سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔جنگ میں تو آپ ایک بار رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔(ونسٹن چرچل)
ہاں مگر اہل سیاست کی مو ت ہو یا زندگی،ابدی نہیں ہوتی۔چرچل کی بات کو آگے بڑھائیں تو حاصل کلام یہ ہے کہ سیاستدان خزاں رسیدہ موسم میں مُرجھا تو جاتے ہیں مگر مرتے نہیں۔سیاسی جماعتیں آکاس بیل کی طرح ہوتی ہیں،تراش خراش کرنے والا مالی سمجھتا ہے کہ اس نے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے مگر رُت بدلتی ہے اور موسم سازگار ہوتا ہے تو ایک ننھی سی کونپل پھوٹتے ہی یہ بیل پھر سے پھیل جاتی ہے۔کئی برس بعد کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کیابھٹو اب بھی زندہ ہو گا یا پھرجبر ناروا کے پے درپے طوفانوں نے پیپلز پارٹی جیسے تن آور درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہو گا ؟کراچی سے کئی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں مگر آخری مرتبہ جنرل (ر)پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں شہر قائد گیا تو چار سو خوف کے سائے دکھائی دیتے یا پھر بانی ٔایم کیو ایم کے پورٹریٹ نظر آتے۔مجھے توقع تھی کہ شاید اس بار کراچی نئے پاکستان کے رنگ میں رنگا جا چکا ہوگا لیکن یہ دیکھ کر خوشگوارحیرت ہوئی کہ شہر بھر کی مرکزی شاہراہوں پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے قد ِ آدم پوسٹرز نصب تھے اور چارسو پیپلز پارٹی کے جھنڈے،بینرز اور فلیکس دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ کراچی نہیں بلکہ لاڑکانہ ہے۔سیاسی فضا اور گہما گہمی دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے انتخابات کے بعد بھی جیالوں کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی۔صحافی دوستوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس گہما گہمی کے روح رواں پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما شہزاد میمن ہیں جو عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہوسکے البتہ اس نوجوان رہنما نے ہارنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اورمسلسل جیالوں کا خون گرمائے ہوئے ہے۔
کراچی جانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ شاید وہاں جا کر میرے اکاؤنٹ میں بھی اچانک اربوں روپے آجائیں کیونکہ میڈیا پر تو یہی تاثر دیا گیا ہے کہ وہاں لوٹ سیل لگی ہے اور کبھی کوئی بھی عام آدمی بیٹھے بٹھائے مالا مال ہو سکتا ہے۔پیپلز پارٹی پر ہر دور میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کبھی کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیںکیا جا سکا۔پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی امریکی صدر نکسن کی طرح ان الزامات کو یہ سوچ کر سنجیدگی سے نہیں لیتی کہ چند اینکر اور اخبار نویس ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔لیکن میرا خیال ہے کہ پروپیگنڈے کے اس دور میں اس لاتعلقی اور بے نیازی کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔مثال کے طور پر ان بے نامی بینک اکاؤنٹس کو ہی دیکھ لیں، یہ حملہ اس قدر مہلک اور تیر بہدف ثابت ہوا ہے کہ عام آدمی تو درکنارپیپلز پارٹی کی قیادت دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے ایک آدھ ٹی وی انٹرویو میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ جنہیں جعلی اکاؤنٹس کہا جا رہا ہے وہ دراصل ٹریڈنگ اکاؤنٹس ہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح،دوٹوک اور ناقابل تردید موقف پیش نہیں کیا گیا۔مجھے ان بینک اکاؤنٹس کے پس منظر کا کسی حد تک انداز ہ تو تھا مگر کراچی جا کر کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں اور پھر ایف آئی اے اور ایف بی آر کے افسران سے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ بینک اکاؤنٹ بھی رائی کے پہاڑہیں جو سیاسی ایجنڈے کے تحت ایستادہ کئے گئے ہیں مگر فریب نظر کا یہ عالم ہے کہ عام افراد تو کیا پیپلز پارٹی کے جیالے بھی انہیں سچ مچ کا پہاڑ سمجھ کرہیبت زدہ ہوئے جاتے ہیں۔
