سمندر اور جہاز رانی، لازم و ملزوم ہیں۔ تجارت اور معاشی وسائل کی تلاش کے لیے انسان عرصہ دراز سے سمندروں اور دریائوں پر انحصار کرتا آیا ہے۔ آج کی جدید دنیا میں سمندری راستوں سے ہونے والی تجارت کا حجم روز بہ روز بڑھ رہا ہے۔ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ نوّے فی صد عالمی تجارت سمندر کے ذریعے ہی ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے سمندری راستوں کو محفوظ بنانے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ محفوظ سمندری راستے ہی مضبوط معیشت کے ضامن ہیں، جن کے لیے مضبوط جنگی بحری بیڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان سے کہیں زیادہ بین الاقوامی برادری کا تعاون اہم ہے کہ کوئی ملک تنہا سمندری راستوں کو محفوظ نہیں بنا سکتا۔ عالمی قوانین کے تحت تمام بحری جہازوں کو بے ضرر راستوں سے گزرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم یہ جہاز کسی ملک کی علاقائی سمندری حدود سے اسی وقت گزر سکتے ہیں کہ جب وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں، جس سے متعلقہ ساحلی ملک کے امن اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔ اس وقت پوری دنیا میں تقریباً نوّے ہزار تجارتی بحری جہاز سمندروں میں نقل و حرکت کر رہے ہیں۔ مالیت کے اعتبار سے دنیا کی تجارت کا ستر فی صد، ان ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ ان تجارتی بحری جہازوں پر عملے کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے، جن کا تعلق دنیا کے150ملکوں سے ہے۔ عالمی سطح پر جہاز رانی سے متعلق تمام سرگرمیاں انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے ذریعے ریگولیٹ کی جاتی ہیں، جو اقوامِ متحدہ کا اہم ذیلی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ سیفٹی، سیکوریٹی اور ماحولیات سے متعلق اہم معیارات وضع اور نافذ کرتا ہے۔ تمام رکن ممالک ان پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ادارہ اس سال اپنے قیام کی سترویں سال گرہ منا رہا ہے۔ اس ادارے کے تحت ہر سال ستمبر کی آخری جمعرات کو ’’ورلڈ میری ٹائم ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد سمندروں کی اہمیت اور سمندری وسائل کے بھرپور استعمال سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اس سال یہ دن27ستمبر کو منایا جائے گا، تاہم رُکن ممالک کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ یہ دن کسی اور تاریخ کو بھی منا سکتے ہیں۔ یہ دن مختلف تھیمز کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال کا تھیم ’’ہمارا وَرثہ… بہتر جہازرانی، بہتر مستقبل کے لیے‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ دن پہلی بار1978ء میں منایا گیا تھا۔ بہتر جہازرانی کا مطلب یہ ہے کہ بندرگاہوں پر سامان اتارنے، چڑھانے کی تمام جدید سہولتیں موجود ہوں، انسانی وسائل کی جگہ زیادہ سے زیادہ مشینی وسائل استعمال کیے جائیں، استعمال کنندگان اور بندرگاہ انتظامیہ کے درمیان مؤثر رابطہ ہو۔ مناسب ٹرانسپورٹ دست یاب ہو۔ بندرگاہ پر سامان کی حفاظت کا معقول انتظام ہو۔ کرین آپریٹرز اور دیگر عملہ تربیت یافتہ اور اپنے کام میں مہارت رکھتا ہو۔ یہ تمام عوامل یک جا ہو کر بہتر جہاز رانی کا ماحول تشکیل دیتے ہیں۔
