غور و فکر کرنیوالے سنجیدہ کالم نویس نے لکھا کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ انہیں مشکل فیصلے کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ مشکل ہو یا آسان، بروقت فیصلے نہ کئے جائیں تو دیر ہو جانے سے وہی لاینحل مسائل بن جاتے ہیں۔ خان میں یہ خوبی ہے کہ وہ فیصلہ کرنے میں غور تو کرتے ہیں مگر دیر نہیں اور اگر غلط ہو جائے تو توجہ دلانے پر غلطی تسلیم کر کے اسے درست کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ یہ کہنا کہ وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں شاید ابھی درست نہ ہو۔ پُرمشقت اور طویل جدوجہد کے باوجود ابھی انہوں نے آدھا رستہ طے کیا ہے، اقتدار اور عروج کا آدھا رستہ، اور ان کے حریف بھی آدھے رستے میں ہیں، فرق یہ ہے کہ ایک نے سطح زمین سے اقتدار کی چوٹی پا لینے کیلئے سفر جاری رکھا اور حریف اس چوٹی پر اپنا مورچہ چھوڑ کر وادی کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ دونوں اقتدار کی پہاڑی کے دامن تک پہنچے ہیں۔ کپتان مارگلہ کے مشرق سے طلوع اور حریف اسی مارگلہ کے مغرب میں غروب ہو رہا ہے۔ قومی سیاست کا ایک دور اختتام کو پہنچ رہا ہے اور دوسرا شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہ پرانا دور جو 85ء کے غیر جماعتی انتخاب سے شروع ہوا۔ اس پر کہولت کا زمانہ ہے۔
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی گزری
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا آیا
2013ء میں نیا سیاسی چیلنج آیا جس نے پرانی سیاست کو للکارا۔ صرف پانچ سال کی مدت میں اسے زیر کر لیا۔ آج نئی سیاسی حقیقتوں کا ظہور ہے اور پرانی تاریخ کا حصہ بننے جارہی ہیں۔
تکلیفوں، مشکلوں اور دقتوں سے اٹا ہوا رستہ بائیس برسوں میں طے ہوا۔ اقتدار کی چوٹی پر قابض مشاق سیاستدانوں نے راہ روکنے کی مقدور بھر کوشش کی بالآخر وہ چوٹی پر بنا مضبوط مورچہ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ آدھا رستہ ابھی باقی ہے مگر پہلے کی طرح خطرناک اور پُرمشقت نہیں۔ اب حریفوں سے مقابلہ کم اور مسائل سے نبردآزمائی زیادہ ہے۔
پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کو ملنے والی حکومت کی نوعیت 2013ء، خیبر پختونخوا میں ملنے والے اقتدار سے مختلف نہیں مگر قدرے آسان ہے۔ تب پختونخوا میں تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی تو تھی لیکن ایوان میں اسے اکثریت حاصل نہیں تھی چنانچہ بعض دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا پڑی۔ اس میں ایک جماعت کے مطالبات اور دوسری کا بوجھ زیادہ تھا۔ مرکزی حکومت نے مقدور بھر رکاوٹ ڈالی۔ پنجاب حکومت نے پراپیگنڈہ کا طوفان اٹھائے رکھا مگر عمران خان کی رہنمائی اور پرویز خٹک کی قیادت میں یہ حکومت دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی۔ عمران خان کی خوبی ہے کہ وہ فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں نہ اقتدار کے حصول یا جاری رکھنے کیلئے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہیں۔ صوبے میں مشکلات کے باوجود انہوں نے بیس ممبران اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا جنہوں نے سینیٹ انتخابات کے دوران پارٹی پالیسی سے انحراف کیا تھا۔ یوں حکومت کو دائو پر لگا دیا لیکن منہ زور اور بدعنوان عناصر سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس دلیرانہ فیصلے کے صلے میں صوبے کے عوام نے 2018ء کے انتخاب میں دوتہائی اکثریت دلا دی۔ بڑے بڑے برج یوں الٹے کہ ان کے دوبارہ قدموں پر کھڑا ہونے کا امکان باقی نہ رہا۔
نئے انتخابات میں کپتان کیلئے پنجاب اور مرکز میں 2013ء کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور مرکز میں وہ بڑی پارٹی ہیں لیکن انہیں واضح اکثریت حاصل نہیں۔ چنانچہ بعض چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر حکومتیں بنائی گئی ہیں۔ مخلوط حکومت میں حکمران آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتا۔ اسے بہت سے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں لیکن خیبر پختونخوا کے تجربے سے دونوں نے کچھ سیکھا ہو گا یعنی عمران خان اور ان کے حریفوں نے، کپتان جانتے ہیں کہ قومی مفاد میں انہیں فیصلے کرنا ہیں اور حلیفوں کو خبر ہوگئی کہ اس نئے حکمران کو زیادہ دبایا نہیں جاسکتا۔ رہ گئی حزب اختلاف وہ ’’سابق کی طرح فرینڈلی نہیں مگر نااہل ضرور دکھائی دیتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے کثیر تعداد کے باوجود اسے کمزور اپوزیشن قراردیا۔
