• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی مانے یا نہ مانے، مجھے یقین ہے کہ کراچی آرٹس کونسل کے انتخابات کرانا ایک فضول کارروائی ہے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ایک چلتا چلاتا نظام نہایت خوبی سے جاری ہے، سارے کام خوش اسلوبی سے ہو رہے ہیں، ہر لمحہ ترقی ہی ترقی نظر آرہی ہے، آئے دن سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، بڑے بڑے ناموراور سر کردہ لوگ کراچی آرٹس کونسل سے کسی نہ کسی شکل میں وابستہ ہونے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں، ایسے میں سال کے سال الیکشن کے نام پر ایک میلہ لگانے کی قطعی کوئی تُک نہیں۔ میں تو ان لوگوں پر حیران ہوں جو موجودہ انتظامی ڈھانچے کے خلاف اپنا پینل بنا کر نہ صرف الیکشن لڑتے ہیں بلکہ دلائل سے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آرٹس کونسل کی موجودہ انتظامیہ نا اہل اور ناکارہ اور خدا جانے کیا کیا ہے، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہی ادارے کے حق میں اچھا ہوگا۔اس کے بعد وہی کہانی د ہرائی جاتی ہے کہ جو جہاں ہے وہیں موزوں ہے اور وہ جو تبدیلی کا نعرہ لگارہے تھے ،ایک بار پھر ہزیمت کا منہ دیکھتے ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ کامیاب ہونے والوں کے لئے ایک کلمہ خیربھی ادا نہیں کرتے۔

اب نام لے کر بات کی جائے۔ کراچی آرٹس کونسل کے آئین کے مطابق ان کی حیثیت جو بھی ہو، منصب دار ہوں یا علامتی عہدے پر فائز ہوں،اس پورے ادارے کو جنہوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہے و ہ صرف اور صرف محمد احمد شاہ ہیں۔ بڑے اداروں اور بڑی تحریکوں کی اکثر یہ شان رہی ہے کہ ان کے پیچھے ایک بے حد فعال اور بلا کا سرگرم شخص ہوتا ہے۔ وہی ادارے یا تحریک کا روح رواں بن جاتا ہے اور دوسرا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کے گرد ایک جمعیت بن جاتی ہے۔اسے خدا جانے کہا ں سے اور کدھر سے ایسے کام کرنے والے اور دوڑ دھوپ کرنے والے کارند ے مل جاتے ہیں جو اس کی نیک نامی اور شہرت میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ محمد احمد شاہ کے ساتھ یہی ہوا ہے۔اپنے اپنے شعبوں میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے لوگ اپنا دھندا چھوڑ چھاڑ آرٹس کونسل میں بسیرا کئے ہوئے ہیں اور ان سب کے بارے میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ اپنے گھربھی نہیں جاتے۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان آرٹس کونسل کراچی شہر کا ایسا فعال اور سرگرم ادارہ ہے کہ دوسرے اس کی تقلیدکریں تو شوق سے کریں، اس سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔پھرایک دلچسپ سوال اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون سی کشش ہے کہ لوگ سال کے سال الیکشن کے نام پر اس کی اہل اور چابک دست انتظامیہ کے مقابلے پر مردانہ وار کھڑے ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شکست ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ شاید احمد شا ہ کی کرشماتی شخصیت نے آرٹس کونسل کے وسائل کی جو سبیلیں نکالی ہیں،کہاں سے ،کب اور کیسے نکالی ہیں ،ہمیں جاننے کی کوئی تمنا نہیں،غالباً لوگ ان ہی وسیلوں پر اختیار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ہم تو ادارے میں ہونے والی تقریبات کے نظاروں کے عادی ہیں۔جس فراوانی سے بڑے بڑے مجمعو ں کی مدارات ہوتی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ روز دو دو وقت برات کا سماں ہوتا ہے۔ نہیں معلوم کس نے آرٹس کونسل پر عنایات کی بارش کی ہے کہ ہر بار رشک آتا ہے۔ترقی کا یہ حال ہے کہ ہر بار اس کی کلغی میں ایک نیا پر لگا نظر آتا ہے۔ جب دیکھئے ایک ادارے کے اندر کتنے ہی اور ادارے کھل رہے ہوتے ہیں۔ مصوری، موسیقی، رقص، سنگ تراشی اورڈرامےکے فروغ کی کوششیں جاری نظر آتی ہیں۔ ان کوششوں نے آرٹس کونسل کو ایک بڑی نعمت عطا کی ہے اور وہ یہ کہ ادارے کو نوجوان اور جوشیلے رضا کاروں کی اچھی بھلی فوج مل گئی ہے۔ کوئی بھی تقریب ہو ، نو عمر لڑکے اور لڑکیاں گہرے انہماک سے دوڑ دھوپ کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ معمر مندوبین کا ہاتھ پکڑ کر واش روم تک لے جانے کے لئے بھی ایک نہ ایک نوجوان مستعد نظر آتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیج کا سیٹ بدلنے سے لے کر پہلے ہی بھرے ہوئے ہال کے بڑے دروازے سے اندر آنے والوں کو روکنے کا دشوار فرض یہی لڑکے لڑکیاں انجام دے رہے ہوتے ہیں۔اور ان تمام کاموں اور کام کرنے والوں پر وہی ایک شخص نگاہ رکھے ہوئے ہوتا ہے جسے اب تو ایک عالم احمد شاہ کے نام سے جانتا ہے۔

