دیکھ رہا ہوں جس کمان سے بھی تیر نکلتا ہے اُس کا ہدف عمران خان کی ٹیم ہوتی ہے۔ ممکن ہےایک آدھ کھلاڑی کمزور واقع ہومگرکابینہ میں ایک وزیر بھی ایسا نہیں جس پر کرپشن کا کوئی الزام ہو۔ ہدف ِ تنقید وہی ہیں جوسب سےبہترکام کررہے ہیں۔ اسد عمر پر تواپنےپرائے دونوں بہت برہم ہیں حالانکہ وہ تومبارک باد کے مستحق ہیں، اگرچہ مہنگائی ضرور ہوئی ہے مگر ان کےاقدامات پاکستانی معیشت کےلئے صبح کی پہلی کرن کی طرح ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے اسد عمر کوباقاعدہ پلاننگ کے ساتھ ٹارگٹ کیا گیاہے۔ اس میں حکومت کے مخالف تو ہیں ہی کہ اسد عمر کی ناکامی دراصل عمران خان کی ناکامی ہوگی مگر کمیں گاہ میں موجود کچھ دوست بھی ’اسد عمر مخالف مہم ‘کا حصہ بن گئے۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
ایڈوائزی کونسل کے کچھ ممبران بھی شاید اپنے وزیرسےنالاں ہیں۔ وہ دراصل قومی غیرت کے تحت چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ اچھی بات ہے مگر انٹرنیشنل مارکیٹ میں کریڈٹ کےلئے آئی ایم ایف سےروابط برقراررکھنے بھی ضروری ہیں۔ بے شک ہم نے دوست ممالک سے قرض لے کر اپنی معیشت کو مضبوط کرلیا ہے مگرآئی ایم ایف کے ساتھ بزنس کرنے سے پاکستان کی کریڈیبلٹی بنتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسے کوئی شخص ذاتی طور پرکئی لوگوں سے ادھار لے سکتا ہے مگربینک اس کولون صرف اُسی صورت میں دیتاہےجب اسے یقین ہوتا ہےکہ یہ شخص لون واپس کر نے کی اہلیت رکھتاہے۔ یہ اہلیت انٹرنیشنل سطح پرکاروبار کےلئے ضروری ہوتی ہے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان چونکہ ایک طویل عرصہ سے بزنس کرتا آرہا ہے اس لئے اب اُس کے پاس جانا کوئی بری بات نہیں۔ ہاں اگر پاکستان کی معیشت مکمل طور پرمضبوط ہو جائےتو آئی ایم ایف کے پاس جانا قطعاً ضروری نہیں۔ میرے نزدیک تو اسد عمر نے اس وقت تک جو کام کئے ہیں وہ تمام قابل ِ تحسین ہیں۔ جہانزیب خان، شہباز شریف کےقریبی آدمی تھے انہیں اِ س کے باوجود ایف بی آر کا چیئرمین لگا دیا ہے کہ اُن سے بہتر کوئی اور آدمی اس پوسٹ کےلئے موجود نہیں تھا۔ یہ بات مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ جہانزیب خان نے بھی آتے ہی تمام کرپٹ افسران کو عہدوں سےہٹایا، اپنےاختیارات کو نیچے تک پہنچایا۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ ایف بی آر میں ایک بھی پوسٹنگ میرٹ کے بغیر نہیں ہوئی۔ اسد عمر کے خلاف سب سے زیادہ یہ بات دہرائی گئی کہ ان کی پالیسیاں مہنگائی میں اضافہ کررہی ہیں۔ حالانکہ انہوں نے تو جو پالیسیاں بنائی ہیں وہ مہنگائی میں کمی کا سبب بننےوالی ہیں۔ جہاں تک موجودہ مہنگائی کا تعلق ہے تو وہ پچھلی حکومت کی پالیسیوں کا ثمر ہے۔ معاشی پالیسیوں کے نتائج ایک دن میں نہیں آ جایا کرتے۔ کچھ وقت لگتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پریشان حال کسان تھے جوپاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں انہیں ریلیف دینے کےلئےزراعت کے شعبے میں انقلابی اقدام کئے گئےہیں۔ زرعی قرضوں پر ٹیکس کی شرح پہلے 39 فیصد تھی اسے بھی کم کر کے بیس فیصد کردیا گیا ہے۔ زراعت کےلئے استعمال ہونے والے ڈیزل انجن پر پہلے 17فیصد ٹیکس تھا اسے کم کرکے پانچ فیصد کردیا ہے۔ یعنی تمام زرعی مشینری ٹریکٹر تک سستے کر دئیے ہیں۔ کھاد کی فیکٹریوں پر جو گیس کی مد میں ٹیکس تھا وہ کم کردیا ہے یعنی اب کھاد بھی سستی ہوجائے گی۔ مکانوں کی تعمیر کےلئے قرض حسنہ کی مد میں پانچ ارب روپے رکھے ہیں۔ یہ پانچ ارب روپے غریبوں میں تقسیم ہوں گے۔ مہنگے موبائل فون چھوڑ کر باقی تمام موبائل فون پر ٹیکس کم کر دیا ہے یعنی جو فون عام لوگ استعمال کرتے ہیں انہیں بھی سستا کردیا گیا ہے۔ چھوٹے کاروبار پر پہلے ٹیکس کی شرح 49 فیصد تھی اسے کم کر کے بیس فیصد کردیا گیا ہے۔یقیناًاس سے مہنگائی میں کمی واقع ہو گی۔ جب سے گاڑی کی خریداری کےلئے فائلرہونا ضروری قرار دیا گیا تھا گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہوگیا تھا۔ فائلرز گاڑیاں خرید کر مہنگے داموں نان فائلرز کوفروخت کرنے لگے تھے۔ انہوں نے 1300 سی سی تک نان فائلرز کو گاڑیا ں خریدنے کی اجازت دے کرانہیں راستہ فراہم کیا ہے۔ ایک مخصوص حد تک جائیداد کی خریداری کی بھی اجازت دی ہے۔ اس کے ساتھ1800سی سی گاڑیوں اور بڑی جائیدادوں پر ٹیکس بڑھایا بھی ہے۔ یعنی امیروں پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے اور غریبوں پر کم کیا گیا ہے ۔یہ بڑے اہم اقدامات ہیں۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ فائلرز کو جو فائدہ دیا گیا ہے اس سے یقیناً بینکنگ سسٹم مستحکم ہوگا پہلے فائلرز کوہر چیک پر پوائنٹ تھری پرسنٹ ود ہولڈنگ ٹیکس دینا پڑتا تھا، وہ ختم کردیا ہے۔ اب کاروباری حضرات اور ادارے زیادہ سے زیادہ کاروبار بینک کی وساطت سے کریں گے۔ اسٹاک ایکسچینج میں ٹریڈنگ پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرط بھی ختم کردی ہے۔ ایک کام بہت ہی اہم کیا گیا ہے کہ سولر پینل اور ونڈ ٹربائن کے کاروبار کو ٹیکس سے پانچ سال کےلئے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اب وہ تمام سولر پینل جو پاکستان میںبن رہے ہیں، سستے ہوجائیں گے۔ پاکستان میں سولر پینل اور ونڈ ٹربائن بنانے کے نئے کارخانے لگیں گے۔ انرجی کے بحران سےملک کونکالنے کےلئے یہ ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پچھلے سال صرف بجلی کے نظام میں ساڑھے چار سو ارب کا خسارہ ہوا۔ محصولات کے اِس نظام سے یقیناًشاندارنتائج برآمد ہوں گے سو اسد عمر کےلئے کلمہ خیر بنتاہے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ کہتے ہیں کہ ترقی کےلئے ترقیاتی منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے۔ انڈسٹریز پر توجہ درکارہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے اصلاحات کا جو یادگار پیکیج دیا گیا ہے اس کے بعد پیداوارکی کھپت کےلئے انڈسٹریز کی ترقی انتہائی ضروری ہے۔