• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14ارب ڈالر کا دیامربھاشا ڈیم صرف چندوں سے نہیں بن سکتا،احسن اقبال

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں سابق وفاقی وزیراحسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ن لیگی حکومت نے ڈیم کی تعمیر کیلئے ٹھوس اقدامات کیے تھے، دیامربھاشا ڈیم منصوبے کا مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں دو دفعہ افتتاح ہوا مگر ایک مرلہ زمین بھی حاصل نہیں کی گئی تھی، ہم نے ایک ارب ڈالر سے دیامربھاشا ڈیم کیلئے زمین حاصل کی ، سی پیک کے فریم ورک میں چین کو بھی دیامربھاشا ڈیم کی فنانسنگ میں پارٹنر بننے کیلئے رضامند کیا، 2018ء کے ترقیاتی بجٹ میں 23ارب روپے دیامربھاشا ڈیم جبکہ 2ارب روپے مومند ڈیم کیلئے رکھا، مومند ڈیم منصوبہ پرائیویٹ سیکٹرکے ذریعہ بھی مکمل ہوسکتا ہے، ن لیگ کی حکومت نے نیشنل واٹرپالیسی پربھی تمام صوبوں کااتفاق رائے کیا،ڈیم پر مزید کام کیا جاتا ہے تو ملک کے مفاد میں ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 14ارب ڈالر کا دیامربھاشا ڈیم منصوبہ صرف چندوں سے نہیں بن سکتا ہے، اوورسیز پاکستانی ڈالرز بھیجیں گے تو اس سے ایک حد تک ہی فنڈنگ حاصل ہوگی، اتنے بڑے منصوبے کیلئے انٹرنیشنل فائنانسنگ کے ساتھ پی ایس ڈی پی سے خطیر رقم مختص کرنا ہوگی، ہماری ترجیح پہلے چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم مکمل کرنے کی تھی جو سات ارب روپے میں بن سکتا ہے جبکہ اس کا پاور پراجیکٹ آئی پی پی کے اندر بنایا جاسکتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے کہا کہ ورلڈ بینک نے نیلم جہلم پراجیکٹ کی فائنانسنگ سے انکار کردیا تھا، ہم نے اس کیلئے بجلی کے بلوں میں دس پیسے فی یونٹ سرچارج لگایا تھا جبکہ باقی سپلائر کریڈٹ سے لگا اور یہ منصوبہ چل پڑا، ڈیم کیلئے کوئی پاکستانی چندہ دینا چاہتا ہے تو یہ صدقہ جاریہ ہے، ڈیموں کو کمپنی کے طور پر بنایا جائے عوام کیلئے اس کے باقاعدہ شیئرز جاری کیے جائیں تو پورا پاکستان اس کا حصہ بن سکتا ہے، وزیراعظم کو اوورسیز پا کستا نیو ں سے ڈیم کیلئے پیسے دینے کی اپیل کرنے کے بعد بیرون ملک جاکرانہیں ملک میں سرمایہ کاری کیلئے بھی قائل کرنا چاہئے۔ سلمان شاہ نے کہا کہ عمران خان ٹاسک فورس بنا کر بیرون ملک پاکستانیوں کے ملک میں سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں، اوورسیز پاکستانیوں کو کسی حکومت نے اہمیت نہیں دی پی ٹی آئی حکومت انہیں اہمیت دیتی ہے تو وہ بہت خوش ہوں گے، پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری اورسیز پاکستانی ہی لائیں گے، مقامی سرمایہ کاروں کو بھی سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، حکومت کا سب سے بڑا فوکس مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی طرف ہونی چاہئے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور سپریم کورٹ دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے، اس مسئلہ کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ڈیمز بنائے جائیں اور ڈیم بنانے کیلئے فنڈ قائم کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے بعد اب وزیراعظم عمران خان نے بھی دیامربھاشا ڈیم کیلئے فنڈ قائم کردیا ہے،وزیراعظم عمران خان نے جمعے کو قوم کے نام پیغام میں اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کو قرار دیا ہے، پانی کا مسئلہ واقعی بہت سنجیدہ ہے، خدشات سامنے آرہے ہیں کہ فوری طور پر پانی کے ذخائر نہ بنائے گئے تو مستقبل میں بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں، وزیراعظم