• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغرب کی طرف سے مسلط دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے دُنیا بھر کے ممالک سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، 2017ء تک اس کے 50 ہزار سے زائد شہری، چھ ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہوئے اور 123 بلین ڈالرز کے نقصانات ہوئے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ 32 سے 33 بلین ڈالرز امریکہ نے پاکستان کو دیئے، اس طرح پاکستان کو امریکہ سے 90 ملین ڈالرز کا ہرجانہ ادا کرنے کی بات کرنا چاہئے اور ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی مگر پھر بھی اُس کو تین ٹریلین ڈالرز کا بل دے دینا چاہئے تاکہ امریکہ کامطالبہ کرنےکا سلسلہ رُکے اور یہ بل برقرار رکھنا چاہئے، اس پر ہر سال ملک میں مروجہ شرح سود کے مطابق اضافہ کرتے رہنا چاہئے۔ 2010ء سے 2012ء تک بہت زیادہ شہادتیں ہوئیں 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں انتہائی بزدلانہ حملہ کرکے دہشت گردوں نے 134بچوں جن کی عمریں 10 سے 18 سال تھیں، کو بہیمانہ طریقے سے شہید کیا اور اُن میں سات وہ اساتذہ بھی شامل تھے جوبچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہوئے ، پاکستانی قوم کو جاگنے میں بہت دیر لگتی ہے، اتنی شہادتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ پاکستان آرمی کے جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی، فضائیہ کا اڈہ کامرہ جہاں پاکستان کا وہ طیارہ’ صاب‘ جو پیٹریاٹ جیسا یا اس کا بہتر متبادل تھا، کو نقصان پہنچانے اور نیول بیس جہاز اورین طیارے موجود تھے پر حملے کئے گئے تاکہ پاکستان کو مفلوج کردیا جائے مگر آرمی پبلک اسکول کے حملے کے بعد جہاں بچوں کو چن چن کر اس لئے شہید کیا گیا کہ اُنکا کوئی نہ کوئی رشتہ دار دہشت گردی کے خاتمے میں کردار ادا کررہا تھا، اُس کے بعد پاکستانیوں کو ہوش آیا اور انہوں نے دہشت گردوں کے خاتمے کا عزم کیا، پاکستان 2007ء اور 2009ء میں سوات آپریشن کرچکا تھا اور سوات میں دشمنوں نے جو جال بچھایا تھا اُس کو توڑ دیا تھا، تحریک طالبان پاکستان سے سوات خالی کرایاجا چکا تھے اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے نام سے پاکستان کے خلاف کام کرنے والی دوسری تحریکوں کا بھی آہستہ آہستہ صفایا کردیا گیا اور پاکستان کی ایئرفورس، بحریہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بری فوج نے زبردست پیش قدمی کی، پاکستان کی ایئرفورس دشمنوں کے خفیہ اور محفوظ ٹھکانوں پر حملہ کرکے راستہ بناتی تھی اور بری فوج پھر اُن کے اڈوں پر قبضہ کرلیتی تھی جس میں فوج کے نوجوانوں کی شہادتیں ہوئی تھیں تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنی مسلح افواج کا ساتھ دیا اور دُنیا کی سب سے پیچیدہ جنگ میں کامیابی حاصل کی، پاکستانی فوج دنیا بھر میں پہلی فوج ہے جس نے دہشت گردوں کو کچلا، امریکہ افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکا اور نہ نیٹو کو کامیابی ملی بلکہ اُس کو وہاں شکست کا سامنا ہے، جس کا اگرچہ وہ اعتراف نہیں کررہا اور ملبہ پاکستان پر ڈال رہاہے اور بار بار یہ جملہ دہراتاہے کہ پاکستان نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ افغان طالبان سے لڑ کر کامیابی کا سہرا خود باندھ دے، پاکستان نے امریکہ پر واضح کردیا ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف نہیں لڑ سکتا، افغان طالبان افغانستان کی آبادی کا 43 فیصد ہیں جو سب کے سب پشتون ہیں اور اُن کے رشتہ دار یا پشتون پاکستان میں رہتے ہیں اور پاکستانی ہیں، اُن کے خلاف وہ جنگ نہیں کرسکتا البتہ پاکستان مذاکرات کرا سکتا ہے، چنانچہ پاکستان نے کئی دفعہ مذاکرات کرائےہیں۔ امریکہ نے پاکستان کے خلاف مہم جاری رکھی ہوئی ہے، اس نے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدہ کرلیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد امریکہ اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا کے امن کے لئے شدید خطرے کا باعث ہے، امریکہ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی دے رہا ہے جبکہ بھارت کی تاریخ جنگوں اور قتل و غارت گری و اشتعال انگیزی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کو شہید اور الزام تراشی سے عبارت ہے، 1948ء اور 1965ء کی جنگوں میں پاکستان کی کامیابی کی داستانیں ہیں جبکہ 1971ء میں بھارت نے ساری دُنیا سے مل کر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کردیا۔ 65ء کی جنگ ہوئی اور پاکستانی فضائیہ اور بحریہ، فضائیہ اور سمندر پر حکمرانی کرتی رہی اور بری افواج نے چونڈہ کی جنگ میں بھارت کو ناک چنے چبوا دیئے، ٹینکوں کی یہ جنگ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد سب سے بڑی جنگ تھی، یہاں بھارت اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا، راجپوتانہ اور مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا اور پھر جو لوگ پاکستان آئے وہ پاکستان کی جدوجہد آزادی میں شریک تھے اور جنہوں نے پاکستان کی جنگ اُن علاقوں میں لڑی جہاں انہیں معلوم تھا کہ پاکستان نہیں بنے گا مگر اس کے باوجود ایک اسلامی ملک بنانے اور مسلمانوں کو عظیم بنانے اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے وہ پاکستان آئے، پاکستان میں حکومتی مشینری اور تعلیم کی بھی کمی تھی تعلیم یافتہ لوگوں نے آکر یہ خلاپُر کیا، پاکستان کو کامیابی سے چلایا اور تعلیم کے فروغ میں اپنی خدمات پیش کیں جس کا علم نئی نسل کے نوجوانوں کو نہیں ہے مگر پرانی نسل اس کا برملا اعتراف کرتی تھی، سابق وزیر تعلیم سندھ قاضی محمد اکبر وہ شخص تھے جنہوں نے جی ایم سید کو 1946ء میں ہرایا تھا اور علی گڑھ سے مسلمان طلبااُن کی الیکشن مہم چلانے آئے تھے۔ وہ میرے بزرگ اور دوست تھے انہوں نے مجھ سے ایک دفعہ کہا تھا کہ آپ کے آنے سے ہمیں کئی تکالیف بھی پہنچی ہیں مگر میں اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ سندھ کے مسلمان جو برصغیر میں سب سے زیادہ پسماندہ تھے، انہوں نے آپ کے آنے کے بعد 20 سالوں میں تعلیم کے میدان میںجو جست لگائی ہے وہ ہم دو سو سال میں بھی نہیں لگا سکتے تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ سندھ میں تعلیم عام ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی سندھ کے لوگوں نے بیش بہا کامیابی حاصل کی،پاکستان کی مسلح افواج میں سندھی اور بلوچ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں، اسی وجہ سے یہ فوج مکمل پاکستانی مسلح افواج ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کی اور بیش بہا قربانیاں دیں اور دشمن کی دھمکیوں کے جواب میں صف آرا ہیںاور آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین