان کی سب سے آزاد، مضبوط اور خوشحال ریاست سمجھی جاتی تھی ۔ لہٰذا عثمان علی خان نے اپنی ریاست کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو برقراررکھنے کا فیصلہ کیا۔
یہ وہی عثمان علی خان تھے جنہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لئے مختلف ذرائع سے خطیر رقو م پاکستان منتقل کرنے کے انتظامات کئے اور یہ وہی دکن تھا جہاں تحریک آزادی کے نامور رہ نما اور بانی پاکستان کے ساتھی بہادر یار جنگ نے پرورش پائی۔ دکن مجلس اتحاد مسلمین کی نرسری بھی تھی جس کے پلیٹ فارم تلے ہندوستانی مسلمانوں کے اتحاد و فلاح کے لئے آواز اٹھائی گئی۔
اگرچہ دلّی اور دکن کے نمائندوں کے درمیان یہ تنازعہ چند ماہ تک زیر بحث رہا لیکن موافق نتیجہ نہ آنے پر ہندوستانی حکمرانوں نے جلد بازی اور عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاقت کے زور پر ریاست کو یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پولیس ایکشن کی آڑ میں ’’پولو‘‘ نامی اِس آپریشن میں بھارتی افوا ج نے ماہ ستمبر کے دوسرے ہفتے ریاست پر قبضہ کرلیا۔ عثمان علی خان کے رضاکاروں نے ہفتہ بھرکی لڑائی کے بعد ہتھیار ڈا ل دئیے ستم یہ کہ اِس آپریشن کے شروع ہوتے ہی شدت پسند عناصر نے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی مسلم کمیونٹی کو بلا جواز سابق حکمرانوں کا حمایتی اور ہم مذہب قرار دیکر نشانہ بنانا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فسادات شہرحیدرآباد کے ’’اَضلاع‘‘ کہلائے جانے والے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں دوردور تک پھیل گئے۔
بدقسمتی یہ کہ اِسی دوران پہلے سے جاری بڑے جاگیر داروں کے خلاف تلنگانہ کمیونسٹ تحریک کی کارروائیاں بھی عروج پر تھیں اور مذکورہ فوجی آپریشن کے سبب تلنگانہ گوریلوں کے لئے بھی اپنے پرانے اہداف پر نشانہ لگانہ نسبتاً آسان ہوگیاتھا۔ یہ تاریخ کا ستم ہی تھا کہ تلنگانہ تحریک کی اِس جد و جہد کومسلم دشمن شر پسندوں نے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مسلم آبادیوں پرمزید حملے کئے ۔ بھارتی افواج کی تعیناتی کے باجودیہ خونریزی کئی روز تک جاری رہی۔ اِن واقعات پر تحقیقات کے لئے سندرلال نامی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی رپورٹ اگلے پینسٹھ برسوں تک منظر عام پر نہیں لائی گئی ۔آخر کار 2013میں منظر عام پر لائی جانے والی اِس رپورٹ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی گئی ہے جب کہ زخمی، بے گھر اور لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ فسادات میں کم و بیش دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
عجب یہ کہ سرحد کے دونوں اطراف اِن فسادات کی خبروں پر کچھ پابندی سی تھی۔ ہندوستان کے زیادہ تر اخبارات میں واقعات کو معمولی کی خبروں کے طور پر ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیاجاتارہا۔ دونوں ملکوں کے تاریخ دان اور مفکرین بھی اِن واقعات پر عملا ً خاموش رہے ۔ حد یہ ہے کہ دکن کے عوام ، حکمرانوں اورعلما کی جانب سے پاکستان کی بھرپور اورمستقل حمایت کے باوجود پاکستان کے کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہ نما نے اِن واقعات پر تحقیقات، متاثرہ خاندانوں کی مالی و نفسیاتی بحالی اور اِنصاف کے لئے خاطر خواہ آواز نہیں اٹھائی۔ وہ جید عالم بھی کم و بیش خاموش نظر آئے جنہیں دکن کی سرزمین ہی نے بنایا اور سنوارا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ اِن واقعات پر اُس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، حکومت، سیاست دانوں، مذہبی رہ نمائوں اور مفکرین کی خاموشی کسی نامعلوم سیاسی مصلحت کا نتیجہ رہی ہو؛ ہوسکتا ہے کہ یہ اجتماعی خاموشی پاکستانی قوم پرستوں کے دبائو کا سبب ہو ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کسی ممکنہ مصلحت یا دبائو کے باجود روزنامہ جنگ نے نہ صرف پاکستان کے قیام اورا ِس کے استحکام کے لئے دکن کے نظام، وہاں کے عوام، سیاست دانوں اور علما کی جانب سے کی گئی حمایت یاد دلائی بلکہ ریاست میں بھارتی پولیس، مسلح افواج اور مسلم دشمن شرپسندوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کی نشاندہی بھی کی۔ خاص بات یہ کہ اِس غیر متوقعہ رپورٹنگ کے باجود روزنامہ ایک دن کے لئے بھی بند نہیں کیا گیا او رنہ ہی ملک یا شہر کے کسی مقام پر اِس کی کاپیاں ضبط کی گئیں۔
اِس خونریزی کے بعد بہت سے متاثرہ خاندان اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اورنگ آباد، ممبئی، گجرات اور سرحد پار کراچی آکر آباد ہوگئے۔ آج کے شہر کراچی میں یہ خاندان زیادہ تر جمشید روڈ، پی آئی بی، حیدر آباد کالونی، بہادر آباد، لائینز ایریا ، شاہ فیصل کالونی، سعود آباد، کھوکھرا پاراور لانڈھی میں آباد ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اِن خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کے پاس سنانے کے لئے آج بھی بہت کچھ موجود ہو لیکن شاید سوال کرنے والوں پر ستّر برسوں پرانی خاموشی اب بھی طاری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)