مائیکل جیکسن کو چارچیزوں سے نفرت تھی۔ اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی، وہ گوروں کی طرح دِکھائی دینا چاہتا تھا۔ اسے گمنامی سے نفرت تھی، وہ دنیا کا سب سے شہرت یافتہ شخص بننا چاہتا تھا۔ اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی، وہ اپنے ماضی کو خود سے کھرچ کر الگ کردینا چاہتا تھا۔ اسے عام لوگوں کی ساٹھ، ستر یا اسی برس کی عمر میں مرجانے سے نفرت تھی، وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا، جو ایک سو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے، اپنا آخری گانا گائے، اپنی نوجوان گرل فرینڈ کے ساتھ آخری وقت تک رہے اور لاکھوں، کروڑوں مداحوں کی موجودگی میں دُنیا سے رُخصت ہوجائے۔ مائیکل جیکسن کی زندگی ان چار نفرتوں اور ان چار خواہشات کی تکمیل میں ہی گزری۔
مائیکل جیکسن29اگست 1958ء کو امریکی ریاست انڈیانا کے شہر گیری میں ایک غریب سیاہ فام گھرانے میں پیدا ہوا۔ اُس کے 5بھائی اور 3بہنیں تھیں۔ مائیکل جیکسن کی زندگی بچپن سے ہی مشکلوں اور پچھتاووں سے عبارت تھی۔
اس کے والد جو جیکسن نے اپنے بیٹوں کو کم سنی میں ہی شو بزنس کی دنیا میں دھکیل دیا تھا۔ مائیکل جیکسن اپنے بھائیوں جیرمین، ٹیٹو، مارلن اور رینڈی کے ساتھ پانچ سال کی عمر میں ہی اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگا تھا۔ ’جیکسن فائیو‘ نامی اس گروپ نے خاص طور پر مائیکل کی صلاحیتوں کی بدولت ایک کے بعد ایک مقابلہ جیتا اور 1969ء میں پہلی مرتبہ ایک ریکارڈ کی تیاری کا معاہدہ کیا۔ ’آئی وانٹ یو بیک‘ نامی یہ چھوٹا ساالبم مناسب کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس وقت مائیکل جیکسن کی عمر 11برس تھی۔ جیکسن اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا لیکن ’جیکسن فائیو‘ کا سب سے باصلاحیت رُکن تھا اور اس گروپ کی کامیابی مائیکل کے مرہونِ منت ہی تھی۔ مائیکل سے زیادہ سے زیادہ کام کروانے کے لیے اس کے والد اور بھائی اس پر تشدد بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بعد میں ہمیشہ یہ شکایت کرتا رہا کہ اس کے والد نے شوبزنس میں کامیابی کے لیے اُس کے بچپن کو قربان کر دیا۔ مائیکل کے اندر پنپنے والے یہی وہ جذبات تھے، جو اس کی چار نفرتوں اور چار خواہشوں کی بنیاد بنے۔
’آئی وانٹ یو بیک‘ کی مناسب کامیابی کے بعدوہ جلد ہی اپنے خاندان سے الگ ہوگیا اور اپنا ذاتی البم مشہور امریکی موسیقار ’کوزی جانز‘ کے ساتھ مل کر 1978ء میں ریلیز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس البم کی ایک کروڑ کاپیاں فروخت ہوگئیں، یوں جیکسن راتوں رات کامیاب انسان اورایک سیلیبرٹی بن گیا۔
مائیکل جیکسن نے 1982ء میں ’تھرلر‘ نامی اپنا دوسرا البم ریلیز کیا۔ اس البم نے اسے دنیا کا مشہور ترین پاپ اسٹار اور سپر اسٹار بنا دیا۔ صرف ایک ماہ میں اس کی 6کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس طرح یہ البم ’گنیز بک ورلڈ آف ریکارڈ‘ کا حصہ بن گیا۔ مجموعی طور پر اس البم کی 10کروڑ 80لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور مائیکل ’کنگ آف پاپ‘ کہلانے لگا۔ اس البم کے بعد، افریقا کے دیہات سے لے کر چین کے قصبے تک شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا، جو مائیکل جیکسن کے نام سے واقف نہ ہو۔ اس شہرہ آفاق البم کے ذریعے مائیکل جیکسن نے گمنامی کو شکست دے کر عالمی شہرت حاصل کرلی تھی۔ مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک جیسے مترادف الفاظ بن گئے۔ اگلا البم ’بیڈ‘ 3کروڑ جبکہ ’ڈینجرس‘ڈیڑھ کروڑکی تعداد میں فروخت ہوا۔
1983ء میں مو ٹاؤن ٹی وی اسپیشل میں مائیکل جیکسن نے ’تھرلر‘ البم کے گیت '’بلی جین‘ پر رقص کرتے ہوئے ایک نئی حرکت متعارف کروائی، جسے دیکھ کر لوگ ششدر رہ گئے۔ اس حرکت کو ’مون واک‘ کا نام دیا گیا۔ ’مون واک‘ ڈانس ناظر کی نظر کو دھوکا دینے والا ایک ایسا کرتب ہے، جس میں رقاص بظاہر آگے کی طرف قدم اُٹھاتا ہے لیکن بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے کی طرف جاتا ہے۔
