کراچی ( رفیق مانگٹ) وزیراعظم عمران خان کا مرغی اور انڈوں سے غربت دور کرنے کے حوالے سے امریکی اخبارکے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ امریکی عوام کی خوشحالی کیلئے ہر پلیٹ میں چکن کا نعرہ دیا گیا، اب پاکستان میں اسے اپنایا گیا ۔ امریکا کے31ویں صدر ہر بٹ ہوور کی1928 کی صدارتی انتخابی مہم میں اخباری اشتہار میں اس chicken in every pot کا استعمال کیا گیا یعنی سب کی خوشحالی کا وعدہ کیا گیا تاہم یہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ اخبار نے پاکستان کیلئے chicken on every plot. اپنائی جو بنیادی طور امریکی ریاست ورجینا کے شہر رچمانڈ کیلئے استعمال کی جاتی ہے جہاں حکومت پرمٹ جاری کرتی ہے کہ ہر گھر میں ایک پلاٹ مقررکیا جائے جہاں چار مرغیاں رکھی جائیں۔ اخبار اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ پاکستان سخت اقتصادی اور مالی بحران کا سامنا کررہا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپیہ قدر کھو رہا ہے،غیرملکی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے جو قابو کے باہرہیں۔ عمران خان نے انتخابات کے دوران قسم کھائی تھی کہ وہ کبھی بھیک مانگنے بیرون ملک نہیں جائیں گے۔لیکن وہ سعودی عرب اور دوسری جگہوں سے اربوں کا قرض لینے کے لئے پہلے ہی مجبور ہوچکے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے بات چیت میں مصروف ہیں۔اتنے اہم مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ،پولٹری منصوبے کاآئیڈیا انہوں نے مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس سے لیا ۔ عمران خان کے اس فارمولے پرسوشل میڈیا پر طنزومزاح کاطوفان برپا ہوا، شہ سرخیوں اور مزاح سے بھرپور ٹویٹس سے وزیراعظم پر طنز کیا گیا کہ وہ سنگین مسائل پر ’’چکن فیڈ‘‘ پھینک رہے ہیں۔ ایک اداراتی کارٹون نے بھاری لکڑی کی بنی گاڑی دکھائی جسے ایک مرغی دھکیلنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ تاہم پولٹری ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر عبد الرحمان کو پورا یقین ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کے لاکھوں لوگوں کی صحت اور روزی میں خاطر خواہ فرق پڑے گا ۔پاکستان میںپانچ سال سے کم عمر کے44فی صد بچوں کی غذائیت کی کمی کی وجہ سے مناسب نشوونما نہیں ہوپاتی،ماؤں کی اموات کی بڑی وجہ غذائی قلت ہے، انڈے ان کی صحت مندی میں اضافہ کرسکتے ہیں،عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں چالیس کی موت واقع ہوجاتی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس منصوبے کا دوسرا مقصد غریب خاندانوں اور خاص کر خواتین کے لئے گھریلو آمدنی میں اضافہ کرنا ہے۔لائیو اسٹاک کے ماہرین کے اندازے کے مطابق پانچ مرغیاں ہفتے میں کئی انڈے دیتی ہیں جن سے ہر ماہ دس ہزار روپے کمائے جاسکتے ہیں جو ایک سیکورٹی گارڈ یا راج گیر کی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے دی نیوز کے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں مسلسل غربت سے نمٹنے کیلئے چکن کی بجائے ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ رکاوٹوں کو دور کرکے اپنے حالات بدل سکیں۔سیاسی اور کاروباری اشرافیہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی سازش کرتے ہیں،ایسے حالات میں بنیادی تبدیلیوںکی ضرورت ہے جہاں کسان خاندانوں کو فروغ مل سکے،مسئلہ یہ ہے کہ پوری مارکیٹ ہر سطح پر غریبوں کے خلاف کام کرتی ہے۔خاندانوں کیلئے یہ بات بہت اچھی ہے کہ وہ بہتر انڈے کھائیں،لیکن پانچ سو پرندے پالنے والے چھوٹے کاروباری افراد ان مالداروں کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جو تیس ہزار پرندے فروخت کرتے ہیں\