چین نے گزشتہ تین عشروں کے دوران 700ملین (70کروڑ) افراد کو غربت سے نکالا اور حیرت انگیز ترقی کی۔ ہمیں چین کی اس بے مثل کامیابی سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ یہ بات وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران وہاں ہر جگہ کی اور چین کے عوام کو باور کرایا کہ یہ چین کی قیادت کا ایک عظیم کارنامہ ہے، جس کو وہ سراہتے ہیں۔ دورے سے وطن واپسی کے بعد بھی وزیراعظم عمران خان اس حقیقت کا بار بار تذکرہ کر رہے ہیں لیکن چین کے دورے میں وزیراعظم پاکستان نے یقیناً اس امر کا مشاہدہ بھی کیا ہو گا کہ ان کی چینی حکام سے جہاں بھی ملاقاتیں ہوئیں یا جہاں بھی انہیں استقبالیہ دیا گیا، وہاں کی عمارتیں انتہائی پرشکوہ، کشادہ اور شاہانہ جاہ و جلال کی حامل تھیں۔ ان میں عظیم عوامی ہال جیسی تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ جدید تعمیر شدہ عمارتیں بھی شامل تھیں۔ چین کے چھوٹے عہدیداروں کے دفاتر بھی پرشکوہ تھے۔ ان عمارتوں سے چین کی ریاست کی عظمت اور شان و شوکت کا باہر سے آنے والے لوگ اندازہ لگا تے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین میں غربت کے خاتمے کیلئے بڑی بڑی سرکاری عمارتیں فروخت نہیں کی گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان چین میں بار بار یہ بھی کہتے رہے کہ ہمیں چین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ پتا نہیں انہوں نے چین میں اس حقیقت کا ادراک کیا ہے یا نہیں کہ بڑی بڑی اور پرشکوہ سرکاری عمارتیں فروخت کرنے یا انہیں دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے غربت ختم نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو عظیم عوامی ہال، صدر اور وزیراعظم کی رہائشگاہوں سمیت سرکاری عمارتیں یا تو فروخت ہو چکی ہوتیں یا کسی اور مقصد کیلئے استعمال ہو رہی ہوتیں۔ اس طرح ہمیں چین سے پہلا سبق یہ سیکھنا چاہئے کہ سرکاری اثاثے فروخت کرنے سے نہ تو غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم ترقی کرتی ہے۔ چین نے محیر العقول ترقی کیلئے کچھ اور کیا ہے۔ اس نے عظیم عوامی ہال اور دیگر سرکاری عمارتوں میں تعلیمی ادارے یا عجائب گھر نہیں بنائے۔ تعلیمی اداروں اور عجائب گھر کیلئے نئی عمارتیں تعمیر کیں۔
چین کی قیادت نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ اس نے چین کے سرکاری عمال (Mandarins) کو بہت مضبوط کیا اور اس کیلئے عالیشان دفاتر اور رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں کیونکہ چینی قیادت کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ان سرکاری عمال کا اہم کردار ہے، جسے ہم بیورو کریسی کہتے ہیں۔ چین کی بیورو کریسی بہت مضبوط ہے۔ مضبوط ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی من مانی کرتی ہے اور بے لگام ہے یا سیاسی قیادت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ چین میں دو ادارے بہت اہم ہیں۔ ایک چین کی کمیونسٹ پارٹی اور دوسرا ادارہ چین کی بیورو کریسی۔ چین میں اوپر کی سطح سے لیکر نیچے تک سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیلئے میرٹ کا سخت ترین نظام رائج ہے، جس پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ چین کی بیورو کریسی کی تربیت کا معیار بہت بلند ہے اور اس کے احتساب کا بھی ایک مضبوط اور خود کار نظام ہے۔ سیاسی قیادت اپنے وژن پر عمل درآمد کیلئے بیورو کریسی (سرکاری عمال) پر انحصار کرتی ہے اور اسے مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ سہولتیں بھی میسر ہیں۔ ان کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔
وزیراعظم عمران خان خود یہ بات کہتے ہیں کہ1960ء کے عشرے کی بیورو کریسی بہت بہتر تھی کیونکہ وہ بیورو کریسی بہت باصلاحیت تھی اور اس کا معیار بہت بلند تھا۔ وزیراعظم اس بات کا بھی ادراک رکھتے ہوں گے کہ بیورو کریسی میں زوال اور انحطاط کیوں آیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ورثے میں نو آبادیاتی بیورو کریسی ملی، جسے برطانوی راج کا ’’آہنی ڈھانچہ‘‘ (اسٹیل فریم) قرار دیا جا تا تھا۔ اصلاحات کے نام پر اس بیورو کریسی کی نو آبادیاتی خصوصیات ختم کرنے کے بجائے اس کے میرٹ اور معیار کو ختم کیا گیا۔ سول سروس ریفارمز کیلئے کئی کمیشنز اور بورڈز تشکیل دیئے گئے، جنہوں نے اصلاحات کا مطلب صرف یہ نکالا کہ بیورو کریسی کو کمزور کیا جائے۔ صوابدیدی اختیارات کے ذریعہ اور سفارش پر بھرتیوں نے اس ادارے کو تباہ کر دیا۔ 1973ء کی سول سروس ریفارمز سے لیکر جنرل پرویز مشرف کی ’’قومی تعمیر نو بیورو‘‘ کی نافذ کردہ اصلاحات تک پاکستان کی سول سروس کے ڈھانچے پر کاری ضربیں لگائی گئیں۔ برطانوی راج کے تحت انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کا امتحان پاس کرکے سرکاری افسر بننے والے شخص کی اعلیٰ صلاحیتوں کا پورا زمانہ معترف ہوتا تھا۔ ایسے افسروں کی دانش اور انتظامی مہارت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی اصلاحات نے پاکستان کی سول سروس پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ اب پاکستان میں مضبوط اور موثر سول سروس کی بحالی اگرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ انتظامی افسروں سے ’’ایگزیکٹو مجسٹریٹس‘‘ کے اختیارات چھین کر پاکستان کی سول سروس کو انتہائی غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔ پہلے جو مسئلہ اسسٹنٹ کمشنر اپنی سطح پر حل کر لیتا تھا، اب وہ وزیراعظم کی سطح پر بھی حل نہیں ہوتا۔
پاکستان کو چین سے جو بنیادی سبق سیکھنا چاہئے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی مضبوط اور موثر بیورو کریسی ہو، جو سیاسی قیادت کے وژن کو عملی جامہ پہنا سکے۔ نااہل، کمزور اور بے اختیار بیورو کریسی یہ کام نہیں کر سکتی۔ وزیراعظم عمران خان نے سول سروس ریفارمز کیلئے ٹاسک فورس قائم کی ہے۔ اس ٹاسک فورس کی اپروچ پہلے جیسے کمیشنز اور ٹاسک فورسز کی طرح نہیں ہونی چاہئے۔ صدر، گورنر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، سیکرٹریز، کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز وغیرہ کی رہائش گاہیں یا دفاتر ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں۔ یہ اثاثے ریاست کی شان و شوکت اور عظمت کو ظاہر کرتے ہیں اور کام کے پھیلاؤ کی صورت میں یہ استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ انتظامی افسران کے ایگزیکٹو مجسٹریسی والے اختیارات کی بحالی بھی ضروری ہے اور انہیں دیگر اختیارات بھی ملنے چاہئیں تاکہ وہ حکومتی پروگرامز پر عملدرآمد اور نتائج کے خود ذمہ دار ہوں۔ اس میں چینی ماڈل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جو وہاں کی مقامی خصوصیات کی وجہ سے زیادہ موثر ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)