فنکار معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔فنون لطیفہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے حساسیت ان کی طبیعت کا لازمی جزو بن جاتی ہے۔ فنون لطیفہ سے وابستہ افراد نہ صرف اپنے فنون کے ذریعے سے معاشرے میں اہم فرض انجام دیتے ہیں بلکہ معاشرے میں موجود برائیوں کے خاتمے اور سماج کی مجموعی فلاح کے لیے بھی ان کی خدمات خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔فنون لطیفہ سے وابستہ افراد اپنے فن کے ذریعے سے معاشرے میں خوشی کو پیدا کرتے ہیں۔ان فنون کے ذریعے سے معاشرے میں موجود پریشانیوں اور ڈپریشن کا خاتمہ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔فنون لطیفہ کے مختلف اظہار جن میں شاعری، رقص، ادب، موسیقی، اداکای اور مصوری شامل ہے کے ذریعے سے فنکار انسانی زندگی کو امید، خوشی اور ترقی کا پیغام دیتے ہیں۔ان کی خدمات محض اس سطح تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ معاشرے کی مجموعی فلاح کے لیے سوچ بچار کے ساتھ عمل سے بھی کام لیتے ہیں۔اس ضمن میں ان کا سب سے اہم کام معاشرے میں برائیوں کے خاتمے اور اچھائیوں کے فروغ کے لیے آگاہی پیدا کرنا ہوتا ہے۔اس آگاہی کے نتیجے میںمعاشرہ فلاح کی جانب بڑھتا ہے۔یہ عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ فنکار عمومی طور پر معاشرے کے مختلف طبقات میں مقبول ہوتے ہیں۔ان کی مقبولیت اور شناسائی مثبت معاشرتی تبدیلیوں کے لیے کار گر ثابت ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں فنکار فلاحی سرگرمیوں کو مختلف سطح پرسر انجام دیتے ہیں۔موجودہ حالات میں فنکاروں کا فلاحی سرگرمیوں میںحصہ لینا ان کے پروفیشن کا لازمی حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔ فنکاروں کے لیے فلاحی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے کئی ایک پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ان میں حکومتی مہمات، انٹرنیشنل تنظیمیں ،اقوام متحدہ کے ادارے ،مقامی سطح پر قائم تنظیمیں اور فنکاروں کے اپنے قائم کردہ ادارے شامل ہیں۔یہ رجحان دنیا بھر میں موجود ہے۔ہالی وڈ میں فنکار نہ صرف اپنی قائم کردہ چیریٹیز اور فلاحی اداروں کے ذریعے کمیونٹی سروس انجام دیتے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں کے خیر سگالی کے سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ہالی وڈ کی مشہور ہیروئن اینجلینا جولی پناہ گزینوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سفیر ہے۔اسی طرح گلوکارہ کیٹی پیری یونیسیف،سیلینا گومز، سارہ جیسیکا پارکر اور لوسی لیو سمیت کئی فنکار اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔علاوہ ازیں کئی فنکار اپنے تئیں مختلف تنظیمیں قائم کر کے غربت کے خاتمے ، بے گھر افراد کی بحالی، صحت عامہ اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔
بولی وڈ میں بھی فلاحی کاموں کے حوالے سے یہ رجحان موجود ہے۔بولی وڈ سے وابستہ کئی سینئر اور جونئیر فنکار مختلف فلاحی امور کی انجام دہی دیتے رہتے ہیں۔سلمان خان نے غریب بچوں کی مدد کے لیے ایک تنظیم بینگ ہیومن بھی قائم کر رکھی ہے۔اس طرح عامر خان اپنے شو سچ کی جیت کے ذریعے سے سماجی برائیوں کو بے نقاب کرتے رہے ہیں۔اس طرح اکشے کمار کراٹے کی ٹریننگ ، نانا پاٹیکر کسانوں کی مدد،پریٹی زنٹا خشک سالی کا شکار علاقوں میں بسنے والوں کی مدد، دیا مرزا ایڈز سے متاثرہ افراد کی مدد ، اور دوسرے کئی فنکار اپنی حیثیت میں فلاحی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
معاشرے کی بہبود کے لیے کام کرنے کے حوالے سے پاکستانی فنکار بھی کسی بھی طبقے سے کم نہیں ہیں۔پاکستان میں فلم ، ٹی وی، تھیٹر، موسیقی اور دیگر شعبوں سے وابستہ آرٹسٹ مختلف حوالوں سے فلاحی سرگرمیاں انجام دیتے رہتے ہیں۔پاکستان ایک ترقی پذیر معاشرہ ہے۔ملک میں تعلیم ، صحت، جمہوریت، معاشرتی انصاف،غربت ، معاشرتی و ثقافتی تعصب اور تفریق کی وجہ سے لا تعداد مسائل موجود ہیں۔ان مسائل سے نبرد آزما ہونا اور معاشرے کو ترقی اور فلاح کی جانب تیزی سے لے کر جانا اس کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستانی فنکار با شعور ہیںاور سماجی خدمت کا بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔
پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والی قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورت حال میں فنکاروں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ 2005 میں کشمیر میں آنے والے زلزلہ کے بعد فنکار امدادی سرگرمیوں میں سب سے آگے تھے۔ان میں گلوکار و اداکار فخر عالم،جنید جمشید، عدنان صدیقی اور دیگر کئی فنکار شامل تھے۔اس طرح اس سے قبل اسی اور پھر نوے کی دہائی میں جب سیلاب کی صورت حال درپیش ہوئی تو تمام فنکاروں نے یک جان ہو کر سیلاب زدگان کی مدد کی۔ان میں سلطان راہی، انجمن، رنگیلا، جاوید شیخ، ندیم، بابرا، مصطفی قریشی، غلام محی الدین اور دیگر فنکار شامل تھے۔
پاکستان میں شوبز سے وابستہ فنکار آج بھی سماجی خدمت اور معاشرتی فلاح کے جذبے سے مالا مال ہیں۔اس حوالے سے مرحوم استاد نصرت فتح علی خان کا نام سرفہرست ہے۔ استا د نصرت نہ صرف اپنے تئیں غرباء کی امدا د کرتے بلکہ پاکستان کے دو بڑے فلاحی اداروں کی فنڈ ریزنگ مہم کے حوالے سے بھی انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور فاطمید فائونڈیشن کے لیے منعقد کیے جانے والے چیریٹی کنسرٹس اور گالا ڈنرز میں استاد نصرت پر فارم کرتے تھے۔شوکت خانم کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں استاد نصرت نے دنیا بھر میں کنسرٹس منعقد کیے۔اس طرح مشہور گلو کار ابرار الحق کی سماجی خدمات سب کے سامنے عیاں ہیں۔ابرار نے 1998 میں سہارا فار لائف ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ ٹرسٹ کا سب سے بڑا پراجیکٹ صغریٰ شفیع میڈیکل کمپلکس ہے۔نارووال میں قائم ہسپتال میں مختلف پیچیدہ امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔صحت کے شعبہ میں لیجنڈ اداکار محمد علی مرحوم اور زیبا بیگم کا قائم کردہ ادارہ علی زیب فائونڈیشن بھی گرانقدر خدمات انجام دے رہا ہے۔اس ادارے کا مقصد خون کے امراض خاص طور پر تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی خون کی ضروریا ت کو پورا کرنا ہے۔محمد علی اپنی حیات میں بھی اس مقصد کے ساتھ منسلک رہے اور ان کی وفات کے بعد زیبا بیگم نے اس کار خیر کو جاری رکھا ہوا ہے۔ صحت کے علاوہ فنکاروں نے تعلیم کے شعبہ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اس حوالے سے گلوکار شہزاد رائے کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔شہزاد اپنے قائم کردہ زندگی ٹرسٹ کے ذریعہ سے تعلیم کے فروغ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس ضمن میں ان کا ماننا ہے کہ سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنائے بغیر پاکستان میں تعلیمی پسماندگی کو دور نہیں کی جا سکتا ۔ شہزاد تعلیمی نصاب میں بھی موجود ہ حالات کے مطابق تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں تاکہ بچوں کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو نکھاراجا سکے۔
سماجی حوالوں سے مختلف خرابیوں کی روک تھام کے لیے بھی فنکار سرگرم رہتے ہیں۔اس ضمن میں حال ہی میں یونائیٹڈ نیشن ویمن کی جانب سے پاکستان میں جہیز خوری بند کرو کے نام سے مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔اس ضمن میں اداکار علی رحمان خان خاصے سرگرم ہیں۔ان کے ساتھ دوسرے ساتھ فنکار جن میں احمد علی بٹ،اشنا شاہ، یاسر حسین، نبیل زبیری، اقراء عزیز، منیب بٹ، عائشہ عمر اور دیگر کئی ٹی وی اور فلم کے آرٹسٹ نے اس مہم میں حصہ لیا ہے۔سوشل میڈیا پر یہ مہم وائرل ہے۔یہ ایک احسن قدم ہے ۔گلوکارجواد احمد پاکستانی معاشرے میں سماجی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے خاصے متحرک رہے ہیں۔اس طرح ریشم فلمی صنعت سے وابستہ ضرورتمند افراد کی امداد کے حوالے سے ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔پاکستان کے فنکاروں کی یہ تمام کاوشیں قابل قدر اور تحسین ہیں۔ ان کو سراہے جانے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ فنکار جس نیک مقصد کی جانب ترغیب دلا ئیں اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں۔