ابھی کچھ وقت لگے گا اس حقیقت سے سمجھوتہ کرنے میں کہ فہمیدہ ریاض کا انتقال ہوگیا ہے۔ مجھ جیسے بہت سے لوگوں کیلئے کہ جوان کو ذاتی طور پر جانتے تھے یہ ایک گہرا صدمہ ہے۔ مجھے جب بھی اپنے زرپرست اور تہذیبی پسماندگی کے شکار معاشرے میں بے مثال تخلیقی صلاحیت رکھنے والے افراد کی مجرمانہ بے قدری کا خیال آتا تو چند نمایاں مثالوں میں فہمیدہ بھی شامل ہوتیں۔ شاعری اور ادب کیلئے ان کی خدمات کیا تھیں اور انکا مقام کیا تھا اسکے بارے میں کافی دنوں تک گفتگو رہے گی ۔ آرٹس کونسل کراچی کی عالمی اردو کانفرنس کیلئے بھی فہمیدہ کا انتقال ایک بڑا اور غیر متوقع دھچکا ہے۔ دھیرے دھیرے ہم سمجھیں گے کہ یہ کتنا بڑا نقصان ہے اور میں اس دکھ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پارہا کہ فہمیدہ نے کتنی مشکل زندگی گزاری۔ ورنہ ایک پڑھے لکھے معاشرے میں صرف کتابوں کی فروخت سے ہی اچھے اور مقبول ادیب اور شاعرمالا مال ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہماری مفلسی قابل غور ہے گو حکمرانوں نے دوسرے ملکوں سے سیکھنے کے اپنے عزم کے باوجود کبھی اسے اہمیت نہیں دی ۔ یہ جو ہم عدم برداشت، تنگ نظری اور نفرت کے گرداب سے نکل ہی نہیں پارہے تواس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم نے علم ، ادب اور فنون کی مرکزی اہمیت کو نہیں سمجھا۔
ابھی ، جیسا کہ میں نے کہا، فہمیدہ کے بارے میں بات کرنا مجھے مشکل لگ رہا ہے۔ میں ایک زمانے سے انہیں جانتا تھا اور وہ میری بیوی صادقہ کی کالج کی دوست تھیں۔ یعنی یادوں کی یلغار بھی ہے۔ ان کی تخلیقی صلاحیت حیرت انگیز تھی اور اس طرح انہیں اس ملک کی ایک قابل قدر بلکہ عظیم شخصیت کہا جاسکتا ہے۔ فہمیدہ انقلابی سوچ رکھنے والی ایک سیاسی اور سماجی کارکن بھی تھیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے افسانے اور ناول لکھ کر ہمیں حیران کیا ۔ شیخ ایاز کی سندھی شاعری کا ترجمہ کیا اور جلال الدین رومی سے اپنے عشق کا ثبوت دیوان شمس تبریزی کے انتخاب کا باکمال منظوم ترجمہ کرکے دیا ۔بچوں کیلئے انگریزی میں کتابیں لکھیں۔ اب جو فہمیدہ کے بارے میں ادبی مجلسوں میں گفتگو ہوگی تو اس احساس کو تقویت ملے گی کہ وہ عظیم تخلیق کار تھیں۔ سب سے زیادہ ہم ان کی شاعری کو یاد رکھیں گے ۔ یہاں میں صرف ان کی ایک پرانی نظم ’ چادر اور چار دیواری‘ کی اختتامی سطریں نقل کررہا ہوں۔’’ حیات کی شاہ راہ پر جگمگا رہی ہے مری ذہانت۔ زمیں کے رخ پر جو ہے پسینہ تو جھلملاتی ہے میری محنت ۔ یہ چار دیواریاں، یہ چادر گلی سٹری لاش کو مبارک۔ کھلی فضائوں میں بادباں کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ ۔ میں آدم نو کی ہم سفر ہوں۔ کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت۔
یہ بھی دیکھئے کہ کیسے اس وقت فہمیدہ ریاض کاغم، زندگی کے غم میںشامل ہو گیا ہے۔ جس روشن خیال سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں وہ شامل رہیں وہ رجعت پسندوں کے نرغے میں ہے۔ صحافت کی آزادی پر حملے ہورہے ہیں۔ اس پوری صورت حال کا ایک ایسا اظہار ہم نے ابھی ابھی دیکھا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ بدھ کی رات کے سانحے سے پہلے ہم اس ہفتے کو فیض سے منسوب کرسکتے تھے۔ فہمیدہ بھی فیض کے قبیلے کی ایک رکن تھیں۔ لاہور میں منعقد ہونے والے فیض فیسٹیول میں شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کی شرکت نے میڈیا میں کچھ رنگ بکھیرے لیکن زیادہ ذکر، کم ازکم سوشل میڈیا اور ہم خیال دوستوں کی محفل میں، ان مہمانوں کا ہوا کہ جنہیں بلایا تو گیا لیکن آخری وقت میں جن سے معذرت کرلی گئی کہ آپ نہ آئیں تو اچھا ہے۔ پتہ نہیں یہ معذرت کن لفظوں اور کس زبان میں کی گئی یا اس کے لئے فیض کے کسی مصرع یابند کا سہارا لیا گیا ۔ کہتے ہیں کہ ایسا کچھ کسی بیرونی دبائو کے تحت ہوا ۔ آپ چاہیں تو اسے بھی فیض کی شاعری سے منسلک کردیں کیونکہ فیض نے بھی تو جبر اور زباں بندی کی فضا میں ہمارے درد کوزباں دی تھی ۔ فیض کو یاد کرنے کا ایک اور موقع ان کی برسی تھی ۔ منگل کے دن ان کی وفات کو34سال ہوگئے۔ یہ اتفاق ہے کہ 20نومبر عالمی ادب کے عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کی برسی کا دن بھی ہے۔ فیض کے یاد آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اس داغ داغ اجالے میں آج بھی اس سحر کے منتظر ہیں کہ جس کی آرزو میں ہم جیتے رہے ہیں۔
مجھے یادہے کہ ان کی زندگی میں، جب فیض جلا وطن تھے، تو کراچی پریس کلب میں ان کی سالگرہ منائی گئی تھی ، میں نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ گو فیض کی شاعری کے ساتھ میں نے اپنی زندگی گزاری ہے مگر میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر آفتاب احمد اور بیگم آمنہ مجید ملک یعنی باجی نے میری اس حسرت کو اپنے دل پرلیا اور جب فیض پاکستان آئے تو میری ان سے ملاقات کا بندوبست کیاگیا ۔ فیض کی زندگی کے آخری مہینوں میں تو ان سے کئی بار ، تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو تب میں کراچی میں ایک انگریزی اخبار کا نیوز ایڈیٹر تھا ۔ ہم نے فیض کو جس انداز میں سراہا اس کی کوئی مثال میں نے پرنٹ میڈیا میں نہیں دیکھی ۔ اگلے دن کے اخبار میں نہ صرف ایک پورا صفحہ ان کے لئے وقف تھا بلکہ صفحہ اول پر بڑی سرخی کے ساتھ فیض کی ایک بڑی تصویر کے نیچے ان کا یہ شعر اردو میں تحریر تھا ۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم
یاد کیجئے۔ ضیا الحق کے مارشل لا کی تاریک رات میں ہم نے ایک روشن مستقبل یعنی شیرینی فردا کی جھلک دیکھی تھی ۔لیکن یہ ستم بھی تو ہم نے گوارا کیا ہے کہ چلتے چلے جارہے ہیں اور وہ منزل ابھی نہیں آئی ۔ فیض کے انتقال کوتو34سال گزر گئے ۔ پڑھے لکھے گھرانوں اور کسی حد تک فیض کے اپنے گھرانے میں بچے انگریزی بولتے ہوئے بڑے ہوگئے ۔ اب تو فراز کو گئے ہوئے بھی دس سال پورے ہوچکے ۔ فراز کا نام میں نے ایک خاص وجہ سے لیا ہے۔2008سے پہلے کئی بار ان سے اسلام آباد ہوٹل کی لابی میں آمنا سامنا ہوا ۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے روک کراپنا یہ شعر سنایا جو مجھے لگا کہ فی البدیہہ تھا۔
فرازؔ صحن چمن میں بہار کا موسم
نہ فیض ؔدیکھ سکے تھے نہ ہم ہی دیکھیں گے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)