ایک طرف الیکشن میں ہمارے ملک کے مخصوص علاقوں میں خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق ملا، وہیں ایسی بلند ہمت اور ذہانت سےبھرپور خواتین بھی ہیں، جو جہاں بھی جائیںاپنی صلاحیتوں سے سب کو مات دے دیتی ہیں اور وطنِ عزیز کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے لاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ستارہ مہرین فاروقی ہیں، جو آسٹریلیا میں جگمگا رہاہے ۔
مہرین فاروقی1992ء میں پاکستان سے آسٹریلیا منتقل ہوئیں اور بطور استاد اور انجینئر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ مہرین فاروقی نے طوفانی پانی، ری سائیکلنگ، سائیکل ویز اور ہائیڈرو پاور انفرا اسٹرکچر سمیت انجینئرنگ کے مختلف پراجیکٹس میں حصہ لیا۔ انہوں نے نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز سے ماحولیاتی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کیا۔
پاکستان میں پلی بڑھی مہرین کے شاید خواب میں بھی نہیں تھا کہ وہ2004ء میں گرینز پارٹی میںشمولیت اختیار کریں گی اور 2013ء میں نیو ساؤتھ ویلز پارلیمنٹ کی رکن بن جائیں گی۔ اس وقت مہرین پورٹ مکواری میں رہتی تھیں اور پناہ گزینوں کی مدد کرنا اور ملٹی کلچرازم کو فروغ دینا ان کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ ایک سول انجینئرکی حیثیت سے بھی انہوں نے ماحولیات اور اس میں بہتری کےلیے گرینز پارٹی کے ایجنڈے پر خوب کام کیا اور اسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں لوگوں کے بہت سے مسائل پیش کیے۔
مہرین کےپاس ماحولیات، ٹرانسپورٹ، جانوروں کی فلاح وبہبود، ڈرگز سے بچاؤ، نوجوان نسل، ملٹی کلچرازم جیسے پورٹفولیو تھے، جس کیلئے مہرین نے سب کے ساتھ مل کر کام کیا اور ان کی کوشش یہی رہی کہ’ کمیونٹی کی آواز کو پارلیمنٹ میں لائیں‘ اور سڑکوں اور پارکس میں لوگوں کے ساتھ ملکر کام کریں۔ ان کا ایک مشن یہ بھی تھا کہ اپنے جیسی عورتوں، مائیگرنٹ خواتین اور وومن آف کلر کی آواز کو بلند کریں تاکہ ان کی آواز پولیٹیکل سسٹم کا حصہ بنے۔
مہرین کا کہنا ہے کہ1992ءکے مقابلے میں آسٹریلیا اب بہت بدل چکا ہے ۔ پہلے نوکری ڈھونڈنے اور گھر کیلئے مائیگرنٹس کی کافی مدد ہوتی تھی لیکن26سال میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ اب اکثر لبرل پارٹی اور قومی پارٹی کی حکومت مائیگرنٹس کی امداد کو کم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں سٹیزن شپ کے مسائل ہیں، اس کے علاوہ انگریزی کے نئے اور نہایت ہی مشکل ٹیسٹ کو متعارف کرانے کی کوششیں شامل ہیں۔
دوسری جانب گھروں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن تنخواہوںمیں اس لحاظ سے اضافہ نہیں ہورہا۔ میرے دو جوان بچے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ہم تو گھر خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ ہائیر ایجوکیشن، جو آسٹریلیا میں ایک زمانے میں مفت ہوتی تھی، اس کی فیس ہر سال بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تعلیم ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے اور ہر انسان کا حق ہونا چاہیے، چاہے وہ پری اسکول ہو، اسکول ہویا ہایئر ایجوکیشن۔ جو چیزیں بدل گئی ہیں، ہمیں ان کو واپس لانا ہے۔
مہرین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ لوگوں کے تصور میں پہلے ہی سے ایک خاکہ بنا ہوتا ہے کہ ایک آسٹریلین یا ایک پاکستانی مسلمان عورت کیسی ہونی چاہیے اور اگر آپ اس معیار پر پورا نہیں اترتے تو پھر کہا جاتا ہے کہ گھر بیٹھو۔ کئی لوگوں کے ذہنوں میں ایک اسٹیریوٹائپ امیج ہے کہ ایک مسلمان عورت کو کیسا ہونا چاہیے، اس کی اپنی کوئی صلاحیت نہیں اور اس کو بس اپنے شوہرکا کہنا ماننا ہے۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو بہت مختلف عورت ہے، جیساکہ بہت سی مسلمان عورتیں ایسی ہیں۔ گرینز پارٹی میں شامل ہی برابری کے حقوق حاصل کرنے کیلئے ہوئی تھی، چاہے وہ خواتین کے حقوق ہوں یا کمیونٹی کے۔
