• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ کیا امریکہ دُنیا بھر سے بتدریج پسپائی کے راستے پر گامزن ہے، اگر ایسا ہے تو کیا وہ عالمی بالادستی کے تصور سے دستبردار ہورہا ہے یا پھر وہ کوئی نئی حکمت عملی اپنا رہا ہے کیونکہ اُس نے شام سے اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کیاہے اور اب افغانستان سےبھی اپنی افواج واپس بلانے کے درپے ہے، اس نے 10 سے 16 ہزار افواج میں سے آدھی فوج نکالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ چین، روس اور پاکستان اُس کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ اس کے افواج دنیا بھر سے واپس لانے کی کچھ وجوہات ہیں۔ مختلف بحری بیڑوں میں تعیناتی سے امریکہ میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو اب تقریباً سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے، یہ لوگ پاگل پن کے قریب تر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے علاج پرامریکہ کو تقریباً سالانہ 56ارب ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ 22کے قریب افراد ہر ماہ خودکشی کرتے ہیں، اس صورتحال نے امریکی معاشرے میں ہیجان پیدا کر رکھا ہے، اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی یہ ڈاکٹرائن وضع کی تھی کہ وہ اپنی مسلح افواج کو ہر جگہ سے واپس بلا لیں گے اور اگر اُن کو کارروائی کرنے کی ضرورت پڑی تو سرجیکل اسٹرائیک کا راستہ اختیار کریں گے اور سرجیکل اسٹرائیک بھی ایسی ہوگی جس کی اطلاع اس وقت میڈیا کو دی جائے جب امریکی افواج کی کوئی ٹیم مشن مکمل کرکے واپس آجائے گی۔ آہستہ آہستہ یہ حقائق سامنے آئے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پالیسی ٹرمپ کی نہیں بلکہ اداروں نے بہت سوچ سمجھ کر بنائی ہے ، میں نے سعودی عرب میں ایک تیل نکالنے والی کمپنی دیکھی جہاں امریکی بھی کام کررہے تھے اُن میں سے بہت سے اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے اور جو لوگ تیل نکالنے پر معمور تھے یا کم درجے پر کام کرتے تھے، تو اُن کو ایک خاص مدت کے لئے امریکہ بھیج دیا جاتا تھا، تیل نکالنے کے کام پر بہت مضبوط امریکی یا یورپی ممالک کے کارکن لگے ہوتے تھے، اُن کے جذبات کی شدت بھی بے پناہ تھی، ذرا ذرا سی بات پر لڑ پڑتے تھے، اگرچہ اُن کے آرام و آسائش کا خاص خیال رکھا جاتا تھا،وہ لوگ کافی شائستہ ہوتے تھے یا جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑا وہ کم شائستہ تھے مگر اگر کسی بات پر بدک جائیں تو کافی تلخ ہوجاتے تھے اور چھٹی کے دن گنتے رہتے تھے، ایک دو جگہوں پر ہمیں پاکستانی بھی ملے مگر وہ شاید زیادہ قوتِ برداشت کے اس لئے حامل تھے کہ وہ اس کام کو زیادہ دنوں سے نہیں کررہے تھے یا پھر ضرورت اُن کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی تھی، اگر اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو یہ بات کہی جارہی ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بے مقصد یا اسرائیل کے لئے لڑ رہا ہے اور اس نے عراق، شام، لیبیااور افغانستان میں لاکھوں افراد کو بے گناہ مار دیا ہے اور اب قدرت کا نظام حرکت میں آ گیا ہے۔انسانی جسم کا خودکار قدرتی نظام جو اچھائی اور بھلائی اور انسانیت کے فروغ کے لئے ترتیب دیا گیا ہے ،روبہ عمل آرہا ہے، اس کے علاوہ امریکہ میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ افغانستان کی جنگ کیا وہ چینی تاجروں کے تحفظ کیلئے لڑ رہے ہیں کیونکہ افغانستان میں چینی تاجر اپنی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چین کے پاس افغانستان کے 70فیصدٹھیکےہیں، اس لئے بھی امریکہ یہاں سے نکلنے اور یہاں کا بوجھ چین اور روس پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اس پر نقاد یہ کہتے ہیں کہ طالبان کے حکمراں بننے کے بعد داعش کو طالبان سے لڑا دیں گے اور یوں طالبان، چین، روس، پاکستان اور ایران کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا داعش اس قدر طاقتور ہے کہ ایک ساتھ طالبان اور پانچ ملکوں سے لڑ کر جیت جائے جبکہ وہ غیرملکی ہیں اور اُن کے لڑنے کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے جو بڑا کام کیا ہے کہ طالبان کو بکھرنے نہیں دیا اور طالبان کو امریکہ اور اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کے لئے راضی کرکے اپنا کام کردیا۔ اس پر امریکہ کے کئی دانشوروں نے یہ لکھا ہے کہ کیا امریکہ، افغانستان کو پاکستان کے حوالے کرنے جارہا ہے۔ ابھی کچھ طے نہیں ہے، البتہ یہ امریکہ کے نئے گریٹ گیم کا حصہ ہے جس میں بظاہر پاکستان کامیاب اور سرخرو ہو کر نکلتا نظر آتا ہے۔

تازہ ترین