انٹرویو: رابعہ شیخ، لیاقت علی جتوئی
جنگ: میکلے پرائیوٹ لمیٹڈ (کرنٹ کاسمیٹکس) کی بنیاد کب رکھی گئی؟ اس کا تعارف اور اس کے پیچھے کیا سوچ کار فرما تھی؟
عماد عثمان:میکلے پرائیوٹ لمیٹڈ (کرنٹ کاسمیٹکس)کی بنیاد 2004ء میں رکھی گئی۔ ابتداء چھوٹےسےسیٹ اَپ کے ساتھ ہوئی، تاہم شروع سے ہی جدّت (Innovation) اور ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ(تحقیق وترقی) پر ہماری خصوصی توجہ تھی۔ یہی وجہ ہےکہ چند برسوںمیںہی ہم اپنے پراڈکٹس کوپورے پاکستان تک لے گئے اورکئی کیٹیگریز میں نئے پراڈکٹس کو بھی لانچ کیا۔
ہماری پراڈکٹس میںکرنٹ بیوٹی کریم، وائٹ ٹوٹل بیوٹی کریم، فیس کنٹرول بیوٹی کریم، کرنٹ وائٹننگ بیوٹی سوپ، کرنٹ وائٹننگ گلوٹا تھائیون سوپ، کرنٹ وائٹننگ فیئرنس کریم، کرنٹ وائٹننگ فیس واش، کرنٹ وائٹننگ کولڈکریم، کرنٹ بی بی کریم، کرنٹ ہیئر ریمونگ کریم، کرنٹ وائٹننگ باڈی لوشن، کرنٹ شیمپو اور کرنٹ کنڈیشنر نمایاں ہیں۔ ہم اپنی فیلڈکی واحدپاکستانی کمپنی ہیں، جس کاپراڈکٹ پورٹ فولیواتناوسیع ہے۔ میکلے پرائیوٹ لمیٹڈ (کرنٹ کاسمیٹکس) کی بنیاد کا واحد مقصد ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنا تھا، ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔
جنگ: پاکستان کی کاسمیٹکس انڈسٹری کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟
عماد عثمان:پاکستان میں90فیصدکاسمیٹکس درآمدکی جاتی ہیں۔ ہمارا درآمدات پر انحصار بہت زیادہ ہے، جس کےباعث ہرسال ملک کاقیمتی زرمبادلہ ضائع ہوجاتا ہے۔ کاسمیٹکس میںہم پاکستان کی واحد کمپنی ہیں، جو ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں بڑے پیمانے پرکام کررہے ہیں اور ہم اپنی بین الاقوامی معیارکی پیکیجنگ اورپراڈکٹس کی کوالٹی کےذریعےکاسمیٹکس انڈسٹری میں’میڈاِن پاکستان‘ کوترقی دینےکی سنجیدہ کوششیںکررہےہیں۔
جنگ:یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ یہ بتائیےآپ ابھی ایک نئی کمپنی ہیں۔ مختصر سے عرصےمیںآپ دنیاکےکن ملکوں میں خود کو منوا چکے ہیں،جہاںآپ کےپراڈکٹس کوپسندکیاجاتا ہو۔ کچھ اس پرروشنی ڈالیں؟
عماد عثمان:ہم ایکسپورٹ مارکیٹ میںتیزی سےجگہ بنارہے ہیں۔ ہم متحدہ عرب امارات، عمان، سری لنکا اور افریقی منڈیوں میں موجودہیں، جہاں ہمارےپراڈکٹس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت ہم سعودی عرب میں بھی محدودپیمانےپراپنے پراڈکٹس بھیج رہےہیں۔
جنگ:آپ خام مال کہاںسےحاصل کرتے ہیں؟
عماد عثمان: بہت ہی اہم سوال ہےآپ کا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اور اس کی کوئی بھی انڈسٹری اس وقت تک ترقی نہیںکرسکتی، جب تک خام مال ملک میںنہ بنایاجائے۔ ہم کب تک خام مال غیر ممالک سےدرآمد (امپورٹ) کرتےرہیںگے۔ کیمیکلزکی زیادہ تردرآمدات غیرممالک سےکی جاتی ہیں۔
جنگ:کیایہ خام مال پاکستان میں بنایا جاسکتا ہے؟