مہرین ہر قسم کے مسائل پر کام کر رہی ہیں۔ مائیگریشن اور تعلیم جیسی دیگر ایسی چیزیں ہیں، جن کا اسٹیٹ لیول پر حل ممکن نہیں لیکن اب وہ ان پر وفاقی سطح پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور چونکہ وہ پورے اسٹیٹ کی نمائندگی کرتی ہیں، اس لئے ان کیلئے ہر کمیونٹی اہم ہے۔ سینیٹربننے کے بعد مہرین نے آسٹریلوی پارلیمنٹ میں جو چشم کشا تقریر کی اس سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک مضبوط لہجے اور اعصاب کی مالک ہیں، جنہیں سیاست کی خاردار راہوں پر بخوبی چلنا آتاہے۔ آج بھی ان کے الفاظ آسٹریلوی پارلیمنٹ میں گونجتے ہیں۔
’’سچ تو یہ ہے کہ میرا یہاں سینیٹ میں ہونا کئی لوگوں کیلئے تکلیف کا باعث ہے،یہ لوگ دوسرے رنگ اور مسلمانوں کو دیکھ کر منہ بناتے ہیں، اس قسم کا امتیاز ان کو زیب نہیںدیتا، حالانکہ ہم بھی نہ صرف اپنا وجود رکھتے ہیں بلکہ اپنے لب کھولنے او ر عوامی دلائل میں اپنی آواز ملا سکتے ہیں۔ کئی سیاست دان ہمیں کاکروچ کہتے ہیں، کئی بیماری کہتے ہیں، جس کیلئے آسٹریلیا کو ویکسین کی ضرورت ہے۔ کچھ کا بس چلے تو آسٹریلیا کو اپنا گھر بنانے کے حوالے سے ہم پر پابندی لگا دیں۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میںآپ کے سامنے کھڑی ہوں، بنا کسی شرمندگی کے۔ ایک برائون ، مسلمان، مہاجر ، حقوقِ نسواں کی علمبردار ا ور ایک گرینز سینیٹر!
’’ہمیں سفید فاموں پر حکمرانی کرنے کا موقع ملنا چاہئے لیکن کبھی نہیں ملے گا۔ ہمارے پاس غلطیوںکی گنجائش نہیں ہے۔ ہلکی سی لغزش کی بھی نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ہم روایتی طور پر ایک کیس اسٹڈی بن جائیں گے۔ ہمیں انفرادیت کے مزے بھی حاصل نہیں، کیونکہ ہمیں کلی طور پر ایک بھاری بوجھ سمجھا جاتاہے جیسے کوئی کوہ گراں۔ بہت سے لوگوں کو یہ سچائیاںمضطرب کردیتی ہیں ۔ کبھی کبھی یہ ناقابل فہم لگتاہےکہ آسٹریلیا میں نسل پرستی کی موجودگی سے انکا رکیا جائے۔ اس کے بارے میں اس لیےبات نہیں کی جاتی کہ کہیں عوام میں بے چینی نہ پھیل جائے۔ لیکن یہی خاموشی نسل پرستی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ ہم ایک ایسا ملک کبھی نہیںبن سکتے جو تمام آسٹریلوی باشندوں کیلئے ایک کمیونٹی ہو جیسے کہ سوڈانیوں کے ساتھ فٹبال کی طرح سلوک کیاجاتاہے۔ ہمیں بہتری کیلئے بہت کام کرنا ہے او ر اس میں برسوںکی خاموش آوازوں کو بھی شامل ہو نا چاہئے۔ میرا یہاں موجو د ہونا ان چند لوگوںکیلئے ایک آغاز ہے نہ کہ اختتام۔ میں اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہوں کہ ہر قد م پر نسل پرستی اور صنف پرستی کے خلاف کام کروں گی۔ ہم میںاتنی جرأت تو ہونی چاہئے کہ اس نسل پرستی کوتسلیم کریں جہاں کہیں بھی اس کا وجودہو۔ ان سب کیلئے جو مجھے کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک واپس دفع ہوجائوں، میں کہنا چاہتی ہوں کہ معذرت ، مگر افسوس نہیں ، یہ میر ا گھر ہے اور میں یہاں سے کہیں جانے والی نہیں۔‘‘
آسٹریلیا میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کویئ پاکستانی نژاد خاتون پارلیمنٹ کا حصہ بنی ہیں مگر اس سے قبل پاکستان خواتین برطانوی پارلیمنٹ کا بھی حصہ بنتی رہی ہیں۔2017ء کے برطانوی عام انتخابات میں بارہ پاکستانی نژاد برطانوی امیدوار پارلیمان کے رکن بننے میں کامیاب ہو ئے تھے، جن میں پانچ خواتین بھی شامل تھیں۔ برمنگھم لیڈی وڈ سے لیبر پارٹی کی شبانہ محمود ایک بار پھر کامیاب ہوئی ہیں۔لیبر پارٹی کی یاسمین قریشی بولٹن ساوتھ ایسٹ جب کہ لیبر پارٹی کی ڈاکٹر روزینہ ایلن خان ٹوٹنگ لندن سے دوبارہ رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔جبکہ 2010ء میں منتخب ہونے والی خواتین میں برمنگھم سے تعلق رکھنے والی بیرسٹر شبانہ محمود، مشرقی بولٹن کی یاسمین قریشی اور لندن کے علاقے بیتھنل گرین کی روشن آراء علی شامل تھیںاور ان تینوں خواتین نے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
دوسرے ممالک میں پاکستان نژاد خواتین کا سیاسی کردار اس بات کا غماذ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پسندی کو اہمیت دی جاتی ہے۔