اسلام آباد(احمد نورانی)اسحاق ڈار کے لندن فلیٹس پر حکومت ابہام کا شکار ہے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبرکا کہنا ہے کہ کبھی نہیں کہا کہ سابق وزیر خزانہ کی ملکیت میں لند ن یا برطانیہ میں دو فلیٹس ہیں بلکہ ان کے نام پر فلیٹس جس ملک میں ہیں اس کا نام فی الحال نہیں بتایا جاسکتا، تاہم حکومت کے پاس جائداد کی مکمل تفصیلات ہیں۔تفصیلات کے مطابق،پی ٹی آئی حکومت اب خاموشی سے اپنے ان الزامات سے پیچھے ہٹ رہی ہے جو اس نے حال ہی میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف عائد کیے تھے اور کہا گیا تھا کہ ان کی ملکیت میں لندن میں دو فلیٹس ہیں جو کہ ان کے اپنے نام پر ہیں اور وہ انہوں نے پاکستان میں ظاہر نہیں کیے ہیں۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کہا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملکیت میں لندن یا برطانیہ میں دو فلیٹس ہیں ، بلکہ ان کی ملکیت میں دو فلیٹس ہیں جو کہ ان کے نام پر ہیں اور وہ ایسے ملک میں ہیں ، جس کا نام فی الحال کسی سبب کےبتایا نہیں جاسکتا اور سابق وزیر خزانہ کے خلاف جلد ہی نیب میں ایک ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس جائداد کی مکمل تفصیلات ہیں اور اسحاق ڈار بھی جانتے ہیں کہ میں کن فلیٹوں کی بات کررہا ہوں ۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے ہی متعلقہ ملک کو اسحاق ڈار کے ملکیتی فلیٹس کی تفصیلات کے لیے لکھ چکی ہے۔تاہم، ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ 5اکتوبر،2018کو حکومت نے براہ راست پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس کی تحقیقات کے نتیجے میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اسحاق ڈار کی ملکیت میں لندن میں دو فلیٹس ہیں جو ان کے اپنے نام پر ہیں۔دی نیوز نے جب اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار سے متحدہ عرب امارات میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی ملکیت میں دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی فلیٹ نہیں ہے۔انہوں نے جے بی آر اور یو اے ای میں 2003-2004میں دو فلیٹس بک کرائے تھے ، جب کہ وہ یو اے ای میں فنانس ایڈوائزر تھے اور وہ اس وقت براق ہولڈنگز کے صدر/سی ای او تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ دونوں فلیٹس کافی عرصے قبل فروخت کردیئے گئے تھے۔دونوں فلیٹس کی بکنگ ای سی پی کو جمع کرائے گئے اثاثہ جات کی سالانہ اسٹیٹمنٹ 30جون، 2003کو ختم ہونے والے مالی سال میں ظاہر کردی گئی تھی اور اسی طرح بعد میں بھی کیا گیا ۔علی ڈار کا مزید کہنا تھا کہ ان میں سے ایک فلیٹ 30جون، 2006میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران فروخت کیا گیا، جب کہ دوسرا 30جون 2008کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران فروخت کیا گیااور ان سب کی تفصیلات متعلقہ سالوں میں سالانہ ریٹرنز میں ای سی پی پر ظاہر کی گئیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسحاق ڈار 2003سے2008کے دوران ٹیکس نان ۔ریذیڈنٹ تھے اور اس بات میں ابہام تھا کہ وہ ای سی پی کو اثاثے ظاہر کریں یا نہیں لیکن اس کے باوجود ان کے والد نے ای سی پی کو ان2 فلیٹس کی بکنگ اور بعد ازاں فروخت کی اسٹیٹمنٹس ظاہر کی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی ملک میں فلیٹوں کی ملکیت کا الزام، دیگر الزاموں کی طرح بے بنیاد اور غلط ہے۔دی نیوز نے شہزاد اکبر سے خصوصی طور پر سوال کیا کہ اگر وہ اس ملک کا نام نہیں لے سکتے جہاں اسحاق ڈار کی ملکیت میں دو فلیٹوں کا انکشاف ہوا ہے تو وہ صرف اس بات کی تصدیق کردیں کہ کیا وہ ملک یو اے ای ہےیا نہیں؟اس پر شہزاد اکبر نے جوا ب دیا کہ آپ لکھ سکتے ہیں کہ ’’میں نہ ہی اس بات سے انکار کررہا ہوں اور نہ ہی تصدیق کررہا ہوں‘‘ان کا کہنا تھا کہ تمام ثبوتوں کے ساتھ یہ ایک مضبوط کیس ہے اور اسحاق ڈار کے خلاف نیا ریفرنس نیب میں جلد ہی دائر کیا جائے گا اور اس کے بعد میڈیا کو تمام تفصیلات بتائی جائیں گی۔