کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی لارجربنچ نے شہرکے پارکوں ،کھیل کے میدانوں اورفٹ پاتھوں سمیت ندی نالوں سے تجاوزات کیخلاف آپریشن جاری رکھنے کاحکم دیا ہے۔ جبکہ رہائشی اور کاروباری مقامات پر تجاوزات گرانے سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا، لوگ احتجاج کریں تو کیا ریاست کی رٹ ختم کر دیں،پھر بتارہاہوں ملک میں صرف قانون کی حکمرانی ہوگی کسی بھی تجاوزات یا کیبن پتھارے کو تحفظ نہیں دیا جائیگا، کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو واضح انداز میں خبردار کیا ہےکہ وہ اپنے وزراء کو آگاہ کردے کہ انکی کوئی بھی غیر قانونی پراپرٹی سامنے آئی تو سب سے پہلے اسے مسمار کرکے مثال بنائینگے جبکہ شہربھر کی تجاوزات کیخلاف آپریشن سےمتعلق وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت میئرکراچی سے مشترکہ منصوبہ بندی آج صبح ساڑھے آٹھ بجے طلب کرلی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ٹپی کہاں ہے؟ انہیں بدھ کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ٹپی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔میئرکراچی سےبن قاسم پارک اور نہرخیام پر تجاوزات کیخلاف بھی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ شاہ لطیف ٹاؤن میں قبضوں کیخلاف پی پی رہنما اویس مظفر عرف ٹپی کو بھی آج طلب کر لیا ہے۔منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی پارکوں پر قبضے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے سماعت کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے تجاوزات آپریشن کیخلاف نظر ثانی اپیل پر ایک ساتھ سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین اور میئر کراچی وسیم اختر عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے 26؍ اکتوبر کاجاری کردہ عدالتی حکم ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایاکہ لوگوں کا گزر بسر ہے دن بھر مزدوری کرتے ہیں رات کو اپنے بچوں کے ساتھ سوتےہیں حکومت سندھ لوگوں کو جلد از جلد آباد کرنا چاہتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے دلائل پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت ایمپریس مارکیٹ کے ایشو کو ماڈل ایشو بنانا چاہتی ہے کیا ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات ختم کردی گئی ہیں؟ اس پراٹارنی جنرل، ایڈوو کیٹ جنرل سندھ اور میئر کراچی وسیم اختر نے بتایاکہ ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات ختم کرادی گئی ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میںکہاکہ ہم نے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیامتبادل کا مسئلہ عدالت کا نہیں حکومت کا ہے اورہم نے متبادل کے فراہم کرنے سے کبھی منع نہیں کیا اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے ناکہ وہ دوبارہ تجاوزات کرلیں اب آگے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، ایمپریس مارکیٹ سے متعلق مئیر کراچی نے خود کہا تھا کہ پہلے یہاں سے تجاوزات ختم کرائینگےہم نے ماڈل کے طور پر ایمپریس مارکیٹ اوراسکے اطراف سےتجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا اب متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ فٹ پاتھ اور سڑکیں کلیئر کرانے کا حکم واضح تھا جس میں یہ الفاظ تحریر ہیں کہ لااینڈ آرڈر کا مسئلہ نہ بنایاجائےگورنر سندھ نے فون کرکے کہاکہ لااینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی رٹ ختم کردیں اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑدیں؟ یہاں سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہےآج عدالت آپ کی مدد کرنا چاہتی ہے تو آپ معذرت کررہے ہیں،جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ عدالت کا حکم ایمپریس مارکیٹ کا تھا لیکن کے ایم سی بہت آگے نکل گئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کارکردگی پر تو وسیم اختر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے میئر کراچی وسیم اختر نے اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگا کر کارروائی کی ہے تو اس میں وفاقی و صوبائی حکومت کو کیا پریشانی ہے۔ اس دوران میئرکراچی وسیم اختر نے بھی کہاکہ کسی گھر کومسمار نہیں کیاگیااوروہ خود اس کیخلاف ہیں کہ کسی شہری کے گھر کو مسمار کیاجائے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل انورمنصور خان نے کہا کہ کشمیر روڈ سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا جہاں مختلف تجاوزات قائم کردی گئی تھیں 35ہزار پلاٹس پر قبضے سے متعلق کے ڈی اے ڈائریکٹر نے رپورٹ جمع کرادی تھی، عدالت نے ڈائریکٹر کے ڈی اے کو ابتدائی رپورٹ 2ماہ میں دینے کا حکم دیا تھا اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا ان میں زیادہ تر گھر ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ سیاسی مفادات آگئے ہیںہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے، اب اگر یہ کام روکا تو کل کو یہی لوگ ایمپریس مارکیٹ میں دوبارہ آجائیں گے اس طرح آپ فلاحی اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نےمزید ریمارکس دیئے کہ وسیم اخترنے اپنا سیاسی مستقبل داؤپر لگاکر کام کیا وہ اپنے ووٹرز کے سامنے کھڑے ہیں ہم اس ملک میں قانون کے حکمرانی چاہتے ہیںاگر کوئی منصوبہ بنانا ہے تو مل کر بنا لیں۔ہم تجاوزات کے خاتمے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف اختیارکیا کہ مئیر کراچی نے بحالی کا پلان نہیں بنایا ہوا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئےکہاکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اگر آپ سمجھتے ہیں ہم یہ روک دیں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میئرصاحب بہت اسپیڈ سے تجاوزات مسمار کیے جارہے ہیںجس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو تو پھر اسے سراہنا چاہیے میئرکراچی کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرکے آئیں ہم جائزہ لینگے۔ جسٹس فیصل عرب نے وسیم اخترکومخاطب کرتےہوئے کہاکہ آپریشن سے متعلق آپ اپنی رپورٹ بھی لیکرآئیں۔اس دوران بیرسٹرفیصل صدیقی پیش ہوئے اورانہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 1970 میں نیشنل میوزیم برنس گارڈن قائم ہوا جس میں قیمتی نوادرات موجود ہیں اب کے ایم سی کی جانب سے نوٹس موصول ہوگیا ہے اگر اسے ہٹایا گیا تو نقصان کا اندیشہ ہے۔چیف جسٹس نے حکم دیاکہ قومی عجائب گھر کی عمارت کو نہ گرایا جائے البتہ گارڈن میں نیشنل میوزیم کے سوا دیگر نئی تعمیرات ختم کردی جائیں۔ اس دوران شاہ لطیف ٹاؤن کے رہائشی نے چیف جسٹس کے سامنے شکایت کی کہ آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی ٹپی نے شاہ لطیف ٹاؤن میں بیوہ خواتین کے پلاٹس پر قبضہ کررکھاہے اسکے علاوہ بھی سرکاری اراضی پر قبضے کررکھے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ آئی جی سندھ کہاں ہیں اورکہاں ہے ٹپی؟ عدالت کے سامنے ایڈیشنل آئی جی لیگل پیش ہوئے اور چیف جسٹس نے انہیں حکم دیاکہ بدھ کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ٹپی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