آج کے د ن، 21ستمبر 1894ء کو قومی مصور،مصورِ مشرق اور شارحِ غالب واقبال عبد الرحمٰن چغتائی لاہور میں پیدا ہوئے۔ مصور معاشرے کے دیگر کرداروں کے برعکس زیادہ حساس ہوتا ہے۔ فطری حسن اسے متاثر کرتا ہے۔ اُسے بارشوں میں سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ بانسری کی دُھن پکارتی ہے، ندی کچھ کہتی ہے۔ یہی بے چینی خودشناسی کی جوت جگاتی اور انجان راہوں پر لے جاتی ہے۔ایسا ہی سحر ہمیںچغتائی کی مصوری میں ملتا ہے۔ انہوں نےاپنے شہ پاروں میں عورت کی دلکشی، کردار اور وقار کو امر کردیا، جو ہمیں دیوانِ غالب کے مصور ایڈیشن میں دکھائی دیتا ہے۔
حالات زندگی
پاکستان کے ممتاز ترین مصور عبد الرحمٰن چغتائی نے مصوری کی تعلیم لاہور اور بیرون ملک سے حاصل کی۔ انہوں نے بدھ، ہندو، اسلام، مغل اور پنجاب کے موضوعات پر تصاویر بنائیں۔ چغتائی نے رنگوں میں شاعری کی۔ ان کی تصویریں دنیا کی ممتاز آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔ اقبال، پکاسو اور ملکہ ایلزبتھ دوم جیسی شخصیات بھی ان کے فن کی معترف تھیں۔ برطانوی راج میں انہیں خان بہادر کے لقب سے نوازا گیا۔ 1924ء میں ویمبلے شو میں تقریباً 25 ملین افراد نے آپ کے فن پارے دیکھے۔ آپ کے مشہور ترین کاموں میں پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن اور ریڈیو چینل کے لیےلوگو تیار کرنا بھی شامل ہے۔ انہوں نے کئی ڈاک ٹکٹوں کے لیے بھی مصوری کی۔ آپ کو مصور مشرق کا خطاب دیا گیا۔ آپ کو 1960ء میں ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا جبکہ مغربی جرمنی نے آپ کو 1964ء میں طلائی تمغے سے نوازا۔آپ17جنوری 1975ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
خواتین کی عظمت کے مصور
چغتائی کی مصوری میں ہمیں دو روایات کا ملاپ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ایرانی، ترک اور مغل مصوری ہے تو دوسری طرف بنگالی مصوروں کی بنائی ہوئی وہ تصاویر ہیں، جو جدید بھارتی مصوری کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ان کی فنی خوبیوں کا جائزہ لیں تو انہوں نے اپنے فن پاروں میں عورت کو باوقار دکھاتے ہوئے اس کی محبت کو وفا سے عبارت کیا ہے۔’’بلبل کی پکار‘‘ کے نام سے اپنے فن پارے میںچغتائی اس چھوٹے سرخی مائل بھورے خانہ بدوش پرندے بلبل کی آہ بکا کی عکاسی کررہے ہیں، جس میں سکھیاں پیا ملن کی آس میں منتظر ہیں۔ بلبل کو چغتائی نے اپنی کئی تصویروں کا مرکز بنایا ہے۔ یہ خوش الحان پرندہ رات کے وقت مِیٹھے نغموں کے لئے مشہور ہے۔ ایک اور تصویر بعنوان’’سمر روز‘‘یعنی موسمِ گرما کا گلاب میں بھی وہ انتظار کی اسی کیفیت کو آشکار کرتے ہیں، جو دو محبت کرنے والوں کا ازلی مقدر کہلاتا ہے۔ پنکھا جھلتی ہوئی ’’ہیر‘‘ نامی تصویر کو بھلادیا جائے، یہ کیسے ممکن ہے، نہ ہی’’کرشنا اور رادھا‘‘ کے عنوان سے بنائی گئی تصویر فراموش کی جاسکتی ہے، جس میں اعلیٰ معیار کے رنگوں کا انتخاب اسے دیکھتے چلے جانے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک اور معروف تصویر ’’ہیرامن ٹوٹا‘‘ میںرانی پدما وتی کی ہیرامن نامی طوطے سے گفتگو دکھائی گئی ہے۔ باوقار خواتین کے اس تصویری مجموعہ میں آپ کو جمالیات کا حسین آہنگ نظر آئے گا۔ ان کی تصاویر کو بآسانی ڈرائنگ روم کی زینت بنایا جاسکتا ہے۔ چغتائی کے ہاں عورت محبت، پاکیزگی، شرم و لجا اور انتظار کا استعارہ ہے،جیسے ہجر اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہو۔ جب1919ء میں ان کی پہلی تصویر’’بہت دیر ہوچکی‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئی، جس کے بارے میں انہوں نے لکھا:
’’میں نے ایک تصویر بنائی، جو یقیناً تکنیک کی رو سے نامکمل تھی، مگر میرا خیال تھا کہ میری یہ کوشش کامیاب ہے اور مجھے اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ میرے ایک عزیز دوست، جو علامہ اقبال کے بہت قریب تھے، مجھے مجبور کر کے ان کی خدمت میں لے گئے۔ میرے لیے علامہ اقبال کو قریب سے دیکھنے اور ان سے ہم کلام ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ جب میں سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو میں یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ میں تصویر دکھانے جا رہا ہوں بلکہ میرے ذہن میں یہ خیال بڑی شدت سے کروٹیں لے رہا تھاکہ میں شمع و شاعر کے خالق کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ میں نے اپنے علم کی کمی اور مطالعہ کی کم مائیگی کے سبب تصویر کا نام too late رکھ دیا تھا۔ میں نے دبی زبان سے، جیسے میں صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کر سکوں گا، تصویر دکھاتے ہوئے تصویر کا نام لیا تو انہوں نے بے ساختہ یہ شعر پڑھا:
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ِپرِ پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا!
اس تصویر میں سب سے اہم ایک قبر تھی، جس کے سامنے ایک خاتون گوشہ تنہائی میں افسردہ سی نظر آ رہی تھی۔ یہی حال پھول لیے قبر کے پاس کھڑی ماں صفت خاتون کا تھا، جس نے کچھ کھودیا ہو اور کچھ حاصل کرنے کی تلاش میں یہاں تک پہنچی ہے۔ علامہ اقبال نے تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے میری کوشش کو سراہا اور فرمایا کہ جو عورت کھڑی ہے اسے اور زیادہ پریشان نظر آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ افسردہ عورت جو قبر کے پہلو میں بیٹھی ہے، وہ اپنی متاع لٹا چکی ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے پہلی دفعہ ایک ایسے نوجوان سے واسطہ پڑا ہے، جو تصویروں کے ذریعہ اسلامی روایات پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں مجھے کافی وقت دیا، میرے کام میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا ۔