• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ میں پاکستان کا مقام

تحریر…ڈاکٹر عارف علوی
(صدر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان)
سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم چوتھے صنعتی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ پہلا صنعتی انقلاب 1760ءسے لے کر 1840ءتک مشینی پیداوار کا دور لے کر آیا۔ یہ لوہے اورا سٹیل جیسے نئے مادوں کا نتیجہ تھا جو کوئلے اور بھاپ کے نئے توانائی ذرائع کے امتزاج سے بڑے پیمانے پر پیداوار کا باعث بنے اور فیکٹری نظام کے ساتھ محنت کی تقسیم عمل میں آئی۔ دوسرا صنعتی انقلاب 1870ءسے لے کر20 ویں صدی کے اوائل تک برپا رہا اور اس کے نتیجے میں بجلی اور داخلی احتراق پذیر انجن سامنے آئے۔ دونوں نے صنعتی مشینوں کو طاقتور اور ٹرانسپورٹ کو ممکن بنایا۔ علاوہ ازیں پہلی مرتبہ ٹیلی فون اورٹیلی گرام سے پیغام رسانی ہوئی اور اس میں پیغام رسانوں کا کوئی جسمانی عمل دخل نہیں تھا۔ خام انسانی طبعی محنت سے مشینیں وجود میں آئیں جبکہ ہمارے ارد گرد نئے تصورات بڑی تیزی سے سامنے آنا شروع ہوئے۔ وسیع پیمانے پر پیداوار سے بڑے فوائد حاصل ہوئے اور آج کے انفرادی وسیع تصرف کی راہیں کھلیں۔
ساٹھ سال بعد جو تیسرا انقلاب آیا وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ڈیجیٹل انقلاب تھا اور آپ جو یہ سطور پڑھ رہے ہیں میں سے کثرت نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ سیمی کنڈکٹرز،مین فریم کمپیوٹنگ، سیلیکون، پرسنل کمپیوٹنگ، سیل فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ورلڈ وائیڈ ویب، سینسرز اور کیمروں کے ساتھ ساتھ ڈیٹا حاصل کرنے اور اسے اسٹور کرنے کی بڑھتی ہوئی صلاحیت سے ڈیٹا میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور اس کا تجزیہ کرنا نہایت محال ہو گیا ہے۔
چوتھا صنعتی انقلاب اب شروع ہوچکا ہے اور پاکستان کو اس تبدیلی کو اپناتے ہوئے ان ثمرات سے استفادہ کرناچاہیے جو سامنے آنے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ٹیکنالوجی کی ڈیٹا اکٹھا کرنے اور پھر ملی سیکنڈز میں اربوں کی تعداد میں مداخل سے مفید معلومات اخذ کرنے کی صلاحیت غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے۔ یہ بنیادی طورپر دس مختلف شعبوںمیںابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی کامیابیوں سے پہچانی جاتی ہے جن میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، انٹرنیٹ آف تھنگز، فائیو جی براڈبینڈ، تھری ڈی پرنٹنگ، خودکار وہیکلز، کلائوڈ کمپیوٹنگ، ادویات اور آگمینٹڈ ریئلیٹی شامل ہیں۔
کلاز شواب نے اپنی کتاب ’دی فورتھ انڈسٹریل ریوولوشن‘ میں کہتے ہیں کہ سابق صنعتی انقلابوں نے انسان کو جانوروں کی طاقت پر انحصار سے نجات دلائی، وسیع پیداوار ممکن بنائی اور اربوں لوگوں میں ڈیجیٹل استعداد پیدا کی لیکن چوتھا انقلاب بنیادی طور پر مختلف ہے، اس میں مختلف انواع کی نئی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو فزیکل، ڈیجیٹل، بائیولوجیکل دنیا کو یکجا کر رہی ہیں اور تمام شعبوں، معیشتوں و صنعتوں پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں تصورات کو بھی چیلنج کر رہی ہیں۔
انسان کےلئے استدلال سب سے بڑی طاقت رہی ہے لیکن اب یہ مشینوں میں بدل سکتی ہے جو اس رفتار سے عمل پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ قبل ازیں ڈیٹا جمع کرنے کا کام آئی بی ایم ڈیپ بلیو جیسے سپر کمپیوٹرزکے ذریعے کیا جاتا تھا جس نے گیری کسپروف کو 1997 کو مات دی تھی۔ ڈیپ بلیو کو ابتدائی شطرنج میں پڑھایا جاتا تھا اور پہلے کھیلی گئی ہزاروں گیمز میں گرینڈ ماسٹرز کی جانب سے اختیار کی گئی حکمت عملی اس کی میموری میں موجود تھی۔ یہ ہر سیکنڈ میں20 کروڑ پوزیشنز کا تجزیہ کر سکتا تھا اور درستگی، تھکاوٹ سے مبرا ہونے اور اگلی چالوں کے حوالے سے لاکھوں کیلکولیشنز کو یاد رکھنے کی صلاحیت کے ساتھ اپنے مدمقابل انسان پر واضح برتری رکھتا تھا۔