نے دنیا بھر کے پاکستانیوں سے وزیراعظم اور چیف جسٹس کے ڈیم فنڈ میں پیسے جمع کرانے کی اپیل کی ہے، اس وقت تقریباً 90لاکھ پاکستانی بیرون ملک رہتے ہیں ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ان پاکستانیوں میں اکثریت مزدور پیشہ افراد کی ہے ان کیلئے ایک ہزار ڈالر کا فنڈ دینا آسان نہیں ہوگا، بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی اکثریت عرب ممالک میں رہتی ہے، صرف دو عرب ممالک میں تقریباً 36 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں، 20لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب جبکہ 16 لاکھ متحدہ عرب امارات میں روزگار کے سلسلے میں رہ رہے ہیں، کیا ان سب کیلئے ایک ہزار ڈالر دینا ممکن ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں چھ جولائی سے اب تک ایک ارب 97کروڑ 26لاکھ 43ہزار 520 روپے جمع ہوچکے ہیں، بہت سے ادارے اور افراد پہلے ہی ڈیم فنڈ میں اپنا حصہ ملاچکے ہیں اور دو ماہ میں تمام تر کوششوں کے باوجود صرف دو ارب روپے کے لگ بھگ جمع ہوسکے ہیں، وزیر اعظم عمران خان کی اپیل کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اس فنڈ میں تیزی سے اضافہ ہوگا ، عمران خان کو شوکت خانم اسپتال کیلئے زیادہ تر فنڈنگ بیرون ملک سے ہوتی ہے لیکن یہ فنڈنگ بھی چار ارب سے زیادہ نہیں ہوگی، وزارت منصوبہ بندی کے مطابق صرف بھاشا ڈیم کیلئے 1400ارب روپے کی ضرورت ہے، اس وقت دو ماہ میں دو ارب روپے جمع ہوئے ہیں تو 1400ارب روپے جمع کرنے کیلئے 700ماہ لگیں گے، اس وقت تک ڈیم کی لاگت مزید بڑھ چکی ہوگی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اس حوالے سے بارہ جولائی کو ایک انگریزی اخبار میں خرم حسین کا ایک آرٹیکل بھی شائع ہوچکا ہے جس میں انہوں نے بھی اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی، خرم حسین نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ چیف جسٹس کی پانی کے بحران پر توجہ قابل تعریف ہے مگر انفرااسٹرکچر کیلئے وسائل اس طرح نہیں جمع کیے جاسکتے، پبلک فنانس مذاق نہیں ہے، ریاست کو چیریٹی کی طرح نہیں چلایا جاسکتا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف عوامی فنڈنگ سے ڈیم کی تعمیر ممکن نہیں ہوگی اس کیلئے حکومت کو بڑے اقدامات اٹھانا ہوں گے، بجٹ میں کسی بڑی مد میں کٹوتی کرنا ہوگی یا پھر ٹیکس اصلاحات کرکے ٹیکس جمع کر کے فنڈ جمع کرنا ہوگا، اس وقت بجٹ میں دفاع کیلئے تقریباً 1100ارب روپے ، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے 1000 ارب روپے جبکہ قرض اتارنے کیلئے 2200ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کیا ان شعبوں کیلئے مختص رقوم سے مدد لی جاسکتی ہے، کیا حکومت یہ فیصلہ کرے گی اور اگر ایسا نہیں ہے تو بھاشا ڈیم کیسے بنے گا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ بھاشا ڈیم کے منصوبے پر کبھی کام ہی نہیں کیا گیا، 2006ء میں پرویز مشرف نے بھاشا ڈیم بنانے کا اعلان کیا، 2008ء میں اس ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ 12ارب ڈالر لگایا گیا، 2010ء میں مشترکہ مفادات کونسل نے بھاشا ڈیم منصوبے کی منظوری دی، گزشتہ دور حکومت میں بھی بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے کوششیں کی گئیں، چیف جسٹس کی طرف سے ڈیم فنڈ قائم کیے جانے کے اگلے دن احسن اقبال نے ٹوئٹ کیا کہ ن لیگ کی حکومت بھاشا اور مہمند ڈیم تعمیر کرنے کی منظوری دے چکی ہے، 2018-19ء کے ترقیاتی بجٹ میں بھاشا ڈیم کیلئے 23ارب اور مہمند ڈیم کیلئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں، احسن اقبال