1979ء میں مائیکل جیکسن نے ایک حادثے میں اپنی ناک ٹوٹ جانے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی پلاسٹک سرجری کروائی۔ اُس کی جِلد کا رنگ ہلکے سے ہلکا ہوتا چلا گیا، جس کی وجہ بقول اُس کے کوئی جِلدی خرابی تھی۔ اس وقت مائیکل جیکسن کی اس بات پر کسی نے یقین نہ کیا، سب کا یہی خیال تھا کہ اس نے متعدد سرجریز کے ذریعے اپنا رنگ گورا کروایا ہے اور اس کے لیے اس نے دنیا کے درجنوں ماہر ڈاکٹرز کو کروڑوں ڈالرز کی ادائیگی کی۔ مائیکل جیکسن کے بقول انھوں نے زندگی میں صرف 2بار سرجریز کروائیں۔ پہلی سرجری ناک ٹوٹنے کے بعد اور دوسری اپنی ٹھوڑی کی۔
تاہم 9سال قبل جب مائیکل جیکسن کی موت ہوئی تو خاتون صحافی شیرن کارپینٹر ہسپتال میں مائیکل جیکسن کے پاس موجود تھیں اور تب پہلی بار انہوں نے مائیکل جیکسن کی رنگت کے راز سے پردہ اُٹھایا۔
ڈیلی اسٹار آن لائن سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’میڈیا نے اس معاملے کو بہت غلط طریقے سے اُچھالا۔ وہ انہیں (مائیکل جیکسن کو) بُرے ناموں سے پکارتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ اپنی جِلد کو بلیچ کرتے ہیں کیونکہ وہ گورا نظر آنے کے جنون میں مبتلاتھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مائیکل جیکسن برص کے مریض تھے۔ ان کی جلد پر جگہ جگہ سفید رنگ کے داغ نمودار ہو گئے تھے اور اسی لیے وہ اپنی جلد کو بلیچ کرتے تھے۔موت کے بعد ان کے پوسٹ مارٹم میں بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ وہ برص کے مریض تھے۔ یہ بہت ہی دِل دُکھانے والی بات تھی کہ لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ خود کو سفید فام کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں حالانکہ وہ اپنی بیماری کو چُھپانے کے لئے ایسا کرتے تھے‘۔
1987ء میں ریلیز ہونے والی البم بیڈ ’گورے مائیکل جیکسن‘ کی پہلی البم تھی۔ اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا۔ وہ ملکوں ملکوں، شہر شہرگیا اور شوز کے ذریعے کروڑوں ڈالر کمائے۔
1994ء میں مائیکل جیکسن نے ایلویس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی کی، میڈیا میں ہمیشہ یہ کہا جاتا رہا کہ یہ غالباً محض ایک ڈرامہ ہے تاہم لیزا نے بعد ازاں کہا، ’مجھے اُس سے بے پناہ محبت ہو گئی تھی‘۔ تاہم وہ مائیکل جیکسن کی ’پی آر مشینری‘ کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی۔ یہ شادی صرف 20ماہ ہی چل سکی۔
لیزا پریسلے سے طلاق کے بعد مائیکل جیکسن نے ڈیبی رو کے ساتھ شادی کی۔ یہ تعلق کاروباری بنیادوں پر تھا کیونکہ مائیکل کو بچوں کی خواہش تھی۔ ڈیبی سے مائیکل کے دو بچے ہوئے، مائیکل اور پیرس۔ تیسرا بچہ پرنس مائیکل دوئم بقول مائیکل جیکسن مصنوعی طریقے سے کرائے کی ایک ماں کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
مائیکل جیکسن کے خلاف بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات بھی سامنے آئے۔ سب سے پہلے یہ الزام 1994ء میں سامنے آیا۔ متعلقہ خاندان کو کئی ملین ڈالر کی ادائیگی کی وجہ سے مقدمے کی نوبت ہی نہ آئی۔ 2003ء میں اسی طرح کے الزامات ایک بار پھر لگائے گئے۔ اگرچہ مقدمے کے بعد مائیکل کو بری کر دیا گیا لیکن اُس کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا۔
مارچ 2009ء میں مائیکل نے غیر متوقع طور پر اسٹیج پر واپسی کا اعلان کر دیا۔ تنازعات اور مالی مشکلات میں گھرا مائیکل جیکسن 50سال کی عمرمکمل کرنے کےبعد موسیقی کی دنیا میں دوبارہ قدم رکھتے ہوئے اپنے پچاس کنسرٹس کا سلسلہ شروع کر رہا تھا اور اس سلسلے میں پہلا کنسرٹ 13 جولائی کو لندن میں ہونا طے تھا۔ اُس کے مجوزہ شو ’دِس اِز اِٹ‘ کے پیشگی ٹکٹ اُس کے اندازوں سے کہیں زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے، تاہم پہلے مجوزہ شو سے18روز قبل 25 جون 2009ء کولاس اینجلس میں مائیکل جیکسن کی موت کی خبر نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔
مائیکل جیکسن 150سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا، وہ جراثیم، وائرس اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا۔ وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر دنیا کے بہترین 12ڈاکٹرز ملازم رکھے ہوئے تھے۔ یہ ڈاکٹرز روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے۔ تاہم ان سب تدبیروں کے باوجود،150سال تک جینے کی خواہش رکھنے والا مائیکل جیکسن 50سال کی عمر میں ہی اس جہانِ فانی سے آخرت کے سفر کو روانہ ہوگیا۔