عماد عثمان:بالکل کیوںنہیںبنایاجاسکتا۔ کاسمیٹکس اورپرسنل کیئر پراڈکٹس کےخام مال کا90فیصد دارومدار پام آئل پر ہے۔ اس کےعلاوہ گھی، پکوان تیل، ٹافیاں، آئسکریم، مارجرین، چاکلیٹ، دوائیاں اور جانوروں کے چارہ سےلےکرروزمرہ کےاستعمال کی کم ازکم آدھی اشیاء کےخام مال کا دارومدار پام آئل پر ہے۔ علاوہ ازیں، پام آئل سے بائیو ڈیزل حاصل ہوتا ہےجوکہ پیٹرول کامتبادل ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسےترقی یافتہ ممالک کی معیشت کا مکمل دارومدار پام آئل پرہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا نے اپنی پام آئل کی پیداوارکا 50 فیصدحصہ بائیو ڈیزل بنانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، جسے وہ پیٹرول کےمتبادل کی حیثیت سے استعمال میںلارہے ہیں اور دنیاکے کئی ممالک کو فروخت بھی کر رہے ہیں، جس کی بناپرنہ صرف وہ اپنے قیمتی ذرمبادلہ کو ضائع ہونےسےبچا رہےہیںبلکہ ایک قدم آگےبڑھ کر مزید ذرمبادلہ کے ذخائر بھی پیدا کررہے ہیں۔
پام آئل، پام فروٹ سےحاصل ہوتاہے جوکہ پام کے درخت پر اُگتا ہے۔ حکومت کی درخت لگاؤ مہم بلاشبہ خوش آئند ہے لیکن اس کو ڈائریکشن دینےکی ضرورت ہے۔ حکومت اگر اپنی درخت لگاؤ مہم کو ’پام کے درخت لگاؤ مہم‘ میں تبدیل کردےتو پاکستان کی معیشت میں انقلاب آسکتا ہے۔ ہمارا معاشی خسارہ سالانہ 30 سے40ارب ڈالر ہے جوکہ صرف پام کے درخت کی کاشتکاری سےہی پوراہو جائے گا۔
جنگ:حکومت مقامی کاسمیٹکس اورپرسنل کیئرانڈسٹری کوترقی دینے میں کتنی سنجیدہ ہے؟
عماد عثمان:اس سوال کاجواب میں آپ کو ایک مثال سےدیناچاہوںگا، جو پراڈکٹس ہم بناتےہیںاس میںصابن ایک ایسی پراڈکٹ ہےجس کاشمار بنیادی ضروریات زندگی میں سےکیا جاسکتا ہے۔ غریب، امیر، بوڑھا، بچہ، جوان، ہر ایک نےصابن کو استعمال کرنا ہی ہوتا ہے۔میکلے پرائیوٹ لمیٹڈ (کرنٹ کاسمیٹکس) اپنی روایت کو قائم رکھتےہوئے جانوروں کی چربی اور ان کےفضلات سے صابن نہیں بناتا بلکہ خالص ریفائنڈ پام آئل کے ”سوپ بیس“ سےمعیاری صابن بناتا ہے۔ ”سوپ بیس“ جوکہ صابن جیسی بنیادی پراڈکٹ کا خام مال ہے، گزشتہ حکومت نے اپنی حکومت کے آخری سال میں اس پر ویلیوئیشن رولنگ اور ریگولیٹری ڈیوٹی وکسٹمز ڈیوٹی اس حد تک بڑھادی کہ ہمیں ”سوپ بیس“ کی درآمد میں150سے200فیصد تک ٹیکس اور ڈیوٹی کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہا ہے یعنی 60روپےکلوکا ”سوپ بیس“ ہمیں پاکستان میں لاکر 150 روپے سے لے کر 180 روپےکا پڑرہا ہے۔ یہی حال اور دوسری اشیاء کےخام مال کی درآمد پر بھی ہے۔ نئی حکومت اپنی معاشی پالیسیوں میں قدرےسنجیدہ نظر آتی ہے اور ہر پاکستانی کی طرح مقامی کاسمیٹکس اور پرسنل کیئر انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو بھی نئی حکومت سے کئی امیدیں وابستہ ہیں۔ میں نئی حکومت سے گزشتہ حکومت کی جانب سے لاگو کردہ ہماری انڈسٹری کے ہر خام مال پر بےجا ”ویلیوئیشن رولنگ“ اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو ہٹانے اور کسٹمز ڈیوٹی کے نرخوں پر کمی کرنے کی درخواست کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ نئی حکومت کے اس احسن قدم سے کاسمیٹکس اور پرسنل کیئر انڈسٹری ترقی کرےگی، نئےلوگ اس انڈسٹری میں دلچسپی لیں گے اور مزید روزگار کےمواقع پیدا ہوں گے۔