سمندری محلِ وقوع کے لحاظ سے پاکستان کو دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے، لیکن جہاز رانی کے ضمن میں پاکستان کا کردار نہ ہونے جیسا ہے۔ کسی زمانے میں کئی نجی جہاز راں کمپنیاں تھیں، لیکن آج ایک بھی نہیں ہے۔ سرکاری شعبے میں صرف پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ہے، جو کبھی دو سو سے زائد بحری جہازوں کی مالک تھی، لیکن اب اس کے پاس مختلف قسم کے صرف نو جہاز رہ گئے ہیں۔ پاکستان شپنگ ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر، عاصم اے صدیقی بتاتے ہیں ’’اس صورتِ حال میں پاکستان سے برآمدی سامان لے جانے اور درآمدی سامان لانے کا85فی صد بزنس غیرملکی جہاز راں کمپنیوں کے پاس ہے، یہ غیرملکی کمپنیاں سالانہ ڈھائی ارب ڈالر صرف فریٹ چارجز کی مد میں وصول کر کے بیرونِ ملک بھیجتی ہیں، جب کہ پی این ایس سی کا کارگو بزنس صرف خام تیل کے درآمدی کنسائمنٹس تک محدود ہے، جو مارکیٹ شیئر کا صرف پندرہ فی صد بنتا ہے۔‘‘ عاصم صدیقی مزید کہتے ہیں ’’شپنگ انڈسٹری میں اس وقت وسیع سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پائیدار سرمایہ کاری کے ذریعے نہ صرف حکومتی ریونیو میں نمایاں اضافہ ہو گا، بلکہ روزگار کے وسیع مواقع بھی نکلیں گے، جہاز رانی کے شعبے میں خدمات انجام دینے والی افرادی قوّت کی منظّم تربیت کے لیے بین الاقوامی معیار کے تربیتی ادارے بھی قائم کیے جانے چاہئیں۔ اس وقت ہمیں ایک مربوط اور جامع شپنگ پالیسی کی ضرورت ہے جو طویل المیعاد ہو، اگر حکومت ایسی مؤثر پالیسی تشکیل دینے اور سرمایہ کاروں کو اس شعبے کی جانب راغب کرنے میں کام یاب ہو جائے، تو جہازرانی کا شعبہ پاکستان میں اربوں ڈالرز کی حامل سرمایہ کاری کا شعبہ بن کر ابھرے گا۔‘‘ ان کی تجویز ہے کہ ’’نجی شعبے کو جہاز رانی کی صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات اور مراعات دی جائیں، تو ملک سے باہر جانے والے ڈھائی ارب ڈالرز سالانہ کے قیمتی زرمبادلہ میں50فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے کہ اس وقت ایک بحری جہاز چارٹر کرنے کا یومیہ کرایہ تیس سے پچاس ہزار ڈالر ہے۔‘‘
جہاز رانی کی صنعت میں بے پناہ منافع حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن پاکستانی سرمایہ کار نامعلوم اسباب کی بناء پر اس شعبے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے ہیں۔ دبئی میں250سے زائد پاکستانیوں کی رئیل اسٹیٹ میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے۔ اگر اس کا صرف پچیس فی صد حصّہ، جہاز رانی کی صنعت میں لگا دیا جائے، تو اس سے حاصل شدہ منافع، رئیل اسٹیٹ کے منافع سے دوگنا ،بلکہ تین گنا تک ہو سکتا ہے۔ دنیابھر میں تجارتی جہاز رانی کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ خشکی میں گھرا ہوا ملک بھی بحری راستوں تک رسائی چاہتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر درآمد و برآمد بحری جہازوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ تجارتی بحری جہازوں کی مثال جسم میں دوڑتے خون کی مانند ہے۔ یہ دنیا کے مختلف ملکوں سے مال، جسے اصطلاحاً کارگو کہتے ہیں، اٹھاتے اور دوسرے ملکوں تک پہنچاتے ہیں۔ سب سے اہم کارگو خام تیل ہے جس کے لیے مخصوص تیل بردار بحری جہاز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ جہاز رانی کی صنعت چند نقصانات کا سبب بھی بن رہی ہے۔ پہلا نقصان ماحول کی آلودگی کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ جہاز رانی کی صنعت میں دنیا میں استعمال ہونے والے کل ایندھن کا صرف سات فی صد استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ دنیا کا نوے فی صد سلفر پیدا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس صنعت کو گرین ہائوس گیس کا سب سے بڑا دشمن تصوّر کیا جاتا ہے۔ ان نقصانات کے پیش ِنظر جہاز رانی کی صنعت میں روایتی ایندھن کی جگہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ نئے ماحولیاتی قوانین کا نفاذ کیا جا رہا ہے، توقّع ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران اس بڑے نقصان کے اثرات کو محدود سے محدود تر کیا جا سکے گا۔