نے مزید لکھا کہ ہماری حکومت گزشتہ دو سال میں 100ارب روپے بھاشا ڈیم کیلئے خرچ کرچکی ہے اس سے پہلے تو کسی نے زمین تک نہیں لی تھی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ وزیراعظم نے لوٹی گئی دولت اور بغیر ٹیکس ادا کیے باہر جانے والا پیسہ واپس لانے ٹاسک فورس بنادی ہے جس کے تحت ریکوری یونٹ بھی قائم کردیا ہے، دوسری طرف چیف جسٹس نے بھی پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق ازخود نوٹس لیا ہوا ہے، حکومت کی طرف سے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا گیا ہے وہ 100کے قریب لوگ جنہوں نے زیادہ پیسے لوٹے اور باہرلے گئے اس پر فوری طور پر کام ہورہا ہے، سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک خصوصی کمیٹی بھی بنائی جاچکی ہے جس میں گورنر اسٹیٹ بینک، سیکرٹری فائنانس، سیکرٹری داخلہ، چیئرمین ایف بی آر، ڈپٹی چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین ای سی سی پی، انٹیلی جنس بیورو اور وزارت خارجہ کے نمائندے شامل ہیں، سپریم کورٹ اور حکومت کی کوششوں کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ بیرون ملک سے پیسہ واپس لانا آسان نہیں ہوگا، اس میں بہت سی قانونی رکاوٹیں سامنے آئیں گی، دیگر ممالک کے تعاون کے بغیر بیرون ملک سے پیسہ لانا مشکل ہوگا، اس حوالے سے افریقی ملک نائیجیریا نے بھرپور کوششیں کیں لیکن تقریباً پندرہ سال کی کوششوں کے بعد صرف ایک ارب 20کروڑ ڈالرز ہی وطن واپس لاسکا ، اس حوالے سے او ای سی ڈی کے تحت ایک عالمی معاہدہ بھی کیا گیا ہے جس پر پاکستان سمیت 116ممالک نے دستخط کیے ہیں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدہ سے بہت زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے، اس معاہدہ کے تحت کسی بھی ملک کے شہری کے غیرملکی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات خودبخود اس کے اپنے ملک کے ٹیکس حکام کو منتقل ہوجائے گی، مگر ان تمام اقدامات کے باوجود بیرون ملک چھپائے گئے اثاثوں کو واپس لانا آسان نہیں ہے، اس لئے گزشتہ کچھ عرصہ میں ان اثاثوں کو سامنے لانے کیلئے مختلف ممالک نے ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کروائیں، انڈونیشیا کی ایسی اسکیم کے تحت 9لاکھ 70ہزار افراد نے 367ارب ڈالرز کے اثاثے ظاہر کیے، ارجنٹینا میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے نتیجے میں 117ارب ڈالر کے اثاثے جبکہ بھارت میں 10ارب ڈالرز کے اثاثے ظاہر کیے گئے، پاکستان میں بھی حال ہی میں ایمنسٹی اسکیم لائی گئی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہاکہ شریف خاندان کیخلاف نیب ریفرنسز کو ایک سال گزر گیا مگر بھرپور کارروائی کے باوجود دو ریفرنسز التوا کا شکار ہیں، آج سے ٹھیک ایک سال پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے شریف خاندان کیخلاف تین ریفرنسز دائر کیے، سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو چھ ماہ میں ریفرنسز کا فیصلہ سنانے کا پابند کیا، لیکن نو ماہ بعد رواں سال چھ جولائی کو تین ریفرنسز میں سے صرف ایک ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنایا گیا جبکہ دیگر دو ریفرنسز العزیزیہ اور فلیگ شپ کی سماعت اب تک جاری ہے، ان ریفرنسز کو نمٹانے کیلئے مجموعی طورپر احتساب عدالت کو پانچ بار توسیع دی گئی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ریفرنسز کی مزید سماعت احتساب عدالت کے کمرہ نمبر دو کے جج ارشد ملک کریں گے یا احتساب عدالت کے کمرہ نمبر ایک کے جج محمد بشیر کی نگرانی میں سماعت ہوگی، یہ معاملہ نیب کی درخواست پر اب سپریم کورٹ چلا گیا ہے جس پر گیارہ ستمبر کو سماعت ہوگی۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا ہوگئی لیکن اب تک اس کے قانونی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اس کے علاوہ معا ملہ اپیل میں بھی گیا ہوا ہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف سمیت تمام ملزمان کو کرپشن کے الزامات سے بری کیا گیا، عدالت نے نواز شریف کو آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے پر سزا دی مگر یہ جائیداد کرپشن سے بنائی گئی ہے یا نہیں اس پر سزا نہیں دی، عدالتی فیصلے میں لندن فلیٹس کو ضبط کرنے کا بھی حکم ہے مگر اس حوالے سے بھی قانونی پیچیدگیاں ہیں کیونکہ یہ جائیدادیں بیرون ملک ہیں جہاں انہیں ضبط کرنے کیلئے کرپشن ثابت کرنا ضروری ہے اور اب تک شریف خاندان پر کرپشن کا الزام ہی ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اب ایک اور ہائی پروفائل کیس سامنے آیا ہے جس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور بھی نامزد ہیں، اس کیس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ نے چھ رکنی جے آئی ٹی بنادی ہے مگر کیا اس کیس میں پیسہ واپس آسکے گا، وہ پیسے کیسے واپس آئیں گے جبکہ شریف خاندان کے ہائی پروفائل کیس میں ابھی تک پیسہ واپس نہیں آسکا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی بیرو ن ملک اثاثے رکھنے والوں کی فہرست میں زیادہ تر پبلک آفس ہولڈرزہیں جبکہ کاروباری افراد بھی ہیں، ان تمام لوگوں کے کیسوں کی تحقیقات انتہائی ترجیح کے طور پر کی جائے گی، اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ساتھ مختلف ادارے اس سلسلے میں کام کریں گے اب برسوں کا کام گھنٹوں میں ہوجائے گا، رجسٹرڈ منی ایکسچینج کا تمام ڈیٹا اسٹیٹ بینک کے پاس جاتا ہے جس کا جائزہ لیا جائے گا، ہنڈی اور حوالہ روکنے کیلئے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے جائیں گے، اس کیلئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی گراؤنڈ رپورٹس کا بھی جائزہ لیا جائے گا، پاناما پیپرز اور پیراڈائز لیکس میں جن پاکستانیوں کے نام آئے ان کیسوں کو ازسرنو دیکھا جائے گا، پاناما پیپرزکے بہت سے کیسوں کا نیب پہلے ہی ازسرنو جائزہ لے رہا ہے، اثاثوں کی ریکوری کیلئے یونٹ کی تشکیل ہوئی ہے آئندہ کچھ دنوں میں کام کا آغاز ہوجائے گا،شریف خاندان کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے میں اثاثے ضبط کرنے کے احکامات ہیں ، نیب اس کیس میں برطانیہ جارہا ہے تاکہ اس جائیداد کے ٹرانسفر پر پابندی عائد کروائی جاسکے، ان اثاثوں کی واپسی کاعمل ایون فیلڈ ریفرنس کی اپیل کے فیصلے کے بعد ہی شروع ہوگا۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ بیرون ملک سے لوٹی گئی رقم واپس لانے کیلئے ٹاسک فورس قائم کردی گئی ہے، پیسے وطن واپس لانے کیلئے میوچل لیگل اسسٹنس آرڈیننس لایا جارہا ہے جس کے تحت ایک اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کا نیب، ایف بی آر ، ایف آئی اے اور نارکوٹکس کے محکموں کے ساتھ تعاون ہوگا، ایف آئی اے کے پاس بیرون ملک سے پیسے واپس لانے کا اختیار ہونا چاہئے، عالمی سطح پر کرپشن ، منی لانڈرنگ اور ٹیررازم کی فائنانسنگ روکنے کیلئے کام ہورہا ہے، اس صورتحال میں بیرون ملک سے پیسے واپس لانے میں اہم بریک تھرو ہوگا،بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے کیلئے حکومتی اداروں میں تعاون ہونا چاہئے، پبلک ہولڈر آفس یا بیوروکریٹ کے کرپشن کے پیسے کو ہر طرح واپس لائیں گے، کاروباری افراد کے معاملہ میں اگر ٹیکس چوری ہو تو اسے اسی طرح نمٹا جائے گا۔
تازہ ترین