• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہاجاتا ہےکہ صحافت کے بغیر جمہوریت کی بقا ممکن نہیں اور آزادیٔ صحافت کا مطلب ہے کہ جمہوریت جاری رہے اور منتخب لوگ عوام کے اعتماد سےترقی وفلاح کا کام کرتے رہیں۔ جس ریاست یا معاشرے میں آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے وہاں جمہوریت کی سانسیں بھی بند ہوجاتی ہیں۔ بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جہاں اقتدار حاصل کرلیاجاتاہے مگرسچ سننا اور برداشت کرنا تو درکنار سچ وحقیقت کی تلاش بھی جرم بن جاتی ہے۔ ایسی جمہوری حکومتیں عوام پر حکمرانی کا حق تو جتاتی ہیں لیکن خود احتسابی اور تنقید سےبچنےکےلئے زبانِ خلق کو گنگ رکھنا چاہتی ہیں۔حقیقت یہ ہےکہ نیت،مقصد اور جدوجہد نیک ہو تو کسی کاخوف نہیں رہتا بلکہ سوال مثبت ہو یا منفی، غلط ہو یا درست، مثبت سمت سے گمراہ نہیں کرسکتا اورنہ منزل سے بھٹکا سکتاہے۔شومئی قسمت کہ ہم گزشتہ دس سال سے جمہوریت کا پہیہ کامیابی سےچلانے کے دعویدار تو ہیں لیکن جمہوریت کےرکھوالے اور سلامتی کے ضامن صحافتی کردار کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے فخر محسوس کررہے ہیں۔یہ سب کچھ وہاں ہورہاہے جس ملک کےبانی جناب محمدعلی جناح نے خود آزادیٔ اظہار اور صحافت کی آزادی کاسرخیل بن کر اپنی جدوجہد کو پوری قوم کی فتح میں تبدیل کیا۔ 1947ء کی جدوجہدِ آزادی سے بہت پہلے ہی جنگ، منشور، زمیندار، انجم اور برصغیر پاک و ہند کےدیگر جریدوں نے مسلمانانِ ہند کی الگ ریاست کے قیام کا عَلم اپنی خبروں، اداریوں، بحث مباحثوں اور تصویروں سےبلند کردیاتھا، ایسے میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خود پریس کی آزادی کےلئے میدان میں آگئے۔1910ءمیں امپیریل لیجیسلیٹیو کونسل کا ممبر بننےکےبعد بطور قانون دان حکومت کے آزادی صحافت کو دبانے کے ’’پریس ایکٹ‘‘ کی مخالفت کی۔ آپ اس قوم کے پہلے اور واحد رہنما ہیں جس نے انگریزوں، ہندوئوں اور عالمی استعمار کی سیاسی، صحافتی و عددی مخالفت اور پروپیگنڈے سے نمٹنے کےلئے 7جون 1937ء میں پہلا آزاد پریس فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو 1939ء تک پورے برصغیر میں فعال ہوگیا۔ قائد اعظم نے شہر شہر جاکر 1لاکھ 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کے فنڈز اکٹھے کئے،1941 میں قائد اعظم نے انگریزی زبان کےجریدے کو اپنی اور قوم کی آواز اور آئینہ قراردیا۔قائد اعظم محض آزادجمہوری ریاست کے موجد ہی نہیں تھے بلکہ آزاد صحافت کے بھی سرخیل تھے۔ 12مارچ 1947 میں بمبئی کی صوبائی مسلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن سےخطاب میں واضح کردیاکہ صحافیوں کےپاس عظیم طاقت ہے،وہ عوام کی نظر میں کسی بڑی شخصیت کو بنا اور بگاڑ سکتےہیں۔پریس کےپاس عظیم طاقت محض’’ اعتماد‘‘ ہےجس کےحصول کےلئے پوری ایمانداری اور مخلصانہ انداز میںمکمل طور پر بلا خوف و خطرکام کریں۔وہ آزاد صحافت کی خاطر خود پر تنقید کوبھی خوش آمدید کہتےہیں، وہ یا مسلم لیگ، پالیسی یا کسی منصوبے کےمعاملے پر کوئی بھی غلطی کریں تو انہیں تنقید کانشانہ بنایاجائے وہ اس کو دوستانہ انداز میں برداشت کریں گے۔