جہاز رانی کی صنعت کو منافع بخش ہونے کے باوجود کچھ مسائل بھی درپیش ہیں۔ پہلا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ تربیت یافتہ افرادی قوّت میں دن بہ دن کمی آتی جا رہی ہے۔ یہ کمی زیادہ اور پُرکشش معاوضے کے ذریعے پوری کرنے کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، جہاز راں کمپنیاں فریٹ چارجز بڑھا دیتی ہیں، جس کے اثرات پوری دنیا میں مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پاکستان کو یہ بہترین موقع حاصل ہے کہ وہ دنیابھر کی جہاز راں کمپنیوں کو تربیت یافتہ افرادی قوّت فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان میں فی الوقت ایک تربیتی ادارہ پاکستان میرین اکیڈمی کام کر رہا ہے، جو کراچی میں ہے۔ پاکستان میرین اکیڈمی1962ء میں سابق مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ (جسے چاٹگام بھی کہا جاتا ہے) میں قائم کی گئی تھی، اس کا قیام جنوب ایشیائی خطّے کے ممالک کی سماجی اور معاشی ترقّی کے لیے بنائے گئے کولمبو پلان کے تحت عمل میں آیا تھا۔ پاکستان میں مرچنٹ نیوی کے افسران کی تربیت کے لیے قائم ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ واحد ادارہ تھا، پاک بحریہ نے اس ادارے کے قیام اور انتظام میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اکیڈمی کے پہلے بیج کے41کیڈٹس کو ناٹیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں تربیت دی گئی۔ مشرقی پاکستان میں یہ اکیڈمی قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں زیادہ نقل و حرکت، آبی راستوں کے ذریعے ہوتی تھی اور وہاں آبی ٹرانسپورٹ کے طور پر بڑے اسٹیمر اور چھوٹے چھوٹے جہاز چلتے تھے۔ اس اکیڈمی نے نہ صرف اس آبی ٹرانسپورٹ کے لیے تربیت یافتہ عملہ فراہم کیا بلکہ اس کے کیڈٹس کو بین الاقوامی جہاز راں کمپنیوں کو اپنی خدمات فراہم کرنے کے مواقع بھی دست یاب ہوئے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اس اکیڈمی کو عارضی طور پر کراچی میں مولوی تمیزالدین خان روڈ پر واقع، حاجی کیمپ کے دو بلاکس میں منتقل کر دیا گیا۔ 1976ء میں ہاکس بے روڈ، ماری پور پر باقاعدہ طور پر پاکستان میرین اکیڈمی کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، 1986ء میں جامعہ کراچی سے الحاق ہونے کے بعد، یہ اکیڈمی سند تفویض کرنے کی مجاز ہو گئی۔ یہ اکیڈمی136ایکڑ رقبے پر قائم ہے۔
پاکستان میرین اکیڈمی کے تین سال تک کمانڈنٹ رہنے والے کموڈور اکبر نقی نے جن کا حال ہی میں بحریہ فائونڈیشن میں ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر تبادلہ ہوا ہے، اکیڈمی کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اکیڈمی میں تربیت کے دو حصّے ہیں، ایک ناٹیکل، جس میں بحری جہاز کے آپریشن کمانڈ اور کیپٹن شپ کی تربیت ہوتی ہے۔ دوسرا حصّہ انجینئرنگ کا ہے، جس میں کیڈٹس کو جہاز کے انجن اور اس سے متعلقہ کاموں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہر پروگرام دو سال پر محیط ہوتا ہے، لیکن حال ہی میں ہائر ایجوکیشن اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے اشتراک سے چار سال کا پروگرام بنایا گیا ہے جس کی انجینئرنگ کونسل سے منظوری مل گئی ہے۔‘‘ مرچنٹ نیوی کیڈٹس کی ملازمتوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’اکیڈمی کی اسناد دنیابھر میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ اکیڈمی سے پاس آئوٹ کرنے کے لیے انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کی متعیّن کردہ تمام ایس او پیز (کام کرنے کا معیاری طریقۂ کار) پاس کرنا لازم ہے۔ کیڈٹس کے لیے ملازمتوں کے مواقع پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم، گوادر پورٹ کے علاوہ دنیا کی اہم ترین شپنگ لائنز میں ہمارے تربیت یافتہ کیڈٹس کام کر رہے ہیں۔ گوادر پورٹ آپریشنل ہونے اور سی پیک مکمل ہونے کے بعد یہ مواقع مزید بڑھیں گے۔‘‘
