میں نے رواں ہفتے کالم لکھنے کا جب ارادہ کیا تو تین اہم ترین موضوعات میرے سامنے تھے جن پر بطور محب وطن پاکستانی شہری اپنا حقِ رائے استعمال کرنا میں اپنا قومی و مذہبی فریضہ سمجھتا ہوں، اول امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مذہبی اقلیتی آزادیوں کی عدم فراہمی کی بناء پر بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی اطلاعات، دوئم مذہب کے نام پر شراب کے گھناؤنے کاروبار کے سدباب کیلئے قانون سازی میں رکاوٹ اور نمبر تین عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کا دورہ تھرپارکر۔ میں نے نہایت غوروفکر کے بعد چیف جسٹس صاحب کے دورہ تھرپارکر کو قلمبند کرنے کو ترجیح دی، مجھے فخر ہے کہ گزشتہ روز جب تھرپارکرکے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی تھی، میں بھی جناب چیف جسٹس صاحب کے ساتھ قدم بقدم موجود تھا، اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی ایم شیخ، رجسٹرار سپریم کورٹ رجسٹری ارباب شہزادبھی ہمراہ تھے۔تھرپارکر پاکستان کاوہ بدقسمت ترین آفت زدہ علاقہ ہے جہاں آزادی کے ستر سال بعدبھی غربت و افلاس، بھوک پیاس اور موذی امراض کا راج ہے، جہاں ننھے منے نومولود بچے دنیا کی رنگینیاں دیکھے بغیر والدین کی بانہوں میں دم توڑ دیتے ہیں، غذائی قلت اور علاج معالجہ کی عدم دستابی کی وجہ سے زچہ بچہ کی اموات کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے،آج کے ترقی یافتہ دور میں تھرپارکر ایک ایسا خطہ ہے جہاں کے باسیوں کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد صاف پانی کا حصول بن کر رہ گیاہے، رنگارنگ ثقافتی ورثہ کا حامل تھرپارکر جہاں کبھی ماروی کی مسحور آواز گونجا کرتی تھی آج حکمرانوں کی بے حسی کی بدولت موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس 77تھرباسی ناسازگار حالات کی بناء پر خودکشی کرچکے ہیں، معاشی تنگ دستی نے عوام کو فریسٹریشن جیسے ذہنی امراض بھی لاحق کردیئے ہیں،سڑکوں پر قدم قدم پر بے زبان جانوروں کے مردہ ڈھانچے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ صوبہ سندھ پرحکومت کرتے ایک سیاسی جماعت کو طویل عرصہ بیت گیا لیکن اس بدقسمت خطہ ارض کے رستے زخموں پرنہ کبھی مرہم رکھا گیااور نہ ہی کسی کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے دیا گیا؟میرا اپنا تعلق تھرپارکر سے ہے اوریہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جب بھی کسی نے تھرباسیوں کی تکلیف دہ آوازاربابِ اختیار تک پہنچانے کی کوشش کی گئی،دوسری طرف سے ہمیشہ جھوٹے اورگمراہ کُن دعویٰ کرکے سب اچھا کی رپورٹ پیش کی گئی ۔ہمارے بڑے کہا کرتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے اور خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، یہ کہاوت موجودہ دور میں ایک بار پھر صحیح ثابت ہوئی جب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھر میں معصوم بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر نوٹس لیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق امسال پانچ سو سے زائد بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ہماری عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس صاحب نے ہمیشہ اپنے فیصلوں سے اپنے آپ کو پاکستان کا چیف جسٹس ثابت کیا، موبائل فون سروس پر ٹیکس وصولی کا معاملہ ہو یا غیرمسلم اقلیتی برادری کی جائیداد کی دیکھ بھال کیلئے متروکہ وقف املاک بورڈ میں بے ضابطگیوں کی شکایات، ہمیشہ مظلوم عوام کواعلیٰ عدلیہ سے ہی ریلیف ملا۔ میں نے انسانیت کے ناطے سپریم کورٹ کے روبرو مظلوم تھرباسیوں کی آواز پہنچانے کیلئے ہر پیشی پر اپنی حاضری یقینی بنائی، میںنے محدود وسائل کے باوجود اعلیٰ عدلیہ کو تھرپارکر سے متعلق زمینی حقائق پیش کرنے کی ہرممکن کوشش کی، دوسری طرف صوبائی حکومتی نمائندوں کی جانب سے کمالِ ڈھٹائی سے تھرپارکی کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھانے کے بے بنیاد دعویٰ کئے جاتے رہے، چیف سیکرٹر ی سندھ کی تازہ پیش کردہ رپورٹ میں تھر باسیوںکی بہتری کیلئے خوراک کی تقسیم اور کمیٹیوں کے قیام پر زور دیا گیا، رپورٹ میں یہ ضرور بتایا گیا کہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے تھرپارکر