• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر پر حملہ آور بھارتی فوج کے خلاف جوابی کارروائی کرنے والے پاک آزاد دستے دریائے توی کو پار کرکے حدمتارکہ جنگ سے اٹھارہ میل آگے بڑھ چکے ہیں۔ اور انہوں نے جوڑیاں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اپنی زمینی فوج کی پسپائی کو دیکھ کر بھارتی ہائی کمان نے انڈین ائیر فورس کو نہ صرف محاذ جنگ پر بلکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی دہشت پھیلانے کے لیے حملوں کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ بھارت کو بہت مہنگا پڑا اور پاکستان کے عقاب صفت اور شیر دل ہوا بازوں نے سات بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور کئی کو نقصان پہنچایا۔ دو زبردست ہوائی معرکوں کے بعد پاکستان نے پہلی بار بھارتی فوج کی چوکیوں، چھائونیوں، گولہ بارود اور پیٹرول کے ذخیروں پر بمباری کی۔ اس لیے کہ بھارتی ہوائی حملوں کے بعد پاکستان کے لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ اب تک کے واقعات شاہد ہیں کہ کشمیر میں ’’سیز فائر لائن‘‘ پار کرنے یا ہوائی بیڑہ استعمال کرنے کے معاملے میں پاکستان نے پہل نہیں کی بلکہ ہماری طرف سے محض جوابی کارروائی کی گئی ہے۔

کشمیر میں پاکستان کا ہر قدم، ہر تحریک اور ہر کارروائی، حق و انصاف اور دفاع آزادی کے عالمی قوانین کے عین مطابق ہے، مگر عالمی امن کے محافظ ادارے اقوام متحدہ کے برسر اقتدار عناصر چونکہ نیک و بد میں تمیز کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، لہٰذا انہیں آج تک یہ سمجھنے یا سمجھتے ہیں تو کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ کشمیر میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ مظلوم کا حامی کون ہے اور اسے پنجۂ استبداد میں جکڑے رکھنے کی کون کوشش کررہا ہے؟ چنانچہ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ سلامتی کونسل نے ایک بار پھر یہ قرار داد پاس کر ڈالی کہ کشمیر میں دونوں فریق خطِ متارکہ جنگ کا احترام کریں اور جنگ شروع ہونے سے پہلے کی پوزیشنوں پر واپس آجائیں لیکن یہ قرارداد بالکل مہمل ہے اس لیے کہ خط متارکہ جنگ کی خلاف ورزی پہلے بھارت نے کی تھی اس کے اخباروں نے سیزفائر لائن پار کرنے اور اس سلسلے میں اپنے وزرا کے احکامات شائع کئے تھے۔ اس پر بھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی پہلے پاکستان نے کی اور وہ اس طرح کہ آزاد کشمیر کے علاقے سے’’بے وردی مسلح افراد‘‘ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے۔

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی رپورٹ اور سلامتی کونسل کی قرارداد دونوں نہ صرف مہمل ہیں بلکہ ان میں بھارت کے جارحانہ حملوں کی طرف سے جان بوجھ کر مجرمانہ چشم پوشی کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بھارت کے اس موقف کی حمایت کی گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین آزادی ’’پاکستان کے بھیجے ہوئے مسلح سپاہی ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کی اس جانبداری کے بعد پاکستان کو اس ادارے سے انصاف کی کیا امید ہوسکتی ہے؟ یوں تو اقوام متحدہ نے گزشتہ سترہ سال میں کشمیر کے سوال پر حق و انصاف کا ساتھ دینے سے مسلسل گریز ہی کیا ہے۔ لیکن اب تبدیل شدہ حالات میں جب کہ اقوام متحدہ کے غالب عناصر یعنی دول مغرب پاکستان سے اس کی چین دوستی کے باعث ناراض ہیں۔ اس ادارے سے پاکستان دشمنی کے سوا ہم اور کوئی توقع نہیں کرسکتے۔ عین اس وقت جب کہ پاک آزاد افواج مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی خاطر اپنے خون سے تاریخ آزادی کا ایک باب زریں مرتب کررہی ہیں، اقوام متحدہ میں پہلے کی طرح ایک بار پھر اس مسئلے کو تقریروں اور قرار دادوں میں الجھا کر ہمیشہ کے لیے کھٹائی میں ڈالنے کی سازش ہورہی ہے۔ اس سازش میں کون کون شریک ہیں اور کون پہل کررہا ہے۔ پاکستان ان تمام حقائق سے پوری طرح باخبر ہے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو ان ریشہ دوانیوں کے خلاف بطور احتجاج پاکستان کو بھی انڈونیشیا کی طرح اقوام متحدہ سے الگ ہونے میں کوئی تکلف نہیں ہوگا۔

بھارت اور اس کے حامیوں کی خرافات سے قطع نظر مسئلہ کشمیر کا فیصلہ اب میدان جنگ ہی میں ہوگا۔ بھارت نے کشمیر میں پاکستان پر جنگ مسلط کردی ہے اور دشمن کے للکارنے پر ہم اللہ کا نام لے کر اس جہاد میں بے دھڑک کودے ہیں۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہم حق و انصاف پر ہیں۔ ہم ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہیں، لہٰذا کشمیر کی جنگ آزادی اب اپنے تاریخی اور منطقی نتیجے پر پہنچ کر ہی ختم ہوگی۔ ہم برادران کشمیر کو آزادی دلانے کا وعدہ کرچکے ہیں اب اس وعدے کو پورا کردکھانے کا وقت آگیا ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم نے ذرا بھی پس و پیش سے کام لیا اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیا توکشمیر ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین