گوادر، پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع صوبہ بلوچستان کا ایک قدیم شہر ہے، جو اپنے شان دار محلِ وقوع اور زیرِ تعمیر جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر بھی معروف ہے۔ شہر کا نام ’’گوادر‘‘ بلوچی زبان کے دو الفاظ ’’گوات اور دَر‘‘ سے بنا ہے، جس کے معنی ’’ہوا کا دروازہ‘‘ ہے، جو بگڑ کر ’’گوادر‘‘ بن گیا۔ 60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹّی پر واقع شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے، اس کی اہمیت روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے، کیوں کہ آنے والے وقت میں پاکستان سمیت چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔ گوادر کے بارے میں بلوچستان کی ایک معتبر سیاسی شخصیت نے کہا تھا کہ ’’یہ وہ غریب دوشیزہ ہے، جس پر ہر ایک کی نظر ہے۔‘‘ بلاشبہ، تاریخی لحاظ سے گوادر کی اہمیت مسلّم ہے۔ ماضی کے اس قدیم ساحلی شہر کو اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے، تو آج ہر طرف گوادر کو ترقی دینے کی باتیں ہورہی ہیں۔ سی پیک، گوادر پورٹ کے ذریعے دنیا سے تجارت کے راستے کھلنے کی نوید سنائی جا رہی ہے، لیکن اکثر لوگ اس کے اصل محسن، ملک فیروز نون خان سے ناواقف ہیں، جنہوں نے گوادر کو پاکستان کاحصّہ بنوایا۔ آئیے اس حوالے سے ذرا ماضی میں جھانک کر دیکھیں کہ ملک میں ترقی و کام رانی اور خوش حالی کا باعث بننے والے اس تاریخی خطّے کی گزشتہ ادوار میں کیا حیثیت تھی، اسے کب کس نے اپنی ذاتی اغراض کے لیے تاراج کیا اور کب سے وہ بیرونی قوّتوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔
اس علاقے کو کسی زمانے میں وادئ کلانچ اور وادئ دشت کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اگرچہ اس کا وسیع رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔ تاہم، اپنی افادیت اور جداگانہ حیثیت کے باعث مکران کی تاریخ میں یہ ہمیشہ ہی سے خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ معلوم تاریخ کی ایک روایت کے مطابق، حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا، تو وادئ سینا سے بہت سے افراد کوچ کرکے اس علاقے میں آباد ہوگئےتھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ325قبلِ مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جارہا تھا، تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا، اس کی بحری فوج کے سپہ سالار Admiral Nearchos نے اپنے جہاز یہیں لنگر انداز کیے اور اپنی یادداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات، گوادر، پشوکان اور چابہار کے ناموں سے لکھا۔پھر 711ء میں محمد بن قاسم نے بھی یہ علاقہ فتح کیا، جب کہ 16ویں صدی میں پرتگیزیوں کا مکران کے متعدد علاقوں پر قبضہ رہا۔ علاوہ ازیں، یہ خطّہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختۂ مشق بنا رہا، کبھی یہاں بلیدی حکمران رہے، تو کبھی رندوں کو حکومت ملی، کبھی مَلک حکمران بنے، تو کبھی گچکیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔1740ء تک بلیدی اور گچکیوں کے مابین حکمرانی کے لیے چپقلش جاری رہی۔ اسی دوران خان آف قلّات، میر نصیر خان اوّل نے ان پر چڑھائی کردی۔بعدازاں، 1775ء کے قریب مسقط کے حکمرانوں نے یہ علاقہ مستعار لےکر، گوادر کی بندر گاہ وسط ایشیا کے ممالک سے تجارت کےلیے استعمال کرنا شروع کردی۔
1492ء میں کرسٹوفر کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کی خبر، جب پرتگال کے بادشاہ تک پہنچی، تو اس کے دل میں بھی ایسا ہی کارنامہ انجام دینے کا جذبہ بے دار ہوا۔ اس نے کافی سوچ بچار کے بعد ہندوستان کے سمندری راستے کی کھوج لگانے کا فیصلہ کیا اور چار بحری جہازوں پر مشتمل ایک بیڑا تیار کروایا، سب سے بڑے بحری جہاز ’’سان جبریل ‘‘میں واسکوڈی گاما کو مہم کا لیڈر اور بیڑے کا امیر البحر مقرر کیا اور بالآخر طویل سفر، بے حد کٹھن اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کے بعد وہ ہندوستان پہنچنے کا سمندری راستہ دریافت کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ جس کے بعد ہی سے اہلِ یورپ پر ہندوستان کے دروازے وَا ہوئے۔بلوچستان کی ساحل پر، پرتگالیوں کی آمد کاذکر قدیم بلوچی رزمیہ شاعری میں بھی ملتا ہے۔ بلوچستان کے معروف محقّق و تاریخ دان، میر گل خان نصیر اپنی کتاب ’’بلوچی رزمیہ شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ حمل کے بارے میں رزمیہ نظم، جو حمل جئیند اور پرتگیزوں کے درمیان اس جنگ سے متعلق ہے، جس میں حمل جئیند شکست کھا کر پرتگیزوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے۔ یہ نظم اس دَور کی ہے، جب پرتگیزی بحری قزّاق، بحرِہند میں ڈاکے ڈالا کرتے تھے۔ متعدد بار خلیج فارس میں ساحلِ بلوچستان کی بندرگاہیں ان کی لوٹ مار کی آماج گاہ بنیں۔ حمل جئیند کی یہ نظم، دوسری بلوچی رزمیہ نظموں سے صرف اس لیے ممتاز نہیں کہ ہلو ہالو کی بحر میں ہے، بلکہ یہ ایک بلوچ خاتون کی تصنیف ہے اور اس میں قوم و وطن سے محبت کے بھرپور اظہار کے ساتھ بلوچ معاشرے کی برتری اور ملّی عصبیت کی واضح نشان دہی کی گئی ہے۔ اگرچہ میر حمل جیسے جوان مردوں اور اپنے وطن کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے بلوچوں کی شجاعت اور دلیری کی وجہ سے پرتگیزی، بلوچستان کی سرزمین پر اپنے قدم جمانے میں کام یاب نہ ہوسکے۔ تاہم، وہ بحرِہند کے کنارے، ایسٹ افریقا کے متعدد خطّوں سمیت ہندوستان کے علاقوں گووا اور پانڈیچری تک اپنے تجارتی اور مذہبی مفادات کو وسعت دینے میں کام یاب رہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پرتگیزی، پرتگال کی حکومت سے زیادہ مسیحیت کے وفادار تھے۔ وہ ڈنڈے کے زور اپنا مذہب نافذ کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہیں ایسٹ افریقا اور مکران کے ساحل پر مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مقابلے میں برطانیہ کے انگریزوں نے اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات سے قطع نظر مقامی لوگوں پر زبردستی اپنا مذہب ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی، اس لیے انہیں پرتگیزوں کے مقابلے میں اپنا نوآبادیاتی تسلّط قائم کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔
ماضی قریب کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ 14اگست 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کے بعد والئ قلّات کی جانب سے بلوچستان کے دیگر حصّوں کو، جو خان آف قلّات کی عمل داری میں تھے، پاکستان میں شامل کرنے کے واضح اعلان کے باوجود گوادر دس سال تک سلطنت اومان کا حصّہ رہا۔ پاکستان کے جنوب مغربی ساحل اور آبنائے ہرمز کے دہانے پر واقع اس بندر گاہ کو حکومتِ پاکستان نے 8ستمبر 1958ء کو مسقط سے خریدا اور گوادر، 8دسمبر 1958ء کو سرکاری طور پر پاکستان کا حصّہ بنا۔ یکم جولائی 1977ء کو اسے ضلعے کا درجہ دیا گیا اور بعدازاں 2011ء میں بلوچستان کا سرمائی دارالحکومت بنادیا گیا۔
واضح رہے کہ گوادر اسٹیٹ، اٹھارہویں صدی کے، خان آف قلّات، میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت تھی، لیکن گچکی قبائل کی شورشوں کے باعث خان آف قلّات کے لیے اس علاقے پر اپنا تسلّط قائم رکھنا کافی مشکل ثابت ہورہا تھا،لہٰذاخان صاحب نے ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کا کنٹرول گچکی قبیلے ہی کے ہاتھ میں دے دیا، تاکہ اس علاقے میں امن و امان کی فضا قائم رہے۔ معاہدے کے تحت طے پایا کہ ’’گوادر کا مذکورہ علاقہ خان آف قلّات کی جاگیر ہی میں شامل رہے گا اور اس کا نصف ریوینو بھی خان صاحب کو دیا جائے گا۔ تاہم، اس کا انتظام گچکی قبیلہ سنبھالے گا۔‘‘ لیکن پھر1783ء میں اومان کا حکمران اپنے بھائی سے شکست کھا کر جب دربدر ہوا، تو اس نے خان آف قلّات سے جائے پناہ کی درخواست کی،اس طرح پھرایک نئے معاہدے کے تحت 2400 مربع میل کا علاقہ سلطان آف اومان کو سونپ دیا گیا۔نئے معاہدے کی رُو سے یہ طے پایاکہ ’’گوادر حسبِ دستور خان آف قلّات کی جاگیر میں شامل رہے گا،جب کہ اس کا کنٹرول حسبِ سابق گچکی سرداروں کے پاس ہی رہے گا، البتہ ریوینیو کانصف حصّہ، جو خان صاحب کو جاتا تھا،وہ خیر سگالی کے طور پر سلطان آف اومان کو دیا جائے گا۔‘‘ پھرقریباً پندرہ سال بعد اومان پر دوبارہ فتح پانے کے بعد سلطان واپس اپنے پایۂ تخت لوٹ گیا، لیکن گوادر کو حسبِ معمول اس نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا۔ کچھ عرصے بعد جب سلطان کا انتقال ہوگیا، تو خان صاحب کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ حکومتِ اومان کے انکار پر انہوں نے بزورِ قوت قبضہ کرلیا ،بالآخراس قضیے کو نمٹانے کے لیے برٹش کالونیل ایڈمنسٹریشن نے ثالثی کے بہانے مداخلت کی، اور اس وقت کے سلطان آف اومان سے اپنے لیے مراعات حاصل کرکے قلات خاندان کا دعویٰ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ بعض دیگر گواہوں کے مطابق یہ علاقہ عرصۂ دراز سے سلطنتِ آف اومان کی جاگیر ہے۔ بہرحال، حتمی فیصلہ کسی بھی فریق کے حق میں نہیں ہوا۔ بعدازاں، برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نے سلطنت اومان سے ایک معاہدے کے تحت گوادر کا انتظام سنبھال کر اپنی افواج گوادر میں داخل کردیں۔ یوں تقریباً سوا سو سال تک برطانیہ اس علاقے پر قابض رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس وقت کے خان آف قلّات نے اپنی ریاست پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیا، تو پاکستان نے گوادر کا معاملہ اٹھایا، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ان ہی دنوں ایک امریکی سروے میں بتایا گیا کہ گوادر کی بندرگاہ بڑے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کے لیے آئیڈیل ہے۔ مزید برآں، اس بندرگاہ سے سالانہ لاکھوں ٹن سمندری خوراک بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔جب اس بات کی بھنک ایران کو پڑی، تو اس نے گوادر کو چابہار کے ساتھ ملانے کی سازشیں شروع کردیں۔ ایران میں ان دنوں شاہ ایران کاطوطی بولتا تھا اور سی آئی اے اس کی پشت پر تھی۔ اسی پس منظر میں 1956 میں پاکستان کے معروف سیاست دان، ملک فیروز خان نون نے وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالتے ہی ہر قیمت پر گوادر کو واگزار کروانے کا عہد کیا اور باریک بینی سے تمام تاریخی حقائق و اہم دستاویزات کا جائزہ لے کر یہ کیس برطانیہ کے سامنے رکھ دیا۔ اس معاملے میں برطانیہ کے وزیراعظم میکملن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی مداخلت پر اومان کے سلطان، سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی، مگر سودے بازی کا عندیہ دیا۔ پھر فیروز خان نون نے جب وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا، تو انہوں نے گوادر کے معاملے میں ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ لگایااور بالآخرچھے ماہ کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد اومان نے تین ملین ڈالر کے عوض گوادر کا قبضہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ مذکورہ رقم کا بڑا حصّہ پرنس کریم آغا خان نے بہ طور چندہ دیا، جب کہ باقی رقم حکومتِ پاکستان نے ادا کی۔
اس سلسلے میں ملک فیروز خان نون اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’چشمِ دید‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو، وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی۔ ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں ادا ہوجائے گی۔ آج جب برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر، اکرام اللہ نے گوادر منتقلی کی دستخط شد ہ دستاویز ہمارے حوالے کیں، تو اس وقت ہمیں جو خوشی ہوئی، آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا، تب تک ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا، گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہ رہے ہیں، جس کا عقبی کمرا کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کرسکتا ہے اور وہ دشمن بھی اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کرسکتا ہے۔‘‘یوں دو سال کی بھرپور سفارتی جنگ کے بعدبالآخر 8 ستمبر 1958ء کو گوادر کا 2400 مربع میل یعنی 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہوگیا۔
سن 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے گوادر پورٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا، جو مختلف مراحل سے گزرتا اب سی پیک (چین، پاکستان اقتصادی راہ داری)کی شکل اختیار کرچکا ہے، بلاشبہ یہ پاکستان کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ آج ہر کوئی گوادر پورٹ اور سی پیک کا کریڈٹ تو لینا چاہتا ہے، مگر اس عظیم محسن کا نام کوئی نہیں لیتا، جس نے دنیا کے چار طاقت ور اسٹیک ہولڈرز، برطانوی پارلیمنٹ، سی آئی اے، ایران اور اومان سے چومکھی لڑ کے کھویا ہوا گوادر واپس پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا۔ گوادر اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ یہاں گہرے پانی کی بندر گاہ کی تعمیر ہوچکی ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کے شہر، کاشغر سے گوادر تک اقتصادی راہ داری کی بات ہورہی ہے۔ آئندہ برسوں میں گوادرایک بڑا صنعتی اور تجارتی حب بننے والاہے۔ کچھ ممالک اس کے حق میں اور کچھ مخالفت میں ہیں۔ بڑی سازشوں کی گونج سنائی دے رہی ہے، لیکن عمومی طور پر اس منصوبے سے خوش آئند توقعات ہی وابستہ ہیں، خصوصاً ملک کا اِک اِک فرد تو ’’غریب دوشیزہ‘‘ کے اچھے نصیب، بہترین مستقبل ہی کے لیے دعا گو ہے۔