ترقی کی بات ہورہی تھی ، تازہ تازہ یہ ہے کہ آرٹس کونسل کی موجودہ عمارت کے پہلو میں ویسی ہی ایک اور بڑی عمارت بن کر تیار ہے۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ اس کی تکمیل کے بعد اور کیسی کیسی شاندار سرگرمیاں ہوں گی۔ یہ ادارہ ایک پورا کمپلیکس بن جائے گا اور آگے چل کر ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلے تو حیرت نہ ہوگی۔ امکانات بے شمار ہیں۔ عملی جامہ پہنانے والے بھی ان گنت ہیں۔آرٹس کونسل کراچی کی محفلوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں نوجوان بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔وقت کی ضرورت بھی یہی ہے کہ نوجوانوں سے مکالمہ کیا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان محفلوں میں نو عمر حاضرین پر توجہ مرکوز کی جائے۔محفلوں میں معمر حضرات بھی کم نہیں ہوتے۔ ان کا ہونا بھی کچھ کم غنیمت نہیں، ان کا خیال بھی رکھا جانا چاہئے۔

آرٹس کونسل کراچی نے حال ہی میں اپنی گیارہویں اردو کانفرنس منعقد کی۔ خوب کی۔ ہر برس کی طرح رونق رہی ۔جس نشست میں تفریح کا عنصر زیادہ ہو اس میں حاضرین کی تعداد بھی کم نہیں ہوتی۔ سنجیدہ موضوعات کبھی کبھی بہت گمبھیر ہوتے ہیں، مگر کانفرنس کے بنیادی خیال سے باہر نہیں ہوتے۔ سال کے سال آنے والوں کو کہتے سنا ہے کہ ان کانفرنسوں میں یکسانیت بڑھتی جارہی ہے ۔ بات اتنی غلط بھی نہیں ۔ کچھ نئے عنوان سوچے جائیں۔ کچھ نئے پن کی تدبیر کی جائے۔مشکل ہے مگر ناممکن بھی نہیں۔ ہر کانفرنس کے بعد مندوبین اور انتظامیہ کی ایک marathon بیٹھک ہونی چاہئے جس میں سنجیدگی سے سوچا جائے کہ کیا اچھا ہوا اور کیا کم اچھا ہوا۔جو سوچا سو عرض کردیا، ورنہ میری بھی وہی رائے جو پنچوں کی رائے۔

تازہ ترین