• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخرکار فرانسیسی صدر، ایمانویل میکرون نے ہار تسلیم کرتے ہوئے پُرتشدّد احتجاج کرنے والوں کے سامنے گُھٹنے ٹیک دیے۔ حکومت نے ڈیزل اور دوسری اشیا پر لگائے گئے نئے ٹیکسز واپس لے لیے، جس سے حالات معمول پر آگئے۔ نوجوان صدر کے مطابق، ٹیکسز اصلاحاتی پالیسی کا حصّہ تھے، تاہم عوام نے اُنھیں قبول نہیں کیا۔ احتجاجی مظاہرے دارالحکومت، پیرس سے شروع ہوئے اور مُلک کے چھوٹے، بڑے شہروں تک پھیل گئے۔ جگہ جگہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پیرس کی سڑکیں جلی گاڑیوں، دُکانوں کے ٹوٹے شیشوں اور نذرِ آتش کیے گئے فرنیچر سے اَٹی ہوئی تھیں، تو دوسرے شہروں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ پیلی جیکٹس میں ملبوس مظاہرین نے شاہ راہوں کو مکمل طور پر بلاک کر دیا، جس سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ دو ہفتے جاری رہنے والے مظاہروں کے دَوران ایسا لگتا تھا کہ حکومت ایک انچ پیچھے ہٹے گی اور نہ ہی مظاہرین ٹس سے مَس ہونے کو تیار تھے، لیکن مفاہمت نے راستہ بنایا۔ صدر میکرون کو اپنی سخت گیر پالیسی میں لچک لاتے ہوئے پیچھے ہٹنا پڑا۔ وہ گزشہ برس ہی اقتدار میں آئے تھے اور اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کی فرانسیسی قیادت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔سابق حکم رانوں نے مُلک کا بیڑا غرق کر دیا اور معیشت برباد کردی۔ صدر میکرون نے انقلابی اصلاحات کے ذریعے تبدیلیاں لانے اور’’ نیا فرانس‘‘ بنانے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اِس وقت تو بہ ظاہر یہی لگتا ہے وہ صدر، جنہوں نے کسی کے آگے نہ جُھکنے کی بات کی تھی، جُھکنے پر مجبور ہوئے، جس سے اُن کی مقبولیت میں بھی کمی آئی۔ کیا یہ فرانس کے لیے اچھا ہوا؟ اور یہ اقدام صدر میکرون کے لیے نقصان دہ ہوگا؟نیز، اس سے فرانس اور یورپی یونین پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنا ضروری ہیں۔

2017 ء میں، جب ایمانویل میکرون اقتدار میں آئے، تو فر انس اور یورپ میں اُمیدوں کے نئے چراغ روشن ہوگئے۔ عام خیال یہی تھا کہ وہ اپنے قدامت پسند مُلک کو زیادہ کُھلا اور مالیاتی معاملات میں زیادہ ذمّے دار بناسکیں گے۔ میکرون بتیس برس کے تھے اور اُن کے ساتھی بھی جوان، لیکن سیاست اور ایڈمنسٹریشن میں کم تجربہ کار۔ پھر بھی اُنہیں مُلک اور دنیا کے لیے اُمید کی ایک نئی کرن سمجھا گیا۔ دراصل، فرانس کا اُن ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، جو مشکل ہی سے کسی تبدیلی کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم، میکرون اور اُن کے جوان ساتھیوں کو عوام نے ایک قابل، جوشیلی اور تبدیلی کی صلاحیت لانے والی قیادت کے طور پر لیا۔ سمجھا گیا کہ وہ امریکا کے ٹرمپ اور برطانیہ کی قوم پرستانہ سیاست کا عالمی سطح پر متبادل بن کر اُبھریں گے، جب کہ یورپ میں وہ مشرقی یورپ کے آمرانہ طرز کی حکم رانی کا توڑ ثابت ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپی یونین کی کم زور ہوتی دیواروں کو دوبارہ توانائی دے سکیں گے۔ اُن کے ساتھی جوان اور توانائی سے بھرپور تھے، تو اُن کی فتح میں سوشل میڈیا کے جارحانہ استعمال کا بھی بڑا دخل رہا، جسے عوام تک پہنچنے کا سب سے وسیع اور مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ میکرون نے آتے ہی انتہائی تیز رفتاری سے اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا۔ مزدوروں کی معتدل یونینز کے ساتھ مل کر ایسی اصلاحات متعارف کروائیں، جن سے لیبر مارکیٹ میں لچک آئی اور سخت گیروں کا زور ٹوٹا۔ تعلیم کے شعبے میں عام شہریوں پر توجّہ دی، خاص طور پر تربیت پر بہت زیادہ فوکس کیا گیا۔ حکومتی اخراجات کنٹرول کیے گئے اور خسارہ تین فی صد پر لانے کی کام یاب کوشش کی گئی، جو 2007 ء کے بعد پہلی دفعہ ممکن ہوا۔ یہ کوئی معمولی کارنامے نہیں تھے، خاص طور پر اگر فرانس کے لوگوں کی جلد تبدیلی قبول نہ کرنے کی عادت کو سامنے رکھا جائے۔ اسی پس منظر میں ایک نظر اُس معاشی صُورتِ حال پر بھی ڈال لی جائے، جو صدر میکرون کو وراثت میں ملی، تو اُن کی کام یابیاں مزید واضح ہو کر سامنے آئیں گی۔

چھے عشروں کی شان دار ترقّی کے بعد اب فرانس بدترین معاشی تنزّلی دیکھ رہا ہے۔ مُلک قرضوں پر چل رہا ہے اور پبلک سیکٹر کے قرضے جی ڈی پی کا 92 فی صد ہیں۔ اس کا آرام دہ ریلوے نظام، صحت کی بے مثال سہولتیں، بے روزگاری الاؤنس، اولڈ ایج بینیفٹس اورخُوب صورت سرکاری باغات، یہ سب فرانسیسی معاشرے کو مثالی بناتے ہیں، لیکن یہ سب قرضوں کے مرہونِ منّت ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ 1974 ء کے بعد کسی بھی فرینچ حکومت نے مُلکی بجٹ میں توازن لانے کی طرف توجّہ نہیں دی ۔ اگر یورپ کے دوسرے ترقّی یافتہ مُلکوں سے تقابلی جائزہ لیا جائے، تو یہ صُورتِ حال خاصی تشویش ناک ہے۔2000 ء کے شروع تک فرانس اور جرمنی کی جی ڈی پی برابر تھیں۔ اُس وقت جرمنی کے صدر نے ضروری اصلاحات کیں تاکہ مزید ترقّی یقینی بنائی جاسکے، جب کہ فرانس کے صدر، یاک شیراک نے ایسا نہ کیا۔ اسی لیے آج جرمن عوام کی قوّتِ خرید فرانس کے مقابلے میں 17 فی صد زیادہ ہے۔ پھر جرمنی نے لیبر اُجرتوں کو بھی حد میں رکھا، لیکن فرانس میں یہ اتنی تیزی سے بڑھیں کہ اشیاء کی قیمتیں مارکیٹ کنٹرول سے تجاوز کر گئیں اور یورپ میں اس کا تجارتی حصّہ، 13.5 فی صد سے گر کر 10.3 فی صد پر آگیا۔ نیز، مُلک میں روز گار کے حالات سب سے زیادہ پریشان کُن ہیں ۔ بے روز گاری کی شرح 10 فی صد سے کم نہیں ہو سکی اور 25 سال سے کم عُمر نوجوانوں میں یہ شرح 25 فی صد ہے، حالاں کہ جرمنی میں یہ شرح 3 فی صد سے بھی کم ہوچُکی ہے۔ علاوہ ازیں، زیادہ تر ملازمتیں کنٹریکٹ کی ہیں، جو عموماً ایک ماہ کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے’’ میری لی پین‘‘ کا روزگار کا نعرہ اُس ووٹر کو سب سے زیادہ اپیل کر رہا ہے، جس کی عُمر پچیس سال سے کم ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکسز کی انتہائی بلند شرح اور تجارتی معاملات میں ریگولیشنز کی غیر معمولی سختیوں نے نئے سرمایہ کاروں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ دیگر ممالک کی طرف دیکھیں، جہاں کاروبار کے لیے نسبتاً زیادہ آسانیاں ہیں۔ ایسے میں صدر میکرون نے اقتدار سنبھالا اور اصلاحات کا عمل شروع کیا، جس سے شاید ہی کوئی اختلاف کرسکے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر میکرون اصلاحات کی تیزی اور جوش میں یہ بھول گئے کہ فرانس ایک جمہوریت ہے اور اس کا صدر ایک منتخب عوامی نمائندہ ہوتا ہے، جو عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ یورپ میں دیوتائوں کا دَور گزر چُکا، اب حکم رانوں کو عوام کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ اگر عوام کے فائدے کی اصلاحات لائی جائیں، تب بھی اُنہیں پہلے مطمئن کرنا ضروری ہے۔ سب کچھ اُن کی مرضی اور روایات کے مطابق ہونا چاہے۔ فرانس جیسی جمہوری روایت کے مضبوط مُلک میں یہ ممکن نہیں کہ تبدیلی یا اصلاحات کے نام پر کوئی بھی حکم ران، چاہے وہ کتنا ہی جوشیلا یا انقلابی کیوں نہ ہو، ایسی تبدیلیاں لاسکے، جو لوگوں کے سَر سے گزر جائیں۔ تقاریر اور نصیحتوں سے وہ اسے مشکل ہی سے سمجھتے ہیں، اُنہیں اس کی عملی تعبیر چاہیے اور وہ بھی ایسے حکم ران اور قیادت سے، جو اُنہیں ہر قدم پر ساتھ لے کر چلے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر میکرون انتخابی فتح کے نشے میں شاید یہ سب کچھ بھول گئے تھے۔ اُنہوں نے اپنے انتخابی جلسوں میں وعدہ کیا تھا کہ وہ فرانس کی کم زور قیادتوں کی بجائے’’ jupiterian‘‘ قیادت کا نمونہ پیش کریں گے۔ یاد رہے، یونانی دیومالائی داستانوں میں’’ جوپیٹر‘‘ سب سے طاقت وَر دیوتا مانا جاتا تھا، یعنی دیوتائوں کا حکم ران۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس دیوتا کی طرح بننے کے جوش میں میکرون یہ بھول گئے کہ وہ کوئی دیوتا نہیں، انسان ہیں۔ اور وہ لوگوں کے سامنے اپنے ہر فیصلے پر جواب دہ ہیں۔ کسی قانون یا اقدام کو اصلاح کے نام پر پیروں تلے کُچلا نہیں جاسکتا۔ مفاہمت اور سب کو ساتھ لے کر چلنا اس معاشرے کا اوّلین اصول ہے۔ وہ اقتدار کے جوش میں ارکانِ پارلیمان کو اپنے محل میں جمع کرکے لیکچرز دیتے رہے اور اپوزیشن کو ایسے افراد کا مجموعہ قرار دیا، جن کی کوئی اوقات نہیں۔

صدر میکرون، فرانس اور یورپ میں اُبھرتی قوم پرستی کی لہر کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کرگئے۔ شاید وہ بھول گئے کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں فرانس کے ووٹرز اتنے ناراض تھے کہ اُن میں سے 48 فی صد نے قوم پرست دائیں بازو کی، لی پین اور دائیں بازو کے انتہا پسند، میلی کون کی حمایت کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثریت میکرون اور اُن کی جماعت ہی کو ملی، لیکن یہ ناراض ووٹرز کہیں غائب نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ اپنے نظریات چھوڑ کر میکرون کی پارٹی میں شامل ہوئے۔ دوسرے الفاظ میں ایک مضبوط اور نظریاتی اپوزیشن ان کے مقابلے کے لیے موجود تھی۔ ناقدین کے مطابق بہتر راستہ، جو جمہوریت میں اختیار کیا جاتا ہے، وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اُن کی بات سُننا اور جہاں تک ممکن ہو اُنہیں مطمئن رکھنا تاکہ مُلک میں سیاسی استحکام برقرار رہے۔ میکرون اصلاحات کی جلدی میں ایسا نہ کرسکے، اسی لیے جب اُن کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے، تو ایسی آوازیں بھی سامنے آئیں کہ یہ اُس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک صدر مستعفی نہیں ہوجاتے۔ یہ باتیں جمہوریت اور مُلک کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانس کو بڑے عرصے سے اصلاحات کی ضرورت تھی اور صدر میکرون کے اقدامات درست بھی ہیں، لیکن تمام طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کمی رہ گئی۔ مثال کے طور پر ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت اُن دیہاتیوں کو نظر انداز کر دیا گیا، جنہیں اپنے کام کاج کے لیے دور دراز جانا پڑتا ہے اور ڈیزل کا استعمال اُن کے لیے ناگزیر ہے۔ اسی طرح پرانا ویلتھ ٹیکس مناسب نہیں تھا اور نہ ہی وہ جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتا تھا، لیکن اسے ختم کرتے وقت اُن لوگوں کی شکایات مدّ ِنظر نہیں رکھی گئیں، جو اس کی زد میں آرہے تھے۔ میکرون کے لیے سب سے تکلیف دہ لیبل یہ تھا کہ اُنہیں’’ امیروں کا صدر‘‘ کہا جانے لگا۔ ایک اور مشکل یہ ہوئی کہ احتجاجی مظاہرے سوشل میڈیا کی دَین تھے، جسے خود میکرون استعمال کرتے رہے تھے۔ سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ہونے والے یہ مظاہرے کسی مضبوط اور مرکزی قیادت کے بغیر ہو رہے تھے، اسی لیے مذاکرات اور مفاہمتی اقدامات میں حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں اُن کا دورانیہ اور توڑ پھوڑ اتنی زیادہ تھی کہ اس نے 1968 ء کے تباہ کُن مظاہروں کی یاد تازہ کر دی، جب پورا فرانس مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔

صدر میکرون نے ڈیزل کی قیمتوں پر چھے ماہ کے لیے ٹیکس منجمد کردیا ہے، یعنی یہ مسئلہ دوبارہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ میکرون حکومت سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے آگے بار بار گُھٹنے ٹیک دے گی؟ اور کیا فرانس میں بھی ہجوم کی طاقت کا راج ہوگا؟ یا پھر قوم پرستی مزید مضبوط ہوگی اور جمہوری قوّتوں کو پیچھے ہٹنا پڑے گا؟ یہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دِکھایا، اٹلی میں اس سال ہوا اور برطانیہ میں بریگزٹ کے ذریعے2019 ء میں ہونے جارہا ہے۔ ناقدین کے مطابق صدر میکرون کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا قوم پرستوں اور محروم طبقات سے ہے۔ اصلاحات لاتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان طبقات کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔ جہاں ممکن ہو، وہاں عوام کو نقصانات کے ازالے کے لیے مراعات بھی دی جائیں۔ جیسے پینشن اصلاحات ہیں، جن سے ایسے لوگ متاثر ہوتے ہیں، جو مُلک وقوم کے لیے خدمات انجام دیتے رہے اور اب اُنھیں مدد کی ضرروت ہے۔ نیز، ایک اور معاملہ بھی نوجوانوں کی بے اطمینانی کا سبب بنا ہوا ہے،وہ ہے بے روز گاری، جو کم ہونے کے بعد بھی بہت زیادہ ہے۔ یہی نوجوان احتجاجی مظاہروں کی سب سے بڑی طاقت بن جاتے ہیں اور اُنہیں سمجھانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ صدر میکرون جیسے جواں سال صدر کے لیے یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ اُن کی گزشتہ سال کی فتح اسی طبقے کی مرہونِ منّت ہے۔ میکرون حکومت عوام کو یہ سمجھانے میں شاید پوری طرح کام یاب نہیں ہوسکی کہ اُس کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات بالآخر عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن کے ساتھ قومی معاملات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ مظاہروں کی شدّت نے اس طرح کی مفاہمت کی ضرورت کو مزید واضح کردیا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر صدر میکرون کو اپنے’’ جوپیٹر‘‘ کے نظریۂ حکم رانی سے نیچے آنا پڑے گا۔ وہ شاید عام آدمی سے بہت دُور ہوگئے ہیں، حالاں کہ فرانس کے لوگ عام طور پر اپنے اُن صدور کو پسند کرتے رہے ہیں، جو عوام کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ایک ایسے یورپ میں، جہاں قوم پرست بڑی تیزی سے غالب آرہے ہیں، وہاں پر کام یاب سیاست دان وہی ہوگا، جو لوگوں کو یقین دِلا سکے کہ وہ اُن کے احساسات کو سمجھتا ہے اور اُن ہی میں سے ہے۔ فرانس میں اصلاحات کے لیے کسی سُپرمین نہیں، ایک انسان کی ضرورت ہے، جس میں صبر، برداشت، سمجھانے کی قوّت اور انسانی ہم دَ ردی ہو ۔

تازہ ترین