کراچی (جنگ نیوز) امریکا اور چین سے قربت کی پالیسی ناکام، مودی کی سفارتی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ شی جن پنگ،ٹرمپ سے ناکام تعلق کے بعد خود احتسابی، صورتحال نے مودی کو سوچ میں ڈال دیا۔چین سے تعلقات سرحدی جھڑپوں اور پاکستان کی حمایت پر کشیدہ ، ٹرمپ نے 50 فیصد ٹیرف لگادیا۔ امریکی صد رنے بھارتی معیشت کو "مردہ" قرار دیا اور پاکستان کو برابر کا درجہ دےکر نئی دہلی کو شرمندہ کیا۔مودی اب بیجنگ سے تعلقات بحالی اور روس کے ساتھ شراکت داری مزید مضبوط بنانے کی کوشش میں ہیں۔ ماہرین نے بھارت کو دوبارہ اپنی پرانی پالیسی اسٹریٹجک خودمختاری اختیار کرنے کے مشورے دے دئیے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی دنیا کی دو سپر پاورز چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بلند سطحی کوششوں کی ناکامی نے بھارت کی سفارتی طاقت کی حدوداور اثرو رسوخ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ابتدائی طور پر مودی نے چین کے صدر شی جن پنگ کا شاندار استقبال کیا، لیکن سرحدی جھڑپوں اور چینی جارحیت نے تعلقات کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں بھارت کو کئی سال تک ہزاروں فوجیوں کو ہمالیہ کی چوٹیوں پر تعینات رکھنا پڑا۔بعد میں مودی نے امریکا سے تعلقات کو تیزی سے آگے بڑھانے پر زور دیا اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، حتیٰ کہ 2019 میں ہیوسٹن میں ان کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا۔ تعلقات بائیڈن حکومت میں بھی بہتر ہوئے، مگر ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں اچانک بگڑ گئے۔ٹرمپ نے روس سے تیل خریدنے پر بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، بھارت کی معیشت کو "مردہ" قرار دیا، اور پاکستان کو بھارت کے برابر لا کھڑا کیا — جس سے بھارت میں سخت ناراضی پھیلی۔اب بھارت بیجنگ کے ساتھ دوبارہ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن سرحدی تنازع اور چین کی پاکستان کو حالیہ فوجی حمایت رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس دوران مودی روس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات پر زور دے رہے ہیں اور صدر ولادیمیر پوتن کے دورۂ بھارت کی تیاری کر رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے بھارت کو ایک بار پھر اپنی "اسٹریٹیجک خود مختاری" کی پالیسی پر واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے، یعنی کسی ایک بلاک پر انحصار نہ کرنا اور متوازن تعلقات رکھنا۔نروپما راؤ، جو بیجنگ اور واشنگٹن میں سابق بھارتی سفیر رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات نے دو دہائیوں سے زیادہ وقت میں بنائے گئے ایک اہم تعلقات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔مودی کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں، ماہی گیروں اور ڈیری کسانوں کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، چاہے انہیں ذاتی سیاسی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مودی اور ٹرمپ دونوں کی ذاتی انا اور ذاتی اندازِ قیادت نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو شخصیات کے درمیان معاملہ بنا دیا ہے، اور یہی اس کشیدگی کی اصل قیمت ہے جو بھارت کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