اب رواں سال ایلفا بیٹ کی جانب سے مشین لرننگ پروگرام ایلفا زیرو شروع کیا گیا ہے جو کہ منفرد الگورتھم پر مبنی ہے۔ بعد میں استعمال کی گئی اصطلاح لاطینی زبان میں الخوارزمی کے نام پر رکھی گئی ہے جو کہ الجبرا سائنس میں اتھارٹی رکھتے ہیں۔ ایلفا زیرو کے الگورتھم کی بنیاد شطرنج کے اصولوں پر رکھی گئی ہے جو کہ کھیل کے بنیادی اصولوں کو جانے بغیر شروع کی گئی۔ اس کو ایک انسان نے اپنے طریقے سے شروع کیا لیکن بعد میں اس کو لاکھوں بار اس کے خلاف کھیلا گیا اور اس کی غلطیوں سے سیکھا گیا۔ اس وقت الجھن یہ ہے کہ اس نے خود کافی حد تک سیکھ لیا ہے کہ شطرنج میں مقابلے کے خونخوار جانور کو حصہ لینا چاہئے جو کہ موجود بھی ہے اور اس پروگرام کو اسٹاک فش کہتے ہیں۔ ایلفا زیرو تیزی سے نہیں چالاکی سے سمجھا جاتا ہے تاہم اسٹاک فش 60 ملین فی سیکنڈ کیلکولیشن کے ساتھ شطرنج کو جمع کرنے کے لیے بہیمانہ مقابلے کی طاقت کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ ایلفا زیرو اپنے طور پر الگورتھم کے ساتھ صرف 60 ہزار کیلکولیشن فی سیکنڈ کا جائزہ لیتی ہے اور اسٹاک فش ہالو کو شکست دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ ہے ہم جب اس کو رجسٹر کرتے ہیں تو اس کو کوانٹم کمپیوٹنگ کے مقابلے میں قدیم زمانہ تصور کرتے ہیں جو کہ جلد حقیقت بن جائے گی۔
جب وسیع اسٹوریج کے اعداد و شمار اور تجزیاتی صلاحیتوں کو یکجا کیا جاتاہے اور جب دستیاب جینیاتی اور صحت کے اعداد و شمار پر لاگو کیا جاتا ہے تو اس سے انسانی صحت میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک امریکی جو صحت کی خدمات فراہم کرتا ہے تو وہ 100 ملین لوگوں سے زیادہ صحت کے کھربوں ڈیٹا پوائنٹس حاصل کرتا ہے۔ ایسا میٹا ڈیٹا کا تجزیہ خوراک، علاج اور مرض کی تشخیص کو بہتر بنا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی میں ایک البیس مشین نے ملیریا کی بیماری کے خلاف مزاحمتی ادویات کے خلاف اثر رکھنے والا کمپائونڈ دریافت کیا ہے۔ ایک اور دو نیورل نیٹ ورکس پر مشتمل الگورتھم پر مبنی کمپیوٹر پروگرام جاری کیا گیا ہے جو کہ طالب علم اور استاد کے طور پر پڑھایا جا سکتا ہے۔ ٹیچر نیورل نیٹ ورک 1.7 ملین کے لگ بھگ کیمیائی اسٹرکچر کے پیچھے قوانین سے واقف ہے جو کہ حیاتیاتی طور پر ایکٹو مالیکیول کے طور پر مشہور ہے۔ ٹیچر کے ساتھ کام کرتے ہوئے اسٹوڈنٹ نیورل نیٹ ورک وقت گذرنے کے ساتھ سیکھتا ہے اور مجوزہ مالیکیولز پر بہتر ہو جاتا ہے جو کہ نئی ادویات میں مفید ہو سکتے ہیں۔ اے ایل ڈرگ ڈویلپمنٹ پروگرام کے ساتھ مشترکہ کریسپر جینز کے ملاپ اور ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی سے ڈرامائی طور پر صحت عامہ میں انقلاب آ سکتا ہے۔ نئی ادویات کے جدید ڈائیگناسٹک آلات کے ساتھ اشتراک سے مؤثر انفرادی علاج معالجہ پر پیشرفت ہو سکے گی۔ آگمینٹڈ رئیلیٹی اور ورچوئل رئیلیٹی حقیقی دنیا کے بارے میں معلومات سے متعلق اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیں گے چاہے اس کا مقصد سفر ہو یا سرجری ہو کیونکہ جہاں سرجن بافتوں کی تہیں بیماری سے متاثرہ حصہ کی تلاش کےلیے چیڑ پھاڑ نہیں کرے گا کیونکہ سرجن آپریشن سے پہلے ہر چیز کو تین پہلوئوں سے دیکھ سکے گا۔ ڈاکٹر زندہ خلیوں کو امپلانٹ کر سکے گا جس میں جسم کے اندر تیار شدہ مؤثر ادویات کےلیے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ مصنوعی ذہانت دُہرے استعمال والی ٹیکنالوجی ہے، کمرشل ایپلی کیشن کے علاوہ اس کو فوج، فضائی جنگوں، Avionics، چھوٹے بمبوں، ڈرون کو مسلح کرنے، ڈس انفارمیشن مہمات اور سائبر سیکورٹی کےلیے بڑے پیمانےپر استعمال کیا جاتا ہے۔ مشینوں کے بڑھنے کے ساتھ مثال کے طور پر انسان کی تھوڑی مداخلت کے ساتھ خودکار مشینیں فیصلے کر رہی ہیں، اس نئی حقیقت کو کچھ سمجھتے ہوئےاس کی خامیوں کا ادراک کیا گیا ہے اور 2018 میں 10 بڑی کمپنیوں میں سے سات ایپل، ایمازون، ایلفا بیٹ، مائیکرو سافٹ، فیس بک، علی بابا اور Tencents اس عشرے کے اقتصادی طاقت کے مرکز بن گئے ہیں۔ ایسے معاشرے جو چوتھے صنعتی انقلاب کے ٹیکنالوجی کے اثرات کے ساتھ مثبت انداز میں نمٹ رہے ہیں ان کا معاشی اور سماجی مستقبل بہت بہتر ہے۔ پاکستان کو اس نئی لہر کا ادراک کرتے ہوئے فعال ہونا چاہئے اور ہمارے نوجوانوں کو تیزی سے سیکھنے والے نظریئے پر عمل کرنا چاہئے جس سے ہماری قسمت بدل جائے گی۔ اس ابھرتے ہوئے انقلاب کے معاشی نتائج شاندار ہیں جبکہ مستقبل کی 90 فیصد ملازمتوں کا کسی حد تک انحصار ڈیجیٹل لٹریسی پر ہوگا۔ صرف آگمنٹڈ رئیلیٹی کا اس وقت حجم 2 ارب ڈالر ہے جو کہ دو سال میں 200 ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔ گارٹنر آئی ایم سی کے مطابق 2020ءمیں اے ایل مثبت نیٹ جاب کی طرف راغب کرنے والا ادارہ بن جائے گا جو 2.3ملین ملازمتیں فراہم کرے گا۔ کینیڈا میں سافٹ ٹیکنالوجی کے آغاز سے 2020میں دو لاکھ تک پہنچنے کی پیشنگوئی ہے جس کے باعث کینیڈا نے ایسے ماہرین کا خیرمقدم کرنے کےلیے اپنے امیگریشن پروگرام میں نرمی کی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والا گلوبل کاروباری حجم جو کہ 2017میں692 ارب ڈالر تھا،2018میں 1.2ٹریلین تک پہنچ گیا اور 2022میں 3.9 ٹریلین تک پہنچنے کی پیشنگوئی ہے۔ اس بڑی پیشرفت کے تناظر میں سیلیکون ویلی میں پاکستانی برادری کے ساتھ میری بات چیت کے دوران انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر درست فیصلےکیےگئے تو پاکستان کی سافٹ ویئر کی برآمدات 2023تک30 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ یہ بھی امید ہے کہ اگر ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور اس پر زیادہ بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔پاکستان کو زیادہ اچھا کام کرنےکی ضرورت ہے کیونکہ مستقبل میں عظیم انقلاب کے تناظر میں ہماری معیشت اور دفاعی نظام ہماری مہارتوں پر زیادہ منحصر ہے جو کہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ صارف ہونے کی حیثیت سے ہم مجموعی طورپر حتیٰ کہ مشکل وقت میں بھی غیر ملکی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر پر انحصار کرتے ہیں حالانکہ ہمیں غیر معمولی اقتصادی شراکت داری اور ہماری اپنی سلامتی کو یقینی بنانےکےلیے نئے نظام کے حصہ دار اور مینوفیکچررز ہوناچاہئے۔ ہم پاکستان کےلیے یہ نیا چیلنج تیار کرنے جا رہے ہیں تاہم ان کی مہارتوں کی دنیا بھر میں بڑی طلب ہوگی۔میں پاکستان کو اس ابھرتے ہوئے منظر نامہ میں کیوں نہیں دیکھ سکتا؟ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ ہم جو سافٹ انجینئرتیار کر رہے ہیں وہ مارکیٹ کی طلب کے مطابق نہیں ہیں۔ اس نامناسبت کو ختم کرنےکےلیے ہماری یونیورسٹیوںمیں ذمہ دارانہ اور دانشمندانہ نصاب کے ذریعے درستگی کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کےلیے میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہوں جو کہ چانسلر کی حیثیت سے صدرکے دائرہ اختیار میں آتاہے تاہم ہماری فوری ضروریات کے تناظر میں یہ سافٹ ویئر کی دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہم نے موجودہ سافٹ ویئر انجینئرز کی معلومات کو بہتر بنانے اور مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ سے متعلق صد ر کے اقدام کے تحت رواں سال ایک لاکھ نوجوانوں کےلیے کریش کورسز میں نئے آنے والوں کو بھی تربیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پروگرام کو www.piaic.org پر دیکھا جا سکتا ہے۔امریکی فلسفی ماہر تعلیم John Dewey نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر آج ہم طالب علموں کو پڑھاتے ہیں تو ہم مستقبل کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں، ہم ان کے مستقبل کو محفوظ بناتے ہیں۔ ہمیں آج پاکستانی نوجوانوں کے مستقبل کو دیکھنا چاہئے۔
تازہ ترین