قارئین! اندازہ لگائیں کہ عظیم قائد ایسے نازک موقع پر جب وہ خالی ہاتھ محض عوام کی سپورٹ اور اپنے بےداغ کردار سے علیحدہ سرزمین کےحصول کےمشکل ترین مرحلےمیں سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہو،اپنی سیاسی جدوجہد کی کامیابی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کےلئے آزاد میڈیا کی بنیاد رکھ رہاہے لیکن آزادی کےبعد ڈکٹیٹرشپ اور جمہوری حکومتیں محض اقتدار کےلئے آزادیٔ اظہار پر کیسے کیسے کڑے پہرے اور قدغن لگاتی رہی ہیں، ماضی کے بعض واقعات سے شاید اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں،آج بھی اپنے اقتدار کو برقرار اور مضبوط رکھنے کے لئےحقِ تنقید ہی نہیں حقِ زندگی بھی چھینا جارہاہے۔

قارئین کرام! نیا سال مبارک ہو، نیا طرز سیاست اور حکومت مبارک ہو، نیا پاکستان مبارک ہو،قوم شکر گزار ہےکہ وطن عزیز میں جمہوریت قائم ہے، ریاستی ادارے آزاد اور فعال ہیں، احتساب کا عمل بلاتخصیص جاری ہے۔

لیکن یہاں توحد یہ ہےکہ بانی قائد نےجس پاک دھرتی کی جدوجہد میں آزاد و بلا خوف صحافت کی بنیاد رکھی اور آزاد و پیشہ ور اداروں کو مضبوطی سےسچائی پر قائم رکھنےکےلئےمتحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ جاکر فنڈز اکھٹے کئے، اسی پاک سرزمین میں صحافتی اداروں اور کہنہ مشق صحافیوں کو دیوار سےلگایاجارہاہے۔ پاکستان میں اپنی محنت اور کوششوں کےبل بوتے پر تیز رفتار ترقی اور مقام بنانے والےالیکٹرونک میڈیا کو وطن عزیز کے روشن چہرے اور حکمرانوں کی کوتاہیوں کو دکھانے سے روکنے کےلئے کوڑی کوڑی کامحتاج کیاجارہاہے۔ گزشتہ جمہوری دور میں وفاق اور صوبوں نے اخبارات اور چینلزکو8ارب کےاشتہارات دئیے مگر جمہوری تسلسل کے نئے حکمران ان جائز ادائیگیوں کو بھی تیار نہیں۔ نتیجتاً قیامِ پاکستان کے لئے بھرپور کردار اداکرنے والے صحافتی اداروں کا کاروبار ٹھپ، آزادیٔ اظہار کے علمبردار خاموش اور عوام کو حق وسچ سے آگاہی دینے والے سینکڑوں عامل صحافی بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں محض صحافت کو ذریعہ معاش وروزگار بنانے والے ادارے لاچار اور ہدف تنقید ہیں۔ صحافتی پیشے کی بے بسی نوشتۂ دیوار ہے۔ریاست کے چوتھے ستون کو ہٹاکر آپ سب ایک دن اپنے گناہوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو جائیں گے اور پھر اس عمارت کو کھڑا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والےجمہوری ملک امریکہ کا آئین1787 ء میں بنا جس کی پہلی شق ہی آزادیٔ اظہار ہے، جو اسکول کےبنیادی نصاب میں بچوں کو پڑھانا لازمی ہے، اسی جمہوری ریاست میں چوتھے منتخب صدر جیمز مڈیسن نے کینٹکی کےگورنر کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ ایک مقبول حکومت اطلاعات یا اطلاعات دینے والے صحافتی اداروں کی عدم موجودگی سے مذاق اور سانحات کا شکار ہو سکتی ہے، عوام کو آزاد معلومات سے مسلح کریں، وہ آپ کو اپنا سمجھیں گے۔

وقت آ گیا ہے کہ نئے سال کی شروعات پر ہم عزم کریں کہ اپنے ارادوں کو مضبوط اور دلوں کو کشادہ کریں گے، نئے پاکستان کی تعبیر کیلئے سچائی سننے کی ہمت اور تنقید سہنے کی برداشت پیدا کریں گے۔ تالے بندیوں اور گردن زنی کے آمریتی ہتھکنڈوں سے نجات پا لیں گے اور حق اور سچ کو آشکار ہونے دیں گے کیونکہ جھوٹ اور گمراہی ہی زوال کے بنیادی اسباب ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین