گورڈن رینر
یورپی یونین، تھریسامے کو ’’سپر چارجڈ‘‘ فری ٹریڈ ڈیل کی آفر کرنے کی تیاری کررہا ہے اورتھریسامے کے بلاتعطل تجارت مطالبے کو مسترد کردے گا۔
مذکورہ پیشکش کو آئندہ ہفتے برطانوی مذاکرات کاروں کے سامنے رکھا جائے گا، اس آفر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ آفر 30 سے 40فیصد تھریسامے کی جانب سے پیش کردہ چیکرز تجاویز پر مشتمل ہے۔
اس ضمن میں آئرلینڈ کی یورپین وزیر کا کہنا ہےکہ قوی امکان ہے کہ یہ معاہدہ آئندہ 10دنوں میں طے ہوجائےگا۔‘‘ البتہ حکومتی ذرائع نے یہ واضح کیا ہے کہ بریگزٹ ریڈ لائن میں نرمی لانے کیلئے تھریسامے پر ’’دباو ‘‘نہیں ڈالا جائے گا اور خاص طور پر آئرش سمندر میں کسٹمز بارڈر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وائٹ ہال کے ذرائع نے برسلز پر’’ گیمز مین شپ‘‘کا الزام عائد کیاہے جس کے بعد یورپی یونین کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ معاہدہ طے ہونے کے ’’بہت قریب‘‘ پہنچ چکا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یورپی یونین مہذب انداز اور مثبت زبان استعمال کرتے ہوئے اس کی معاہدے کی پیشکش کررہا ہے اوراگردونوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہیں ہوپاتا تو یورپی یونین ،برطانیہ کو اس کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دے سکتا ہے۔
برسلز میں ایک ذرائع نے بتایا کہ جس معاہدے کی تھریسامے کو پیشکش کی جارہی ہے وہ ٹیرف فری ہوگی لیکن وہ مکمل طور پر بلاتعطل تجارتی معاہدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے سنگل مارکیٹ کی سالمیت کو خطرہ ہوگا۔ اس کے باوجود یہ معاہدہ اس بات کی واضاحت کرتاہے کہ ’’ممکنہ طور پربلاتعطل تجارت ‘‘کیلئے اقدامات کیے جائیںگے۔ لیکن اس کے بدلے یورپی یونین، برطانیہ سے ’’برابری کی سطح پر‘‘ سخت مطالبات بھی کرے گا تاکہ برطانیہ کو ریگولیریٹی اسٹینڈرز، امپولائمنٹ لا اور اسٹیٹ ایڈ جیسے شعبوں میں مسابقتی فائدہ نہ مل سکے۔
برسلز میں ذرائع کے مطابق اس معاہدہ کا ڈرافٹ تفصیلات کے ساتھ کم از کم 10صفحات پر مشتمل ہوسکتا ہے تاکہ 21ماہ میں ٹرانزیشن پریڈ کے دوران ہونے والے مذاکرات کو حتمی شکل دی جاسکے ۔
یہ معاہدہ تھریسامے پر منحصر ہے کہ وہ برطانوی سرزمین اور نارتھن آئر لینڈ میں مختلف کسٹمز انتظامات (پابندیاں) کو قبول کرتی ہیں یا نہیں، کیونکہ وہ پہلے ہی واضح کرچکی ہیں کہ وہ اس قسم کی پابندیوں کو کبھی قبول نہیں کریں گی۔
آئر لینڈ کی یورپین منسٹرہیلین میک اینٹی نے امید ظاہرکی کہ ’’اگر کوئی پروپولز ہے تو میرے خیال میں 10دن کے اندر معاہدہ طے ہوجائے گا۔ یقینا وہ پروپولز یورپی یونین کے اپنے مفاد کے لئے ہی ہوگا، جو بارڈرکے معاملات کو حل نہیں کرے گا لیکن اگر قانونی طور پر کچھ اقدامات کئے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ( یورپی یونین کے بریگزٹ مذاکرات کار) ٹاسک فورس، وزیر اعظم تھریسامے کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ برطانوی وزیر اعظم کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی ہیں ۔میرے خیال میں یہ ہم سب کیلئےبہترین فیصلہ ہوگا۔ میرے خیال میں نو ڈیل ایک ایسی چیز ہے جس کےلیے ہمیں یہاں تک سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ ابھی ہماری ٹیم اور مذاکرات کاروں پاس10 دن ہیں اور جیسے کہ ہم نےماضی میں دیکھا کہ ان مختصر عرصے میں کیا کچھ ہوچکا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ ہوتی اور مجھے یقین ہے کہ برطانیہ معاہدہ کرنے کا خواہشمند ہے۔‘‘