بات اگرچہ اتنی سیدھی اور سادہ نہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ سیاسی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سمجھی نہ جا سکے۔ آپ نے کسی دوست سے ادھار مانگا یا اسے کسی بھی سلسلے میں آپ کو ادائیگی کرنا ہے،اب اگر وہ رقم کسی اور شہر سے آن لائن بھجواتا ہے تو اس پر اضافی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔اسکا جس بینک میں اکاؤنٹ ہے وہ کہتا ہے اس میں تمہاراکوئی اکاؤنٹ ہے تو بتاؤ۔آپ اپنے دوستوں سے پوچھتے ہیں اور پھر اسے اپنی کسی دوست کا اکاؤنٹ نمبر فراہم کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوا دے۔یہ ایک نہایت چھوٹی سی مثال ہے،اب اگر اس مثال کو کاروباری معاملات پر منطبق کریں تو یہ بات حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ میڈیا میں جن بینک اکاؤنٹس پر لے دے ہو رہی ہے وہ جعلی بینک اکاؤنٹس نہیں بلکہ ٹریڈنگ اکاؤنٹس ہی ہیں۔اس طرح کے بینک اکاؤنٹ کھلوانا اور ان کے ذریعے ٹرانزیکشن کرنا معمول کی بات ہے۔میرے گاؤں میں کریانے کی دکان چلانے والے چھوٹے سے سیٹھ نے بھی ایسے کئی بینک اکاؤنٹ کھلوا رکھے ہیں اور اربوں روپے کا کاروبار کرنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو اس کام میں ملوث نہ ہو۔جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت ہر کاروباری شخص کے اس طرح کے بینک اکاؤنٹ ڈھونڈ کرمنی لانڈرنگ اور کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے لیکن بات میڈیا ٹرائل سے آگے نہیں بڑھ سکتی کیونکہ ان الزامات کو عدالتوں میں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔میں نے ایف آئی اے اور ایف بی آر کے بعض دوستوں سے سوال کیا کہ کاروباری شخصیات کی ایسی کونسی مجبوریاں ہیں کہ وہ ان بے نامی اکاؤنٹس کا سہارا لیتے ہیں اور کیا یہ بات پہلے سے ان اداروں کے علم میں ہوتی ہے ؟مجھے بتایا گیا کہ یہ معمول کی بات ہے اور تمام ادارے اس سے باخبر ہیں اور دانستہ چشم پوشی کی جاتی ہے کیونکہ جب تک منی لانڈرنگ کا اندیشہ نہ ہو ایف آئی اے کو کوئی شکایت نہیں ہوتی اور جب تک ٹیکس کی ادائیگی میں بہت زیادہ عدم توازن نہ ہو ایف بی آر ٹانگ نہیں اڑاتا۔کاروباری شخصیات کی ایک سے زائد مجبوریاں ہو سکتی ہیں،مثال کے طور پر انہیں کوئی ٹھیکہ لینا ہے تو چار مختلف نمائندے بولی دینے کے لئےبھیج دیئے جاتے ہیں تاکہ کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں اور اس مقصد کے لئے بے نامی اکاؤنٹ ہی نہیں کھلوائے جاتے،بے نامی کمپنیاں بھی بنائی جاتی ہیں۔اس میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت یہ ہے کہ کسی کے نوٹس میں لائے بغیر اس کے نام سے اکاؤنٹ کھول لیا جائے لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا بلکہ جن کے نام سے ٹریڈنگ اکاؤنٹ کھلتے ہیں انہیں علم ہوتا ہے اور معمولی سا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔آخری سوال یہ تھا کہ کیا آصف زرداری کو ان بینک اکاؤنٹس کی بنیاد پر قصور وار ثابت کیا جا سکتا ہے؟ایک سرکاری افسر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے،ان بینک اکاؤنٹس کی بنیاد پر آصف زرداری کوقصوروار ٹھہرانا تو بعد کی بات ہے پہلے انور مجید اور حسین لوائی کا تعلق ثابت کرنا ہوگاگویا رائی کے پہاڑ ہیں جتنے دل چاہے کھڑے کر لیں۔