تحریک انصاف کی حکمرانی کا آج چوبیسواں دن ہے۔ نئی حکومت کے سربراہ نے ساڑھے تین ہفتوں کی قلیل مدت میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ ’’نئے ہیں مگر اناڑی نہیں‘‘۔ برسوں کے رکے کام دنوں میں نمٹائے جارہے ہیں۔ طویل مشاورت بھی جاری ہے اور مشوروں کے بعد فیصلے نافذ ہو رہے ہیں۔ وزارت خارجہ، امور داخلہ، وزارت خزانہ میں طویل بریفنگ لی گئی ہیں۔ ملکی حفاظت اور دفاع کے مسئلے پر وزیر اعظم نے جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے مباحث میں حصہ لیا۔ تینوں مسلح افواج کے مسائل، صلاحیت کو جانچا اور مستقبل کے منصوبہ جات پر گفتگو ہوئی۔ یہ کسی بھی جمہوری حکمران کا دفاعی امور پر طویل ترین مباحثہ ہے۔ ماضی قریب کے جمہوری حکمرانوں میں سیکھنے کی اہلیت، سننے کی تاب نہ سمجھنے کی صلاحیت، تجربہ کار مسلم لیگ کے قائد کی یہ حالت تھی کہ وزارت عظمیٰ کی پہلی بریفنگ جہاں صدر پاکستان غلام اسحاق بھی موجود تھے اور سپہ سالار اسلم بیگ مختلف سلائیڈ اور نقشوں کی مدد سے بریفنگ دے رہے تھے تو صرف آدھ گھنٹہ بعد وزیر اعظم جانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ طاقتور صدر کے گھورنے پر بیٹھ گئے لیکن چند منٹ میں پیمانہ صبر چھلک پڑا۔ حفظ مراتب کا خیال، پروٹوکول کی خبر نہ موضوع کی سنجیدگی کا احساس، بڑی لجاجت سے اجازت کے خواستگار ہوئے۔ جی ایج کیو سے نکل کر سیدھے مری پہنچے جہاں ان کی تواضع کیلئے شب دیگ کا انتظام کیا گیا تھا۔ موصوف کیلئے ’’شب دیگ کا لقمہ تر‘‘ پاکستان کی سیکورٹی جاننے سے کہیں اہم تھا۔ تین مرتبہ وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ اپنی روش بدل نہیں پائے۔ دوسرے موقع پر جرنیلوں سے کہا یہ آپ کے مسائل ہیں آپ بہتر سمجھتے ہیں جو چاہے کیجئے۔ کارگل کا مسئلہ اسی غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے تھا جس کے نتیجے میں موصوف کو طویل جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔
پچھلے پانچ برس تینوں بڑی جماعتوں کے لئے موقع تھا کہ وہ اچھی حکمرانی اور اعلیٰ کارکردگی میں مقابلہ کرکے آئندہ کیلئے حق حکمرانی حاصل کرتیں۔ پیپلز پارٹی کا ذکر کیا جو ہے سو ہے مگر چالیس ارب روپے خرچ کرکے اپنی اعلیٰ کارکردگی اور ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کا ڈھول پیٹنے والے پختونخوا کی چھوٹی سی خاموش حکومت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔ اب حکومتوں کے تقابل یا موازنے کیلئے پیپلز پارٹی میدان میں رہ گئی ہے مسلم لیگ کے پاس کوئی موقع نہیں۔ اس کی سابق دس سالہ پنجاب اور پانچ سالہ مرکزی حکومت کی کارکردگی کو عمران خان کی موجودہ حکمرانی کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے گا۔ اب چالیس ارب روپے کا مال مفت بھی دستیاب نہیں جسے دل بے رحم پراپیگنڈے کیلئے خرچ کرسکے۔ نئی حکومت کی چوبیس روزہ کارکردگی ’’بلانقد خریدی تشہیر‘‘ کے پانچ برس پر بھاری نظر آتی ہے۔
حریفوں کے طریقے اور پختونخوا کے تجربے کو سامنے رکھیں تو مستقبل کی پیش گوئی میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی دونوں جماعتیں شور، ہنگامہ اور سیاہ پٹیاں باندھنے کے باوجود نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حالیہ الیکشن ماضی کے ہر انتخاب کے مقابلے میں زیادہ شفاف تھے۔ نئے انتخاب میں وہ بھی گنوا بیٹھیں گے جو ان کے ہاتھ میں ہے۔ اپوزیشن کی قیادت یہ مطالبہ کرنے سے اس لئے بھی گریزاں ہے کہ اس پر زور دینے سے ان کے اسمبلی ممبران کے بھاگ نکلنے کا اندیشہ ہے۔ ان کا ہر اچھا امیدوار تحریک انصاف کی طرف سے آئندہ انتخاب میں ٹکٹ کے وعدے پر پارٹی بدلنے کو تیار ہو جائے گا۔ عمران خان اور اس کی تحریک انصاف مقبولیت اور عروج کا آدھا رستہ طے کرچکی ہے باقی آدھا آئندہ انتخاب میں طے ہو جائے گا۔ وہ انتخاب وسط مدتی ہو یا مدت پوری ہونے پر، حریفوں کی رفتار سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں۔ جس طرح ایک مدت کے اختتام پر دو تہائی اکثریت صوبے میں حاصل ہوئی اسی طرح اب پنجاب اور مرکز میں ہوگی۔ پیپلز پارٹی کا انجام پنجاب میں مسلم لیگ کے انجام سے مختلف نہیں ہوگا۔
نئے انتخاب میں اپنے عروج پر عمران خان طیب اردوان کی طرح صدارتی طرز حکومت کا ڈول ڈال سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)