اس حوالے سےاچھی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ یورپین کمیشن کے صدر جین کلاؤڈ۔جنکرنے بتایا کہ حالیہ دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان معاہدے پر اتفاق کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں ہمیں نو ڈیل جیسے حالات پیدا کرنے سے باز رہنا چاہتے جو برطانیہ کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے حق میں بھی اچھا نہیں ہوگا۔‘‘انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم واپسی کی شرائط کے حوالے سے کسی ایک معاہدہ پر متفق ہوچکے ہیں ۔ ہم ا بھی بہت دور نہیں گئے۔ ہمیں صرف ایک سیاسی بیان پر متفق ہونے کی ضرورت ہے جس میں یورپی یونین سے دستبرداری کے حوالے سے معاہدہ بھی شامل ہو۔
لیکن برطانوی حکومت کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کی ہماری خواہش دم توڑ چکی ہے کیونکہ برطانوی حکومت کو اس وقت یہ ضرور یاد رکھنا ہوگا کہ یورپی یونین، برطانیہ کو نہیں بلکہ برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدہ ہورہا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے پاس اس طرح سوچنے کی ایک وجہ موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان کسیمعاہدے پر اتفاق کرنے کے امکانات بڑھ چکےہیں لیکن اس معاملے کواس طرح چھوڑا نہیں جاسکتا چاہے ہم اس معاملے کو اکتوبر میں ختم کرتے ہیں ،اگر اس ماہ میں نہیں چاہتے تو ہم نومبر میں یہ معاملات طے کرلیں گے۔‘‘
انہوں نےکہا کہ چاہے کوئی یقین کریں یانہ کریں ، لیکن ابھی بھی بریگزٹ سے بچاجاسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ’’سوال یہ نہیں کہ اس کا تعلق یورپی یونین یا کمیشنسے ہے۔بلکہ اس کا تعلق برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ سے ہے، ان کی صوابدید پر ہے۔ میں برطانوی کابینہ کے اندورنی معاملات میں مداخلت نہیں کرتاکیونکہ وہاں بہت زیادہ کنفوژن ہے۔
تھریسامے 18اکتوبر کو 27یورپین رہنماؤں سے ملاقات کیلئے برسلز جاری ہیں تاکہ وہ بریگزٹ معاہدےکےبارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرسکیں۔
تھریسامے کی چیف مذاکرات کار اولے رابنز ان طویل بحث و مباحثے میں بھی شامل ہوںگے۔ برطانوی ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں معاہدے طے ہونےکے حوالے سے حالات واضح ہوجائیں گے۔
یورپین کونسل کے صدر ٹسک کا کہنا ہے کہ یورپی یونین برطانیہ کو ’’کینیڈا پلس پلس پلس ‘‘ٹریڈ ڈیل کی پیشکش کرنے کےلیے تیار ہے لیکن اس پیشکش کا مطلب آئرش سمندر میں کسٹمز بارڈر ہوگا جو تھریسامے کے لیے ایک ریڈ لائن ہے۔
وائٹ ہال کے ذرائع نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’’ یہ یورپی یونین کی جانب سے ’’گیمز مین شپ‘‘ ہے۔ برطانیہ کی پوزیشن ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی اور اگر کوئی ڈیل ہوئی تو یورپی یونین کو سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ وہ ہم پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہم آئرش سمندر پر کوئی بارڈر قبول نہیں کریں گے۔ ‘‘