جہاز رانی کے شعبے کی وسعت کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ جہاز رانی کے مختلف شعبوں سے متعلق مزید تربیتی ادارے قائم کیے جائیں، کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے ایک میرین اکیڈمی کافی نہیں ہے۔ بحری جہاز مختلف اقسام کے ہوتے ہیں مثلاً آئل ٹینکرز، کارگو شپ، بلک کارگو شپ، مسافر بردار، کنٹینر بردار وغیرہ، کوئی ایک ادارہ ان تمام اقسام کے جہازوں کے لیے ہمہ گیر تربیت نہیں دے سکتا۔ اس مقصد کے لیے جدا جدا تربیتی ادارے ہونے چاہئیں۔ دوسرا مسئلہ گنجائش کا ہے، ایک تربیتی ادارے میں محدود پیمانے ہی پر تربیتی پروگرامز ہو سکتے ہیں۔ موجودہ میرین اکیڈمی میں پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے کیڈٹس تربیت حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم یوتھ اسکیم کے تحت سالانہ پچاس کیڈٹس کو بلامعاوضہ تربیت بھی دی جا رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اکیڈمی میں استعداد سے کہیں زیادہ تربیتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ایسے تربیتی پروگرام جہاں عملی مشقیں کروائی جاتی ہوں، ایک حد سے زیادہ طلبہ کی موجودگی، رکاوٹ اور خامیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ جہاز رانی کی تربیت کے کچھ ادارے بلوچستان کے ساحلی شہروں میں بھی قائم کیے جانے چاہئیں، خصوصاً گوادر میں۔ دنیا کا ہر شہر اپنی کچھ نہ کچھ مصنوعات کے حوالے سے مخصوص شناخت رکھتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی شہر صرف ماہی گیری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں، بہترین جہاز رانی سے نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا بھر کی شپنگ لائنز میں پاکستانی نوجوان موجود ہوں اور پاکستان کی شناخت بہترین جہاز رانوں کے طور پر ہو، جس طرح کرکٹ، ہاکی اور اسکواش کے کھلاڑی ایک زمانے میں پاکستان کی پہچان تھے۔
پاکستان نے اپنی آخری میری ٹائم پالیسی2002ء میں تشکیل دی تھی، جس کے حقیقی مقاصد سولہ سال میں بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ ہمارے منصوبہ سازوں کی اہلیت کا عالم یہ ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے توسیعی منصوبے کے تحت قائم کیا جانے والا کنٹینر ٹرمینل ریل اور روڈ سے منسلک نہیں ہے، جب کہ زمینی راستے کسی بھی بندرگاہ کی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بحری جہاز سے ان لوڈ کیے جانے والے بلک، کارگو کو دوسرے زمینی مقام تک منتقل کرنے کے لیے ہزار، بارہ سو سے زائد ٹرکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ شپنگ ایسوسی ایشن کے صدر عاصم صدیقی بتاتے ہیں ’’کنٹینر ٹرمینل تعمیر کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ یہاں زیادہ گنجائش رکھنے والے بڑے بحری جہاز لنگرانداز ہوں گے، فی الوقت کراچی آنے والے بڑے بحری جہاز، دبئی پورٹ پر کارگو اتارتے ہیں اور پھر اسے چھوٹے ڈرافٹ والے بحری جہازوں میں دوبارہ لوڈ کیا جاتا ہے، جس سے آپریشنل کاسٹ بڑھ جاتی ہے۔ اس ٹرمینل سے زمینی راستہ منسلک نہ ہونے سے درآمد کنندگان کراچی پورٹ ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں جہاز رانی کی ترقی میں کچھ قوانین بھی رکاوٹ ہیں۔ بہتر یہ ہو گا کہ ایسے تمام فرسودہ قوانین کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ان سے پیچھا چھڑوایا جائے اور موجودہ تقاضوں کے مطابق میری ٹائم پالیسی تیار کی جائے۔ بہتر معاشی مستقبل کے لیے جہاں دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہاں اس اہم معاملے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