میں ڈاکٹرز کی تمام خالی اسامیاں بھر لی ہیں اور جوائن نہ کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کو ڈسپلن کی وجوہات پر وضاحت طلب کرلی ہے لیکن دیگراہم حقائق سے چشم پوشی کی گئی،چیف سیکرٹری کی رپورٹ کے مطابق سندھ انتظامیہ نے سول سوسائٹی کے اشتراک سے وسط اکتوبر میں میڈیکل کیمپ لگایاجس میں لگ بھگ 81ہزار مریض شریک ہوئے، میرے لئے حیران کُن بات یہ ہے کہ یہ میڈیکل کیمپ لگانے کا مقصد مریضوں کا علاج معالجہ نہیں بلکہ ایمرجنسی کی نوعیت جاننا اور خواتین کی صحت کے بارے میں جانکاری بتایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرایسے نمائشی اور کاغذی اقدامات کی بجائے تھرپارکر کے مسائل سنجیدگی سے لئے جاتے تو آج تھرپارکرغربت و افلاس، بھوک پیاس اور موذی امراض کا یوں شکارنہ ہوتا، یہی وجہ ہے کہ معزز چیف جسٹس کو تباہ حال علاقے کی حقیقی صورتحال جاننے کیلئے تھرپارکرکے دورے کا اعلان کرنا پڑا، اس اقدام نے تھرباسیوں کے دلوں میں ایک طویل مدت کے بعد امید کی کرن جگا دی تو دوسری طرف انتظامیہ نے روائتی پھرتیاں دکھانی شروع کردیں۔مجھے میڈیا نمائندگان نے بتایا کہ چیف جسٹس صاحب کی تھر آمد کا سنتے ہی صوبائی حکومت نے مقامی اسپتالوں کی تزئین و آرائش پر مبینہ طور لاکھوں روپے لگا دیئے، ٹوٹے ہوئے بستر وں کو جلدبازی میں غائب کیا گیا، بجلی کا نظام فعال کیا گیا، طبی آلات ہنگامی طور پر خریدے گئے، استقبال کیلئے جگہ جگہ پھولوں کے گملے سجادیئے گئے، فائر برگیڈ گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال کی دیواروں اور سائن بورڈزکو دھویا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ چیف جسٹس صاحب کو تسلی بخش جوابات دینے کیلئے ڈاکٹرز کی خصوصی ٹیم بھی تشکیل دیدی گئی جبکہ مریضوں کی دیکھ بھال کا فریضہ ادھورا چھوڑ دیا گیا، ہسپتال میں جابجا پھولوں کے گملوں کی موجودگی سوالیہ نشان تھی کہ ایسے وقت جب تھر کے 14 لاکھ انسانوں سمیت 80 لاکھ مویشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، یہ پھول اپنی تروتازگی برقرار رکھنے کیلئے کہاں سے پانی حاصل کررہے ہیں۔میں نے سول اسپتال مِٹھی میںتوجہ دلائی کہ یہاں سرے سے ایمرجنسی وارڈ کا سیٹ اپ ہی موجود نہیں، اس موقع پر خودچیف جسٹس صاحب نے ناراضگی کا اظہارکیاکہ خدا نخواستہ یہاں کوئی بڑا واقعہ ہوجائے تو پھر کیا ہوگا، مقامی ہسپتال میں کوئی دوائی موجود نہ تھی، گزشتہ6 مہینے سے سندھ حکومت ٹینڈر فائنل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔مریضوں کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کے نام پر انتظامیہ نے مریضوں اور لواحقین کو پریشان کرنے کی کوشش کی، میں نے جناب چیف جسٹس کو بذریعہ سڑک ڈِپلو کا دورہ کرنے کی تجویز دی جو انہوں نے قبول کرلی، مقامی گاؤں کوریو ٹھاکر کی زبوں حالی دیکھ کر جج صاحبان حیران رہ گئے، اسکول میں ایک طالب علم بھی موجود نہ تھا، ہسپتال میں دس سال سے ایکسرے مشین خراب تھی اور ایک بھی لیبارٹری فعال نہ تھی۔ ایسے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا سر نیچے کرکے چیف جسٹس صاحب کی باتیں سننا اس امر کی عکاسی کرتا تھا کہ تھرپارکر کے حالات بہتر بنانا انکے بس کی بات نہیں۔ میںایک بارپھر نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ اگرصحرائے تھر کا بڑا حصہ راجستھان انڈیا کی بڑی معیشت اور خوشحال ترین ریاست بن سکتا ہے تو پاکستانی تھرپارکر میں بسنے والوں کا مقدر بھوک پیاس اور غربت افلاس کیوں ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس صاحب دکھی انسانیت کا درد رکھنے والے انسان ہیں،ان کاحالیہ دورہ تھرپارکر میرے اس موقف کی تائید کرے گا کہ تھرباسیوں کے مسئلے کا حل انکی عزت و احترام کو یقینی بناتے ہوئے ایسی لانگ ٹرم پالیساں بنانا ہے جس سے تھر پارکر مذہبی ہم آہنگی، مذہبی سیاحت اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن کر ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے، اس کیلئے ضروری ہے کہ جناب چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنے کے احکامات صادر کرجائیں، اگر وہ ایسا کرجائیں تو مجھے یقین ہے کہ تھرپارکر کی تاریخ میں انکا نام ہمیشہ کیلئے امرہوجائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)